روزنامہ پاکستان لاہور ۲۱ مارچ ۲۰۱۰ء کی خبر کے مطابق حکومت سندھ نے ۲۰ مارچ کو سندھ کے عظیم مجاہد حضرت پیر صبغۃ اللہ راشدی ؒ کے یوم وفات کے موقع پر سرکاری تعطیل کی ہے اور ان کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ یوم وفات یا اس قسم کے دیگر ایام کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے البتہ اس کے ذریعے آج کے دور میں کسی شخصیت، واقعہ یا مسئلہ کے ساتھ عوامی وابستگی اور جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔
پیر صبغۃ اللہ راشدیؒ سندھ کے ان عظیم حریت پسند راہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف مسلح جنگ آزادی کا آغاز کیا اور حروں کی فوج منتظم کر کے استعماری حکمرانوں کے خلاف چھاپہ مار کاروائیاں شروع کیں۔ سندھ میں حروں کی یہ جدوجہد آزادی کی مسلح جنگوں میں ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت پیر صبغۃ اللہ شاہ راشدی ؒ کا تعلق سندھ کے ایک بڑے روحانی سلسلہ ’’عالیہ قادریہ راشدیہ‘‘ سے تھا اور اس علاقہ کی بڑی خانقاہیں امروٹ شریف، دین پور شریف، ہالیجی شریف اور لاہور میں حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری ؒ کی خانقاہ اسی راشدیہ سلسلہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ جبکہ امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی ؒ بھی اسی عظیم خانقاہ کے فیض یافتہ حضرات میں سے ہیں۔ حضرت پیر صبغۃ اللہ شاہ راشدی ؒ کی اس مسلح جد و جہد کو عوامی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی اور سندھ کے ہزاروں باغیرت نوجوانوں نے ان کی قیادت میں آزادی وطن کے لیے ہتھیار اٹھا لیے جس پر برطانوی استعمار کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت پیر صاحب ؒ کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور بغاوت کے الزام میں انہیں ۲۰ مارچ ۱۹۴۱ء کو حیدر آباد جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ برطانوی حکومت ان سے اس قدر خوفزدہ تھی کہ پھانسی کے بعد ان کی لاش بھی ورثاء کے حوالہ نہیں کی گئی۔
حضرت پیر صبغۃ اللہ راشدی ؒ روحانی اور جہادی دونوں حوالوں سے ہمارے بزرگوں میں سے تھے مگر ان کے بعد اس عظیم خانقاہ کا رنگ بدل گیا اور رفتہ رفتہ اس نے سندھ کی روایتی خانقاہوں کا رنگ اختیار کر لیا۔ ہمیں سندھ حکومت کے اس فیصلے سے خوشی ہوئی ہے کہ اس نے تحریک آزادی کے ایک نامور مجاہد کی یاد کو تازہ کرنے کا اہتمام کیا ہے اپنے محسنوں اور مجاہدوں کو یاد رکھنا قوموں کی زندگی کی علامت ہوتا ہے اور اس سے نئی نسل کو راہنمائی بھی ملتی ہے۔