’’معتدل مسلمان‘‘ کا امریکی معیار

   
دسمبر ۲۰۰۷ء

دہلی سے شائع ہونے والے جریدہ سہ روزہ دعوت کی ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں امریکہ کے تحقیقی ادارہ ’’راند‘‘ کے حوالہ سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی راہنماؤں کی طرف سے اعتدال پسند مسلمانوں کو مسلم ممالک میں آگے لانے اور انتہا پسندوں کو کارنر کرنے کی جو پالیسی جاری ہے اور جس پر اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں- اس میں ’’معتدل مسلمانوں‘‘ سے ان کی مراد کیا ہے اور وہ کن حوالوں سے اعتدال پسند مسلمانوں اور انتہا پسند مسلمانوں کے درمیان امتیاز قائم کرتے ہیں؟ رپورٹ کے مطابق کسی مسلمان کو اعتدال پسندی کے دائرہ میں شامل کرنے کے لیے چار شرائط کو ضروری قرار دیا گیا ہے:

  1. وہ جمہوریت اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کو قبول کرتا ہو۔
  2. سیاسی، دینی اور ثقافتی تنوع کا احترام کرتا ہو۔
  3. غیر طائفی بنیادوں پر قائم قوانین کو تشریعی مصدر کے طور پر تسلیم کرتا ہو۔
  4. دہشت گردی کی ہر شکل کو مسترد کرتا ہو۔
  • عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق سے مراد انسانی حقوق کے حوالہ سے اقوامِ متحدہ کا وہ تیس نکاتی اعلامیہ ہے جسے انسانی حقوق کا واحد معیار قرار دے کر مسلمانوں سے اسے من و عن تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، جبکہ اس کی متعدد دفعات قرآن و سنت کے صریح احکام سے متصادم ہیں۔
  • سیاسی، دینی اور ثقافتی تنوع کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ میں مختلف سیاسی نظریات کے حامل افراد، مختلف مذاہب کے حاملین اور مختلف ثقافتوں کے لوگوں کو یکساں حیثیت حاصل ہو اور خاص طور پر کسی مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہ ہو۔
  • غیر طائفی بنیاد پر قائم قوانین سے مراد یہ ہے کہ ان قوانین کی تشکیل کسی ایک طبقہ یا مذہب کے اعتقادات کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ تمام مذاہب اور طبقات کے لوگ انہیں برابری کی بنیاد پر تشکیل دیں۔
  • جبکہ دہشت گردی کی ہر شکل سے مراد یہ ہے کہ مغرب جسے دہشت گرد قرار دے اسے دہشت گرد تسلیم کر کے اسے زندگی کے حق سے محروم کر دیا جائے، حالانکہ عالمی سطح پر ابھی تک دہشت گردی کی کوئی تعریف طے نہیں کی گئی اور کسی گروہ، فرد یا قوم کو دہشت گرد قرار دینا خالصتًا مغرب کی صوابدید پر موقوف ہے۔

اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں ایک سوالنامہ دیا گیا ہے جس کے ذریعے کسی زیر تفتیش اور مشتبہ شخص کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی سطح چیک کی جاتی ہے۔ اس سوالنامہ کے اہم سوالات یہ ہیں کہ:

  1. کیا تم تشدد کی تائید کرتے ہو یا اسے نظر انداز کرتے ہو؟
  2. کیا تم جمہوریت کی تائید کرتے ہو؟
  3. کیا تم عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کی تائید کرتے ہو؟
  4. کیا تم دین کی تبدیلی کو فرد کا حق مانتے ہو؟
  5. کیا تم مانتے ہو کہ کسی مسلم حکومت کو اہل وطن پر اسلامی شریعت نافذ کرنی چاہیے؟
  6. کیا تم سمجھتے ہو کہ مسلم ملک میں مذہبی اقلیتوں کو مسلمانوں کی طرح حقوق حاصل ہونے چاہئیں؟
  7. کیا تم سمجھتے ہو کہ مسلم اکثریتی ملک میں مذہبی اقلیت کے کسی فرد کو اعلیٰ ترین سیاسی منصب حاصل کرنے کا حق ہے؟
  8. کیا غیر طائفی بنیادوں پر مبنی قانونی نظام کو قبول کرنا تمہارے لیے ممکن ہے؟ وغیر ذٰلک

اور اس کے علاوہ مذکورہ بالا رپورٹ میں معتدل مسلمانوں کی مزید وضاحت کے لیے یہ بتایا گیا ہے کہ مصر کے ڈاکٹر نصر ابو زید، امریکہ کی ڈاکٹر آمنہ ودود، اور بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین کو ان امریکی دانشوروں کی نظر میں مثالی معتدل مسلمانوں کی حیثیت حاصل ہے اور ان کی خواہش ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان امریکہ کے کاغذات میں اعتدال پسند مسلمان کا درجہ حاصل کرنے کے لیے ان کی پیروی کریں۔

اس رپورٹ کو سامنے رکھ کر بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مغربی ممالک اور عالمِ اسلام میں ان کی نمائندگی کرنے والے مسلمان دانشور جس اعتدال پسند اسلام کا پرچار کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو جس طرح کا معتدل بنانا چاہتے ہیں اس کا عملی نقشہ ان کے ذہنوں میں کیا ہے۔ لیکن کیا دنیا کے کسی بھی خطہ میں مسلمانوں کو اس قسم کے نام نہاد اعتدال پسند اسلام کو قبول یا برداشت کرنے پر اب تک تیار کیا جا سکا ہے یا مستقبل میں اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے؟ ہمارے خیال میں زمینی حقائق اس کی مکمل نفی کرتے ہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کوشش یا خواہش کا احمقانہ پن مزید واضح ہوتا جا رہا ہے کیونکہ جب تک مسلمانوں کے پاس قرآن کریم اور جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت موجود ہے اور ان کی تعلیمات تک ایک عام مسلمان کو رسائی کے مواقع میسر ہیں، ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ مغرب اس سے قبل دو سو سال کے نو آبادیاتی دور میں دنیا کے بیسیوں مسلم ممالک میں اس کا ناکام تجربہ کر چکا ہے اور اب اسی تجربے کو امریکہ کی قیادت میں پھر سے دہرایا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ اب بھی پہلے سے مختلف نہیں ہو گا۔ البتہ اس سے دیندار مسلمانوں کی مشکلات اور آزمائشوں میں ضرور اضافہ ہو گا مگر جس طرح اس سے قبل مسلمان مجموعی طور پر اس آزمائش میں سرخرو ہوئے ہیں، اب بھی ان شاء اللہ تعالیٰ انہیں سرخروئی حاصل ہو گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter