(نائن الیون کے سانحہ کے بعد مانچسٹر برطانیہ میں ایک اجتماع سے خطاب۔ مطبوعہ روزنامہ اوصاف، اسلام آباد، ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۱ء)
مسلم ممالک میں سب سے پہلے ترکی نے سیکولر فلسفہ کو دستوری طور پر قبول کیا تھا اور وہی سب سے زیادہ شدت کے ساتھ اس پر ابھی تک قائم بھی ہے، حتٰی کہ ترکی کا دستور صراحت کے ساتھ قرآن و سنت کی راہنمائی کو مسترد کرتا ہے، لیکن ترکی کے عام مسلمان نے آج تک اس لا مذہبی فلسفہ کو قبول نہیں کیا اور عام ترکی مسلمانوں کو جب بھی موقع ملتا ہے، وہ قرآن و سنت کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کا کھلم کھلا اظہار کر دیتے ہیں۔ یہ بات مغرب کے حکمرانوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے اور وہ مسلم ممالک کے دینی حلقوں کو مذہب کے ساتھ عام مسلمانوں کی اس بے لچک وابستگی کا بڑا سبب سمجھتے ہوئے انہیں بنیاد پرست اور دہشت گرد قرار دے کر ان سے نمٹنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
مذہب اور لا مذہبیت کے درمیان کشمکش
اس لیے یہ کشمکش ایک مذہب کی دوسرے مذہب کے خلاف نہیں بلکہ لامذہبیت کی جنگ مذہب کے خلاف ہے۔ ہمیں اس فرق کو سمجھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنی حکمت عملی اور ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے۔ یہ بات اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسانی معاشرہ کے لیے مذہب کے اجتماعی احکام و قوانین کے حوالے سے یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی تعلیمات میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے اور تورات، انجیل اور قرآن کریم کی تعلیمات میں اس حد تک یکسانیت آج بھی موجود ہے کہ انہیں یکجا کیا جائے تو احکام و قوانین کا مشترکہ ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ خود مسیحی دنیا کے بعض مذہبی رہنما یہی بات کہہ رہے ہیں۔ چنانچہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کے سانحات کے بعد امریکہ کے معروف مذہبی راہنما فادر جیری فال ویل نے کرسچین ٹی وی پر اپنی نشری تقریر میں جو کچھ کہا ہے، وہ میری ان گزارشات کی تائید کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات عذاب الٰہی ہیں۔ یہ اللہ تعالٰی کے عذاب کا آغاز ہے جس کے ذریعے ہم خوف کی ڈیوڑھی میں داخل ہوئے ہیں اور ہم اس عذاب کے مستحق تھے۔ جیری فال ویل کا کہنا ہے کہ اس عذاب کا باعث وہ عناصر ہیں جنہوں نے سیکولرازم کی راہ ہموار کی ہے، حقوق نسواں کے نام پر معاشرہ میں بدکاری پھیلائی ہے، ہم جنسی کی حمایت کر کے اللہ تعالٰی کے غضب کو دعوت دی ہے، اور اسقاط حمل کو فروغ دے کر خدا کے غصے کو بھڑکایا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بھی جیری فال ویل کے اس تبصرہ کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے کیونکہ یہ عذاب صرف امریکیوں پر نازل نہیں ہوا بلکہ اس کے ساتھ پورا عالم اسلام بھی عذاب کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ ہمارے ہاں عذاب الٰہی کے اسباب اسی نوعیت کے ہیں اور ہم پر نازل ہونے والے یہ مصائب خود ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔ ہماری بد اعمالیاں اور قرآن و سنت کی اجتماعی تعلیمات سے انحراف باطنی اور روحانی طور پر ہماری موجودہ تکالیف اور مصائب کا سبب ہیں۔ جبکہ ظاہری اسباب کے حوالے سے دیکھا جائے تو بھی اس وقت ملت اسلامیہ کو جو مسائل و مشکلات درپیش ہیں، ان کے پیچھے خود ہماری کوتاہیاں اور بد اعمالیاں تجزیہ و تحلیل کی اسکرین پر صاف طور پر جھلکتی دکھائی دے رہی ہیں۔
اس لیے برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمان علماء اور دانشوروں سے میری گزارش ہے کہ وہ موجودہ کشمکش کی اصل نوعیت کا ادراک کرتے ہوئے یہودی اور مسیحی امتوں کے ان عناصر کو تلاش کریں اور ان سے روابط استوار کریں جو فادر جیری فال ویل جیسے خیالات رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ہمارے فطری حلیف ہیں اور یقیناً ہر جگہ موجود ہیں، لیکن ہمارا ان سے رابطہ نہیں ہے۔ اگر ہم تھوڑی سی محنت کریں، عقل و دانش سے کام لیں اور حوصلہ و تدبر کا ثبوت دیں تو علمی و فکری طور پر ایک مضبوط محاذ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
مصائب و تکالیف اور اسوۂ حسنہ
دوسری گزارش یہ ہے کہ ہمیں مصائب و تکالیف اور آزمائش کے دور میں بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور اسوہ حسنہ سے رہنمائی حاصل کرنی ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ ایسے حالات میں رسالت مآبؐ کی سنت میں ہمارے لیے کیا سبق ہے؟ اس سلسلے میں سیرت نبوی کے دو واقعات پیش کرنا چاہوں گا جو اس قسم کے حالات میں ہمارے لیے سبق اور اسوہ کی حیثیت رکھتے ہیں:
- ایک واقعہ ہجرت کا ہے جب نبی اکرمؐ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ جا رہے تھے، حضرت ابوبکر صدیقؓ ساتھ تھے، ظاہری کیفیت یہ تھی کہ مکہ مکرمہ سے رات کو چھپ کر نکلے ہیں، تلاش میں گھومنے والے گروہوں سے بچنے کے لیے تین دن تک غار ثور میں چھپے رہے ہیں، عام راستہ چھوڑ کر سمندر کے کنارے انجان اور غیر معروف راستے سے سفر کر رہے ہیں، راستے میں کوئی ملتا ہے تو حضرت ابوبکرؓ پورا تعارف کرانے کی بجائے گول مول بات کہہ رہے ہیں، اور اس وقت سب سے بڑا مسئلہ اور ہدف یہی رہ گیا ہے کہ کسی طرح تلاش میں پھرنے والے کافر گروہوں اور ٹولیوں سے بچ بچا کر یثرب پہنچ جائیں۔ لیکن اسی کیفیت میں جب سراقہ بن مالک ملے، انہوں نے جناب نبی اکرمؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کو پکڑنا چاہا تو آپؐ ان سے فرما رہے ہیں کہ اے سراقہ، میں تمھارے ہاتھوں میں کسرٰی بادشاہ کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔
ظاہری کیفیت دیکھیے کہ اپنی جان کی حفاظت مسئلہ بنا ہوا ہے، لیکن نظر کہاں پر ہے؟ اس وقت کی ایک سپر پاور فارس کے بادشاہ کے سونے کے کنگنوں پر، کہ اس بادشاہ کو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست ہوگی اور اس کے خزانوں کے ساتھ اس کے ہاتھ کے کنگن بھی مسلمانوں کے قبضے میں آئیں گے۔ یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے جو پورا ہوا اور امیر المومنین حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں فارس فتح ہونے پر وہ کنگن مال غنیمت میں آئے جو اس پیشین گوئی کو پورا کرنے کے لیے سراقہ بن مالک کو تھوڑی دیر کے لیے پہنائے گئے۔ لیکن معجزہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ہمارے لیے سبق بھی ہے اور جناب نبی اکرمؐ کا اسوہ و سنت ہے کہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی اپنا حوصلہ قائم رکھیں، مورال برقرار رہے اور اصل ٹارگٹ نظر سے اوجھل نہ ہو۔
- دوسرا واقعہ غزوہ احزاب کا ہے جب تمام عرب قبائل نے قریش کی قیادت میں متحدہ محاذ بنا کر مدینہ منورہ پر چاروں طرف سے یلغار کر دی تھی اور مسلمانوں کو روایتی طریق جنگ ترک کر کے اپنے دفاع کے لیے مدینہ منورہ کے گرد خندق کھودنا پڑی تھی۔ قرآن کریم نے اس وقت مسلمانوں کی ظاہری کیفیت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ ’’جب تم پر لشکر چڑھ دوڑے تھے، جب تمھاری آنکھیں خوف کے مارے پتھرا گئی تھیں، جب تمہارے دل خوف کی شدت سے سینوں سے اچھل کر حلق میں پھنس گئے تھے، جب تم اللہ تعالیٰ کی مدد کے بارے میں گمانوں کا شکار ہونے لگے تھے، جب مسلمان آزمائش میں ڈال دیے گئے تھے اور جب وہ شدید زلزلے کی کیفیت سے دوچار ہو گئے تھے۔‘‘
یہ وہ منظر کشی ہے جو غزوۂ احزاب کے موقع پر مدینہ منورہ میں مسلمانوں پر طاری خوف کی کیفیت کے حوالے سے خود قرآن کریم نے سورۃ الاحزاب میں کی ہے۔ جبکہ احادیث میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ کفار کے لشکر کے پہنچنے سے پہلے پہلے خندق مکمل کر لینے کا ہدف ذہنوں پر اس حد تک غالب آ گیا تھا کہ خندق کھودنے میں مصروفیت کے باعث صحابہ کرامؓ اور خود جناب نبی اکرمؐ کی عصر کی نماز قضا ہوتے ہوتے بچی۔ اس کیفیت میں جب آنحضرتؐ نے ایک چٹان پر کدال کی ضرب لگائی تو چٹان کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے ساتھ ایک روشنی چمکی اور آپؐ نے فرمایا کہ مجھے اس چمک میں قیصر و کسرٰی کے محلات دکھائی دیے ہیں۔ قیصر اور کسرٰی اس وقت کی دونوں بڑی اور عالمی قوتوں کے حکمرانوں کے لقب ہیں اور جناب نبی اکرمؐ سے اس خوف و ہراس کی شدت کی کیفیت میں بھی صحابہ کرامؓ کو قیصر و کسرٰی کے محلات کی خوشخبری دلوائی جا رہی ہے۔ یہ معجزہ بھی پورا ہوا اور اس کے ساتھ سبق بھی ہے کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی حوصلہ قائم رکھنا، مورال کو بلند رکھنا اور اپنے اصل ٹارگٹ کو نظر میں رکھنا سنت نبوی اور اسوۂ رسول ہے۔
اس لیے میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مصائب و آلام اور مشکلات و تکالیف کی انتہائی شدت اور سنگینی کے اس دور میں ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ حوصلے قائم رکھیں، حالات کی ناہمواری کے سامنے سپر انداز نہ ہوں، مشکلات سے گھبرانے اور ان کے سامنے بے بسی کا اظہار کرنے کی بجائے ان کا سامنا کریں، اپنی کوتاہیوں اور بد اعمالیوں کا ادراک کریں، توبہ و استغفار کا اہتمام کریں، قرآن و سنت کے ساتھ تعلق کو مضبوط کریں اور پورے حوصلہ و استقامت کے ساتھ حالات کی بہتری کی سمت سفر جاری رکھیں، اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی کے ساتھ دعاؤں کا اہتمام کریں کہ فیصلے وہیں ہوتے ہیں اور ساری طاقتوں اور قوتوں کا سرچشمہ وہی ہے۔
اسلامی تحریکات کی ذمہ داری
تیسری گزارش ان حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داریوں کے بارے میں ہے جن کا اصل تعلق تو مسلمان حکمرانوں سے ہے مگر موجودہ صورتحال میں ان سے کسی کردار کی بظاہر کوئی توقع نہیں ہے۔ اس لیے اسلامی تحریکات سے یہ گزارش کرنا ضروری ہے کہ وہ اس وقت جنگ کا سب سے بڑا ہدف ہیں اور مغرب کی یلغار کا سب سے بڑا ٹارگٹ ہیں، انہیں آپس میں رابطہ و مشاورت اور مفاہمت و مشارکت کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ وہ مل کر ہی اس بحران سے نکل سکتے ہیں اور عالمی متحدہ طاقتوں کے حربوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی علماء کرام اور اصحاب فہم و دانش کی بھی ذمہ داری ہے کہ ملت اسلامیہ کی رہنمائی کے علمی و فکری تقاضوں کا ادراک کریں اور مسلمان عوام کی رہنمائی کریں۔ غیر ضروری مسائل میں اس وقت عوام کو الجھانا انتہائی غیر ذمہ داری کی بات ہوگی، اس لیے علماء اور دانشور اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لیں اور علم و دانش کے محاذ پر پوری سنجیدگی، تدبر، جرات اور حوصلہ کے ساتھ امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے آگے بڑھیں۔
مغرب میں مقیم مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل
چوتھی گزارش ان مسلمانوں سے ہے جو برطانیہ میں اور مغرب کے دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں۔ یہاں کے مسلمان اکثر یہ دریافت کرتے ہیں کہ ایسے حالات میں جبکہ پورا عالم اسلام حالت جنگ میں ہے، ان کی شرعی ذمہ داری کیا ہے اور وہ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنے فریضے سے کس طرح عہدہ برآ ہو سکتے ہیں؟ یہ بہت حساس اور نازک مسئلہ ہے اور اس کے ہر پہلو پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ایک بات کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہوں گا کہ اسلامی تاریخ میں جنگ بدر سے زیادہ نازک معرکہ کبھی نہیں ہوا جس میں ایک طرف خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر کی کمان کر رہے ہیں اور دوسری طرف آپؐ کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل قریش کے لشکر کی قیادت کر رہا تھا۔ اسلامی لشکر کی حالت یہ تھی کہ چھوٹے بڑے سب ملا کر ۳۱۳ بنتے تھے، اور حالات کی نزاکت کا اندازہ اس سے کر لیجیے کہ جناب نبی اکرمؐ رات کو سجدے میں سر رکھ کر آنسو بہاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان الفاظ میں التجا فرما رہے ہیں کہ یا اللہ! یہ چند افراد میری زندگی بھر کی کمائی ہے، اگر یہ لٹ گئی تو قیامت تک اس زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔
اس وقت نبی کریمؐ کو ایک ایک شخص کی ضرورت تھی، لیکن صحابہ کرامؓ میں سے چار بزرگ ایسے ہیں جو موجود اور تندرست ہوتے ہوئے بھی بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے، اور سب کے شریک نہ ہونے کی وجوہ مختلف تھیں:
- ان میں سے حضرت عثمانؓ کو تو خود جناب نبی اکرمؐ نے جنگ میں شرکت سے روک دیا۔ ان کی اہلیہ اور جناب نبی اکرمؐ کی بیٹی حضرت رقیہ بیمار تھیں اور گھر میں اکیلی تھیں۔ ان کی تیمارداری کرنے والا کوئی نہیں تھا اور وہ خود اپنے آپ کو سنبھالنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں، اس لیے حضرت عثمانؓ کی خواہش کے باوجود آنحضرتؐ نے انہیں غزوۂ بدر میں شرکت سے حکماً روک دیا اور وہ مدینہ منورہ میں موجود ہوتے ہوئے بھی بدر کے معرکے میں شریک نہ ہو سکے۔
- حضرت حذیفہ بن الیمانؓ اور ان کے والد محترم دونوں جناب نبی اکرمؐ کے پاس آ رہے تھے کہ راستے میں کافروں نے پکڑ لیا اور اس شرط پر چھوڑا کہ آپ دونوں ہمارے خلاف جنگ میں حضرت محمدؐ کے ساتھ شریک نہیں ہوں گے۔ کفار کی قید سے رہا ہو کر دونوں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا قصہ بیان کر دیا۔ اس پر آپؐ نے انہیں یہ کہہ کر جنگ میں شرکت سے روک دیا کہ چونکہ آپ دونوں نے کفار کی یہ شرط منظور کر لی تھی، اس لیے آپ ہمارے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوں گے۔ چنانچہ دونوں باپ بیٹا موجود ہوتے ہوئے بھی غزوۂ بدر میں شامل نہ ہو سکے۔
- حضرت سلمان فارسیؓ جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں اس وقت آئے تھے جب آنحضرتؐ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے ابھی قبا میں مقیم تھے اور مدینہ منورہ نہیں پہنچے تھے۔ اسی دور میں حضرت سلمان فارسیؓ مسلمان ہوئے، لیکن مدینہ منورہ میں موجود ہوتے ہوئے بھی بدر واحد کے معرکوں میں شریک نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک یہودی خاندان کے غلام تھے اور اپنے فیصلوں میں آزادی اور خود مختاری نہیں رکھتے تھے۔ اس کے بعد غزوۂ احزاب سے قبل وہ آزاد ہوئے تو اس غزوہ میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ خندق بھی انہی کے مشورے سے کھودی گئی تھی۔
ان واقعات کے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاد فرض ہے، لیکن اسلام نے لوگوں کی مجبوریوں، احوال و ظروف اور ضروریات کے مختلف دائروں کا لحاظ رکھا ہے اور انہیں اپنے اپنے درجے میں تسلیم کیا ہے۔ اس لیے میں یہ گزارش کروں گا کہ غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی جو مجبوریاں ہیں، ان کے جو معاملات ہیں اور جن شرائط و قیود کے ساتھ وہ ان ممالک میں رہ رہے ہیں، ان کو ملحوظ رکھنا بھی شریعت کا تقاضا ہے۔ اس بنیاد پر میری استدعا ہے کہ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمان اپنے اپنے ملک کے قانون اور دستور سے بغاوت کا راستہ اختیار نہ کریں اور قانون شکنی سے ہر صورت میں گریز کریں، البتہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مظلوم بھائیوں کی حمایت اور امداد کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں، اس سے گریز نہ کریں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہاں کا اصل محاذ میڈیا کا محاذ ہے اور مظلوم اور بے گھر لوگوں کی مالی معاونت کا محاذ ہے۔ اس محاذ پر یہاں کام کو منظم کرنے کی ضرورت ہے اور آپ لوگوں کے کرنے کا اصل کام یہ ہے۔ اسلام کے بارے میں، مسلمانوں کے بارے میں اور دینی تحریکات کے بارے میں یہاں کا میڈیا جو کچھ کہہ رہا ہے، اس کا جواب دینا اور اسلام اور مسلمانوں کی پوزیشن کو واضح کرنا بہت بڑی دینی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی ادارے اور لابیاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو کارروائیاں کر رہی ہیں، ان کی نشاندہی کرنا اور ان کا تعاقب کرنا دین کا بہت بڑا تقاضا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں مظلوم مسلمان اپنی آزادی اور دینی تشخص کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، ان کو سیاسی اور اخلاقی سپورٹ مہیا کرنا ہماری شرعی ذمہ داری ہے اور جنگوں میں بے گھر ہونے والے لاکھوں مسلمان خاندانوں کی مالی مدد کرنا اور انہیں ضروریات زندگی فراہم کرنا اسلام کا اہم حکم ہے۔ اس لیے میری آپ حضرات سے گزارش ہے کہ آپ لوگ ان شعبوں کی طرف متوجہ ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے انہیں صحیح طور پر اور بروقت ادا کرنے کے لیے محنت کریں۔
اس سلسلے میں مزید کسی تفصیل میں جائے بغیر یہ بات عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے ذہن میں یہ بات ہر وقت رکھیں کہ امریکہ اور برطانیہ میں رہنے والے یہودی ان ملکوں کے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے یہودیت اور اسرائیل کے لیے جو کچھ کر رہے ہیں اور جو کچھ کر سکتے ہیں، وہ سب کچھ آپ بھی یہاں رہتے ہوئے اور یہاں کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اسلام اور مسلم ممالک کے لیے کر سکتے ہیں۔ اگر انہیں اس کا حق حاصل ہے تو آپ کو بھی اس کا حق حاصل ہے۔ بس اس معیار اور کسوٹی کو سامنے رکھیے اور اسلام، ملت اسلامیہ اور مسلم ممالک کے لیے ملکی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے جو کچھ آپ کے بس میں ہو، ضرور کیجیے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض کو پہچاننے اور انہیں صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔