دینی مدارس کے منتظمین سے ایک گزارش

   
۱۱ دسمبر ۱۹۹۸ء

ہمارے معاشرے میں عام آدمی کا تعلق دینی تعلیم کے ساتھ قائم رکھنے اور دینی علوم کی حفاظت و ترویج کے لیے دینی مدارس نے گزشتہ سو، سوا سو برس میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ بلاشبہ ہماری ملی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اور کسی سرکاری امداد کے بغیر عام لوگوں کے رضاکارانہ تعاون سے انتہائی سادگی، قناعت اور کم سے کم خرچہ کے ساتھ اپنے اہداف میں پیشرفت کر کے دینی مدارس کے اس نیٹ ورک نے جو سب سے بڑا مقصد حاصل کیا ہے، وہ یہ ہے کہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے ارشاد کے مطابق یہ خطہ اسپین بننے سے بچ گیا ہے، اور صدی سے زیادہ عرصہ تک فرنگی اقتدار اور مغرب کی فکری اور ثقافتی یلغار کا شکار رہنے کے باوجود اس خطہ کے مسلمانوں کا اپنے دینی عقائد، روایات، ماضی اور اسلاف کے ساتھ ذہنی رشتہ نہ صرف قائم ہے بلکہ دن بدن مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہی بات مغرب کی سیکولر لابیوں کے لیے پریشانی کا سب سے بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے جس کا اظہار ان دینی مدارس کے خلاف مغربی ابلاغ کے منفی پراپیگنڈا اور کردارکش مہم سے وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔

ان دینی مدارس نے اسلامی علوم و اقدار کے تحفظ و دفاع کی جنگ کامیابی کے ساتھ لڑی ہے، اور اس تحفظاتی اور دفاعی جنگ کے دور میں دینی مدارس کے منتظمین نے بہت سے ایسے ’’تحفظات‘‘ اختیار کر لیے تھے جو عام لوگوں اور جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آرہے تھے۔ مگر اس دفاعی جنگ کو صحیح ترتیب کے ساتھ لڑنے کے لیے ضروری تھے اور ان تحفظات کے بغیر یہ مدارس نہ اپنی صف بندی صحیح رکھ سکتے تھے اور نہ ہی متعین اہداف کی طرف ضروری پیشرفت ان کے لیے ممکن تھی۔ انہی تحفظات میں ایک بات دینی مدارس کے نصاب تعلیم کے بارے میں ان مدارس کے منتظمین اور اساتذہ کا بے لچک رویہ تھا کہ وہ تمام تر تحریص و تخویف کے باوجود نصاب تعلیم میں کسی قسم کی تبدیلی کو قبول اور اختیار کرنے کے روادار نہیں ہوئے اور ’’اصحاب کہف‘‘ کی طرح ایک غار میں داخل ہو کر خود کو اردگرد کے ماحول سے کلی طور پر لاتعلق کر لیا۔

یہ بات بہت سے دانشوروں کے نزدیک قابل اعتراض تھی مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ طرز عمل اس ہدف کی طرف بڑھنے کے لیے ناگزیر تھا جو دینی مدارس قائم کرتے وقت اس تحریک کے بانیوں کے ذہنوں میں تھا، کیونکہ اگر یہ دینی مدارس اپنی جداگانہ روش ترک کر کے ’’اجتماعی دھارے‘‘ کے ساتھ ایڈجسٹ ہو جاتے تو ان کی آخری منزل بھی عملاً وہی ہوتی جو اجتماعی دھارے کے لیے اس دھارے کی حدود متعین کرنے والوں نے طے کر رکھی تھی۔ اور اگر یہ دینی مدارس اجتماعی دھارے کے ساتھ بہہ جانے کی بجائے اس اجتماعی دھارے کا رخ اپنے اہداف کی طرف موڑنے کی کوشش میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ وہی ’’بے لچک رویہ‘‘ ہے جو ان دینی مدارس نے اپنے نصاب و نظام کے حوالہ سے اختیار کیے رکھا اور تمام تر طعن و تشنیع اور تنقیدات و اعتراضات کے باوجود انہوں نے اپنی مقرر کردہ حدود سے باہر جھانکنے سے بھی گریز کیا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے کوئی باشعور شخص صرفِ نظر نہیں کر سکتا مگر وقت اب بہت آگے بڑھ گیا ہے اور ہم تحفظ اور دفاع کے دور سے نکل کر پیش قدمی اور اقدام کے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت اور پاکستان میں طالبان کی طرز کے اسلامی نظام کی خواہش کا ہر سطح پر اظہار اس پیش قدمی اور اقدام کے دور کا عملی آغاز ہے، اس لیے ہماری دیانت دارانہ رائے ہے کہ دینی مدارس کو اب ان تحفظات پر زیادہ اصرار نہیں کرنا چاہیے جو تحفظ اور دفاع کی جدوجہد کے لیے تو ضروری تھا مگر اب وہ پیش قدمی اور اقدام کی جدوجہد کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ دینی مدارس کے ارباب حل و عقد کو ’’دفاعی جنگ‘‘ اور ’’اقدامی پیشرفت‘‘ کے درمیان فرق کا ادراک کرنا چاہیے اور ان ضروریات کا احساس کرنا چاہیے جو اسلام کے نفاذ کے حوالے سے ناگزیر تقاضوں کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہیں اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان دینی اداروں اور مدارس کے علاوہ اور کوئی قابل اعتماد نظام اس وقت موجود نہیں۔

مثلاً انہی ضروریات میں ایک ضرورت اسلامی نظام کو چلانے کے لیے رجال کار کی فراہمی کی ہے کیونکہ ایسے افراد کی تیاری انتہائی ضروری ہے جو دینی علوم پر ماہرانہ دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ آج کے عالمی نظام اور ملک کے اندرونی سسٹم کے اہم پہلوؤں سے پوری طرح واقف ہوں، اور خرابیوں کی نشاندہی کے علاوہ ان کو دور کرنے کی صلاحیت سے بھی بہرہ ور ہوں۔ ایسے افراد اگر دینی مدارس تیار نہیں کریں گے تو انہیں یہ بات نوٹ کر لینی چاہیے کہ کوئی اور ادارہ ایسا موجود نہیں ہے جو اس ضرورت کو پورا کرنے کی ذمہ داری قبول کرتا ہو۔ اس لیے جس طرح دفاع اور تحفظ کے دور میں دینی مدارس نے وقت کے چیلنج کو قبول کر کے خود کو اس مشن کے لیے وقف کر دیا تھا، اس طرح انہیں پیشرفت اور اقدام کے نئے دور کا چیلنج بھی قبول کرنا ہوگا۔ اور اگر خدانخواستہ ان کی سستی اور بے پروائی سے اقدام اور پیشرفت کی یہ جدوجہد کامیابی کے مطلوبہ اہداف حاصل نہ کر سکی تو اس کی ذمہ داری عند اللہ اور عند الناس انہی مدارس پر ہوگی اور ان کا کوئی عذر اس بارے میں نہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مسموع ہوگا اور نہ ہی تاریخ اپنے صفحات میں اسے جگہ دینے کو تیار ہو گی۔ چنانچہ دینی مدارس کے جو مختلف وفاق مختلف مذہبی مکاتب فکر کے حوالے سے کام کر رہے ہیں، ان سب کے ارباب بست و کشاد سے ہماری استدعا ہے کہ وہ اپنے اپنے طور پر اور مشترکہ طور پر بھی نفاذ اسلام کی عملی ضروریات کا جائزہ لیں اور انہیں اپنے نصاب و نظام میں ایڈجسٹ کرنے کی راہ نکالیں تاکہ وہ وقت کے اس چیلنج کا صحیح طور پر سامنا کر سکیں جو اسلامی نظام کے نفاذ و تطبیق کے ضمن میں اس وقت دینی حلقوں کو درپیش ہے۔

اس اصولی گزارش کے ساتھ ایک عملی تجویز بھی ہم ان وفاقوں اور بڑے دینی مدارس کے منتظمین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں کہ سردست درس نظامی کے فضلاء کے لیے بڑے مدارس میں ایک خصوصی کورس کا اہتمام کیا جائے جس کا سرسری خاکہ ہمارے ذہن میں یوں ہے:

  • ان فضلاء کو دنیا کے بڑے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرایا جائے۔
  • تاریخ عالم اور تاریخ اسلام ترتیب کے ساتھ پڑھائی جائے۔
  • مختلف شعبہ ہائے زندگی کے حوالے سے اسلام کا بطور نظام مطالعہ کرایا جائے۔
  • اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں رائج نظاموں سے متعارف کرایا جائے۔
  • مغرب کے سیکولر فلسفہ اور نظام سے کماحقہ روشناس کرایا جائے۔
  • عربی اور انگریزی زبان پڑھائی جائے اور کم از کم اردو میں صحافتی اسلوب کے ساتھ مضمون نویسی کی مشق کرائی جائے۔
  • مطالعہ اور تحقیق کا ذوق بیدار کیا جائے اور مختلف موضوعات پر اچھی گفتگو اور اچھی تحریر کا سلیقہ پیدا کیا جائے۔
  • اس دوران میں جو فضلاء میٹرک پاس نہیں ہیں، انہیں میٹرک کی تیاری کرا دی جائے اور جو میٹرک کر چکے ہیں، انہیں ایف اے کی تیاری کرائی جائے۔

یہ کورس دو سال کا ہو تو زیادہ بہتر طریقہ کے ساتھ چلایا جا سکتا ہے اور اگر ضروری ہو تو اسے کھینچ تان کر ایک سال کے دورانیہ میں بھی ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس کورس کے اختتام پر امتحان پاس کرنے والے فضلاء کو ’’شہادۃ التکمیل‘‘ کی باقاعدہ سند دی جائے اور اس کے لیے فضلاء کو باقاعدہ مہم کی صورت میں تیار کیا جائے۔ امید ہے کہ دینی مدارس کے ارباب حل و عقد اس تجویز کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں گے اور آنے والے دور کی ناگزیر ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے انہیں پورا کرنے کے لیے عملی پیشرفت سے گریز نہیں کریں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter