جامعہ محمدیہ اسلام آباد اور دیگر متعدد مدارس پر چھاپوں کے بعد دینی مدارس کے خلاف کاروائی کا ایک نیا راؤنڈ شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مدارس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں طلبہ کو مبینہ دہشت گردی کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور حکمرانوں کے بقول دہشت گرد ان مدارس کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل جنوبی پنجاب کے بہت سے مدارس پر چھاپے مارے گئے تھے لیکن ان چھاپوں سے کچھ حاصل نہ ہوا اور اساتذہ و طلبہ کی تفصیلی تلاشیوں کے بعد یہ دیکھنے میں آیا کہ ان غریبوں کے پاس کتابوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور شب و روز ان کا مشغلہ صرف پڑھنا اور پڑھانا ہے۔ اب اسلام آباد کے مدارس پر چھاپوں کا نتیجہ بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں نکلا لیکن اس سب کچھ کے باوجود دینی مدارس کے خلاف استعماری قوتوں اور ان کے گماشتوں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور وہ کسی نہ کسی عنوان سے دینی مدارس کو بدنام کرنے اور ان کے اساتذہ، طلبہ اور منتظمین کو ہراساں کرنے کی کوئی نہ کوئی صورت نکالتے رہتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ۱۷ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو اواری ہوٹل لاہور میں صفاء اسلامک سنٹر کے زیر اہتمام ’’دینی تعلیم اور عصری تقاضے‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں راقم الحروف کو شرکت کا موقع ملا جس میں عنوان کے مختلف پہلوؤں پر متعدد ارباب دانش نے خطاب کیا اور راقم الحروف نے بھی گزارشات پیش کیں، اس موقع پر صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے بہت فکر انگیز گفتگو کی جس کا ایک پہلو قارئین کی خدمت میں پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات سب سے پہلے امریکہ کی طرف سے کہی گئی تھی کہ ہمارے دینی مدارس میں دہشت گرد تیار ہوتے ہیں اور اب ہمارے ہاں بھی قومی سطح پر لاشعوری طور پر اس سوچ کو قبول کر لیا گیا اور عام طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس دہشت گرد تیار کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے، دینی مدارس دینی تعلیم کے لیے قابل قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور ہم ان کی قدر کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ سوویت یونین کے خلاف افغانستان کے جہاد میں لڑنے کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جو دینی جذبہ کے ساتھ لڑ سکیں اس کے لیے پاکستانی حکمرانوں اور اداروں نے دینی مدارس کے طلبہ میں سے افراد کو تیار کرنا شروع کیا، اس لیے کہ دینی جذبہ کے ساتھ وہی لوگ لڑ سکتے تھے جنہوں نے دین کی تعلیم حاصل کی ہے، ان طلبہ نے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی اور اسے شکست دی، ان مجاہدین کے خلوص اور جذبہ جہاد میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے پورے خلوص کے ساتھ جہاد کیا۔ لیکن انہیں سپورٹ اور تیار کرنے والوں کے مقاصد میں صرف سوویت یونین کو شکست دینا تھا اس لیے وہ اپنا مقصد حاصل ہو جانے کے بعد پیچھے ہٹ گئے اور مجاہدین کو تنہا چھوڑ دیا۔ ان مجاہدین سے کہا گیا کہ اب تم اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرو، اگر اس وقت انہیں باقاعدہ فوج میں شامل کر لیا جاتا یا ان کے لیے قومی سطح پر پالیسی طے کر کے ان کا کوئی پروگرام طے کر لیا جاتا تو صورتحال یہ نہ ہوتی، لیکن انہیں تیار کرنے والے پیچھے ہٹ گئے اور انہیں اپنے مستقبل کا پروگرام طے کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا گیا۔ اب جس شخص نے جدید ترین اسلحہ کی ٹریننگ حاصل کی ہے، سالہا سال تک اسے کامیابی کے ساتھ استعمال کیا ہے اور اس نے اس کے سوا کوئی اور کام بھی نہیں سیکھا وہ اپنے مستقبل کا ایجنڈا اس کے سوا کس حوالے سے طے کرے گا؟ اس لیے دہشت گردی کی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری دینی مدارس پر نہیں بلکہ جہاد افغانستان کے دوران ان مجاہدین کو تیار کرنے والوں پر اور اس کے بعد انہیں چھوڑ کر پیچھے ہٹ جانے والوں پر عائد ہوتی ہے۔
یہ اس گفتگو کا خلاصہ ہے جو مذکورہ سیمینار میں صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے اس حوالہ سے کی ہے۔ ہمیں ان کی اس بات سے مجموعی طور پر اتفاق ہے لیکن ہم ان سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ اپنے اس حقیقت پسندانہ تجزیے کو کسی ہوٹل کے بند کمرے تک محدود رکھنے کی بجائے ملک کے پالیسی سازوں تک پہنچانے کی کوشش کریں اور دینی مدارس کو بدنام کرنے والوں اور ان کے اساتذہ و طلبہ کو ہراساں کرنے والوں کو بھی یہ بات سمجھائیں کہ وہ مبینہ دہشت گردی کے اصل اسباب و عوامل کا جائزہ لیں اور غریب مدارس پر بلا وجہ غصہ نکالتے رہنے کی بجائے مبینہ دہشت گردی کے اصل محرکات و عوامل کو روکنے کی کوئی صورت نکالیں۔