ماہنامہ نصرۃ العلوم کے اگست کے شمارے میں ’’حالات و واقعات‘‘ کے تحت راقم الحروف نے فلسطین کے وزیر اعظم محمود عباس کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کا تعلق بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق بہائی مذہب سے ہے جو اسلام سے منحرف گروہ ہے اور قادیانیوں کی طرح ختم نبوت کے عقیدہ کا انکار کرتے ہوئے مرزا بہاء اللہ شیرازی کی نبوت کا قائل ہے ۔ اس پر پشاور سے جناب مہربان اختری صاحب کا خط موصول ہوا ہے جس میں انہوں نے ان دونوں باتوں سے انکار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ محمود عباس بہائی نہیں ہیں اور ’’تاریخِ دیانت بہائی‘‘ اور الواح و آیاتِ مقدسہ حضرت بہاء اللہ میں کہیں بھی دعوائے نبوت کا ذکر موجود نہیں ہے، اہل بہاء کا راسخ عقیدہ ہے کہ آنحضرتؐ پر نبوت ختم ہوگئی ہے۔
جہاں تک محمود عباس موصوف کے بہائی ہونے کا تعلق ہے اس کے بارے میں بین الاقوامی رپورٹیں موجود ہیں جن کا تذکرہ ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور نے جولائی ۲۰۰۳ء کے شمارہ میں کیا ہے اور بعض دیگر اخبارات و جرائد جن میں ہفت روزہ ضرب مومن کراچی بھی شامل ہے، انہی رپورٹوں کی بنیاد پر لکھا ہے کہ فلسطین کے وزیر اعظم محمود عباس کا تعلق بہائی فرقہ سے ہے۔ اور یہ بات قرین قیاس بھی ہے کہ فلسطین بہائی فرقہ کا ایک اہم مرکز ہے اور فلسطین کے ایک شہر ’’عکہ‘‘ کو بہائی مذہب میں قبلہ کی حیثیت حاصل ہے۔ باقی رہی بات ختم نبوت پر بہائیوں کے اعتقاد کی تو اس کے بارے میں ہم بہائیوں کے لاہور سے شائع ہونے والے ماہنامہ نفحات کے ایک مضمون کا اقتباس پیش کرنا چاہتے ہیں جو ستمبر و اکتوبر ۱۹۹۶ء کے مشترکہ شمارے میں ’’ارتقا اور اہل بہاء‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے، اس میں لکھا ہے کہ:
’’ اہل بہاء مانتے ہیں کہ خدا کا کلام نازل ہوتا رہے گا، اس کے احکام آتے رہے ہیں گے، پیغمبران الٰہی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوگا، جب تک نوع انسان موجود ہے تب تک وقتاً فوقتاً پیغمبر آتے رہیں گے، وحی الٰہی نازل ہوتی رہے گی، پیغمبروں کا آنا رحمت ہے، وحی الٰہی خدائی عنایت ہے، گمراہی کے وقت نوع انسانی کو راہ راست دکھانا الٰہی فطرت و سنت ہے اور سنت اللہ تبدیل نہیں ہوتی، جو لوگ اس سنت اللہ کو بند سمجھتے ہیں وہ روحانی زندگی کے سرچشمہ سے دور ہوگئے ہیں، وہ خشک ہوتے جا رہے ہیں، ان کے باطن میں تعلق الٰہی کی روح مفقود ہو چکی ہے، وہ قوت یقین سے خالی اور مقام عرفان سے محروم ہو رہے ہیں‘‘ ۔
اسی مضمون میں آگے چل کر یہ لکھا ہے کہ:
’’اہل بہاء تمام پیغمبروں اور اوتاروں کو مانتے ہیں اور سب کی سچائی دنیا کو سمجھاتے ہیں، تمام مقدس کتابوں کے حقائق اور اسرار اہل بہاء کے روبرو منکشف ہو رہے ہیں، الواح الٰہی کی روشنی میں سب کتابوں کے بھید کھل گئے ہیں، تمام اہل مذاہب جو ایک دوسرے کی کتاب کو جھوٹا بتاتے ہیں ظلمت میں ہیں، اندھیرے میں ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں، جب وہ بصیرت حاصل کرتے ہیں تو دیکھ لیتے ہیں کہ تمام مذاہب دراصل ایک ہی مذہب ہیں، سب مقدس کتابیں اصل میں ایک ہی کتاب ہیں، سب احکام و فرمان ایک ہی حاکم علی الاطلاق کے احکام ہیں، سب کی غرض انسان کو ترقی و فلاح کے معراج پر پہنچانا ہے اور اب تمام مذاہب عالم دین بہائی میں اس طرح جذب ہوگئے ہیں جس طرح نہریں دریا میں پہنچ کر ایک ہوجاتی ہیں، حضرت بہاء اللہ کا ظہور تمام پیغمبروں کا ظہور ہے مگر نئی اور اعلیٰ تجلیات کے ساتھ، الواح حضرت بہاء اللہ میں تمام کتب الٰہیہ جمع ہوگئی ہیں جیسے عطر میں بہت سے پھول جمع ہو جاتے ہیں لیکن نئی قوت و شان کے ساتھ‘‘۔
اس صراحت کے بعد بھی اگر مہربان اختری صاحب کو اصرار ہے کہ بہائی مذہب کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کو ختم سمجھتے ہیں اور مرزا بہاء اللہ شیرازی نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تو اسے مغالطہ یا بھولپن کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ بہائیوں نے بھی قادیانیوں کی طرح عام مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے یہ تکنیک اختیار کر رکھی ہے کہ نبوت اور رسالت کے مختلف درجات ہیں اور بعض درجات ایسے ہیں جو امت میں بھی افراد کو مل سکتے ہیں، اور پھر اس تکنیک کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ دونوں گروہ عام مسلمانوں کو اس فریب کا شکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس طرح کی نبوت ماننے سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے عقیدہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور مرزا بہاء اللہ شیرازی یا مرزا غلام احمد قادیانی اور کو اس طرح نبی ماننے سے ختم نبوت پر ایمان بدستور قائم رہتا ہے۔ اس حوالہ سے خود قادیانیوں اور بہائیوں میں بھی باہمی مباحثے چلتے رہتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو جھوٹا قرار دینے کے لیے مسلسل اپنے جرائد میں لکھتے رہتے ہیں لیکن دو باتوں میں دونوں پورے طرح متفق ہیں:
- ایک یہ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں مسیح علیہ السلام کی واپسی اور امام مہدیؒ کے ظہور کے بارے میں جتنی علامات مذکور ہیں انہیں یہ دونوں گروہ اپنے اپنے مقتدا پر فٹ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
- اور دوسرا یہ کہ قادیانیوں کی طرح بہائیوں نے بھی عام مسلمانوں کے سامنے خود کو مسلمان کے روپ میں پیش کرنے اور ختم نبوت پر اپنے عقیدہ کے منافقانہ اظہار کے ذریعہ انہیں دھوکہ دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جیسا کہ مہربان اختری صاحب کے مذکورہ خط سے ظاہر ہے۔
ایران کے مذہبی انقلاب کے بعد گزشتہ ربع صدی کے دوران بے شمار بہائیوں نے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا ہے، مختلف بڑے شہروں میں ان کے مراکز قائم ہوچکے ہیں، تعلیمی اور رفاہی حوالوں سے محنت کو ذریعہ بنا کر عام مسلمانوں کو اس فریب کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی مختلف تنظیموں کے ذمہ دار حضرات سے ہم متعدد بار گزارش کر چکے ہیں کہ عام مسلمانوں کو قادیانیوں کی طرح بہائیوں کے عقائد، تاریخی پس منظر، سرگرمیوں اور طریق واردات سے آگاہ کرنے کے لیے منظم جدوجہد کی ضرورت ہے، خدا کرے کہ اس محاذ پر کام کرنے والی جماعتیں اس ضرورت کو کسی درجہ میں محسوس کر لیں، آمین یا رب العالمین۔