سزائے موت کے قیدیوں کو عمر قید کی سزا

   
جولائی ۲۰۰۸ء

وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر ملک بھر میں سزائے موت کے قیدیوں کی سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس سلسلہ میں سمری صدر کو بھجوائی جا رہی ہے۔ اس پر ایک طرف سزائے موت کے قیدیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے لیکن دوسری طرف ان مقتولین کے گھروں میں ایک بار پھر صفِ ماتم بچھ گئی ہے جن کے جگر گوشوں کے قتل کے جرم میں سزائے موت کے ان قیدیوں کو ملک کی باقاعدہ عدالتوں نے سزائے موت سنائی تھی۔

روزنامہ پاکستان لاہور میں ۲۲ جون ۲۰۰۸ء کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق ملک کی بہت سی دینی جماعتوں کے راہنماؤں نے وزیر اعظم کے اس اعلان کو ہدف تنقید بنایا ہے اور کہا ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے قاتل کی سزائے موت کو معاف کرنا صرف مقتولین کے ورثاء کا حق ہے اور انہیں اعتماد میں لیے بغیر سزائے موت کو ختم کرنا مقتولین کے ورثاء کی حق تلفی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ دینی راہنماؤں کا یہ ردعمل نا روا نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کے قانون کے مطابق ہے۔ حکومت اگر ان قیدیوں کی سزائے موت کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے اس سلسلہ میں مقتولین کے وارثوں کو اعتماد میں لینا چاہیے اور انہیں اس فیصلے میں شریک کرنا چاہیے، ورنہ یہ فیصلہ اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ مقتولین کے ورثاء کی حق تلفی بھی ہو گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter