روزنامہ جنگ لاہور ۲۶ اگست ۲۰۰۵ء کی خبر کے مطابق صوبہ سرحد میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا کام شروع ہونے کے بعد اس وجہ سے رک گیا ہے کہ وفاقی وزارت اوقاف نے اس سلسلہ میں جو فارم فراہم کیے ہیں ان میں دینی مدارس سے ان کی آمدنی کے ذرائع اور کوائف بھی طلب کیے گئے ہیں اور انہیں اس امر کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ چندہ دینے والے معاونین کے نام بھی حکومت کو فراہم کریں۔
اس سے قبل دینی مدارس کے تمام وفاقوں کے قائدین کے ساتھ حکومت کے ذمہ دار حضرات کے مذاکرات کے بعد اس بات پر اتفاق ہوگیا تھا کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن اسی سوسائٹی ایکٹ کے تحت عمل میں آئے گی جس کے تحت وہ پہلے سے رجسٹرڈ ہوتے چلے آرہے ہیں البتہ اس ایکٹ میں ایک ترمیم کے تحت یہ امور شامل کیے گئے ہیں کہ:
- ہر مدرسہ کے لیے رجسٹریشن لازمی ہوگی اور اس کے بغیر کوئی مدرسہ کام نہیں کر سکے گا۔
- دینی تعلیم کے لیے قائم ہونے والا کوئی بھی ادارہ خواہ وہ کسی نام سے ہو دینی مدرسہ شمار ہوگا۔
- دینی مدارس میں فرقہ وارانہ اور عسکریت پر مبنی تعلیم نہیں دی جائے گی۔
- دینی مدارس اپنی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ اور آڈٹ شدہ حسابات کی رپورٹ کی کاپی ہر سال رجسٹریشن آفس میں جمع کرانے کے پابند ہوں گے۔
ان میں سے فرقہ وارانہ اور عسکری تعلیم کی شق کے بارے میں بعض تحفظات کے اظہار کے ساتھ وفاقوں کی قیادت نے ان ترامیم کو قبول کرکے مدارس کی رجسٹریشن کرانے کا اعلان کر دیا تھا اور صوبہ سرحد میں اس پر عملدرآمد کا آغاز بھی ہوگیا تھا۔ مگر مذکورہ بالا خبر کے مطابق وفاقی وزارت مذہبی امور نے اس مقصد کے لیے صوبوں کو جو فارم مہیا کیے ہیں ان میں دینی مدارس کے اخراجات کی تفصیل، آمدنی کے ذرائع اور چندہ دینے والے معاونین کے نام فراہم کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے جس سے رجسٹریشن کا کام رک گیا ہے اور یہ مسئلہ ایک بار پھر بحران کا شکار ہوتا نظر آتا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے جامعہ محمدیہ اسلام آباد میں مولانا قاری سعید الرحمن صاحب کی زیر صدارت منعقد ہونے والے ایک ملک گیر علماء کنونشن میں رجسٹریشن کے سرکاری منصوبے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر مسترد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور اس بارے میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری تھا کہ حکومت نے مذکورہ بالا فارم فراہم کرکے اسلام آباد کنونشن کے ان خدشات کی تصدیق کر دی ہے کہ رجسٹریشن سے حکومت کا مقصد صرف رجسٹریشن اور ڈاکومینٹیشن نہیں ہے بلکہ وہ کسی نہ کسی بہانے دینی مدارس کے نظام میں مداخلت کا راستہ نکالنا چاہتی ہے اور ان کے خلاف دباؤ بڑھانے کی صورتیں تلاش کر رہی ہے۔
ہم دینی مدارس کے حوالہ سے حکومت کے خلاف محاذ آرائی کے حق میں نہیں ہیں لیکن دینی مدارس کے نظام میں سرکاری مداخلت کی کوئی صورت قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اس لیے حکومت سے گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ معروضی حقائق کو تسلیم کرنے اور دینی مدارس کے خلاف مغربی دنیا کے ایجنڈے میں اس کا آلہ کار بننے کی بجائے اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے جذبات کی پاسداری کرتے ہوئے دینی مدارس کو حسب سابق آزادی اور خود مختاری کے ماحول میں اپنا کام جاری رکھنے کا موقع فراہم کرے، اسلام اور مسلمانوں کا مفاد بھی اسی میں ہے اور اگر حکومت بیرونی دباؤ کی عینک اتار کر اپنی عقل اور دانش کی بنیاد پر اس کا جائزہ لے تو خود اس کے فائدے کی بات بھی یہی ہے ۔