روزنامہ وزارت لاہور کا انٹرویو

   
۱۴ ستمبر ۲۰۱۲ء

عظیم دینی مفکر، معروف دانشور، کالم نگار، خطیب اور ممتاز عالم دین مولانا زاہد الراشدی قبلہ کی درویشانہ شخصیت کے بارے میں قلمی طبع آزمائی کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ آپ دور حاضر کے ان عالی مرتبت بندگان خدا میں شامل ہیں جن کی زندگی کا اول و آخر مقصد فلاح انسانیت کے لیے جدوجہد اور خلق خدا کو دین اسلام سے متعلق شعوری آگاہی فراہم کرنا ہے، جس کے لیے شبانہ روز علمی و فکری کاوشیں آپ کی ثابت قدمی اور قلبی خلوص کا آئینہ دار ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ علامہ زاہد الراشدی فرقہ واریت، مسلکی تعصب، تنگ نظری اور ذاتی پسند و ناپسند کی تاریکی میں روشنی کی وہ واحد کرن ہیں جو اپنی ذات کی مکمل نفی کر کے محض آفاقی دین اسلام کی سربلندی کے لیے کوشاں ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا، کیونکہ علامہ زاہد الراشدی جس فکرمندی سے اپنے ہمعصر علماء دین کی باہمی فکری ہم آہنگی اور ان میں برداشت و رواداری کے جذبات کو پروان چڑھانے کے علاوہ نوجوان نسل کی دین اسلام سے رغبت کے لیے کوشاں ہیں، یہ بات ثابت کرتی ہے کہ وہ عصر حاضر کے ایسے صوفی بزرگ ہیں جن کا مقصد دینی دوریوں کو قربتوں میں بدلنا اور امت مسلمہ میں باہمی یکجہتی کے اس احساس کو فروغ دینا ہے جو کبھی ماضی میں مسلم امہ کا امتیاز و افتخار تھا۔ روزنامہ وزارت کی طرف سے علامہ مولانا زاہد الراشدی جیسی بین الاقوامی شخصیت، دینی مفکر، قومی سطح کے کالم نگار اور عالم و فاضل ہستی کا انٹرویو کرنے کی طفلانہ کوشش کی گئی ہے، علامہ صاحب نے اس انٹرویو میں جن افکار عالی کا اظہار فرمایا وہ قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

انٹرویونگار: طاہر قیوم چوہدری

وزارت: پاکستان شریعت کونسل کے بنیادی اہداف کیا ہیں؟

تعارفی گفتگو کے بعد محترم علامہ زاہد الراشدی نے پاکستان شریعت کونسل کے اہداف پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان شریعت کونسل کی حیثیت محض ایک علمی و فکری فورم کی ہے اور یہ کوئی باضابطہ سیاسی جماعت یا سیاسی تنظیم نہیں ہے۔ اس فورم میں ہر وہ عالم اور اہل فکر و دانش شامل ہیں جو نفاذ اسلام کی فکری اور نظریاتی جدوجہد کا ذوق رکھتے ہیں۔ کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد نفاذ اسلام کے فکری و علمی تقاضوں پر عمل کرنا اور اسلامی قوانین پر کیے جانے والے اعتراضات و شبہات کا مؤثر جواب دینا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے مختلف مکاتب فکر کے نمائندہ لوگوں اور دینی حلقوں کے درمیان مثبت رابطوں اور مفاہمت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان شریعت کونسل کی اولین ترجیح نوجوان علماء کرام کی فکری تربیت اور ان کی ممکنہ راہنمائی کرنا ہے۔ علاوہ ازیں کونسل ملک و قوم کی بہتری اور دینی سربلندی کے لیے اٹھائے جانے والے ہر قدم کی حامی ہے۔

وزارت: پاکستان شریعت کونسل کا ملکی، معاشرتی اور سیاسی سسٹم میں کیا کردار ہے؟

پاکستان شریعت کونسل کا ملکی، سیاسی اور سماجی سسٹم میں کوئی عملی کردار نہیں ہے کیونکہ ہم نے شعوری طور پر اس پلیٹ فارم کو انتخابی، تحریکی، سیاسی اور اقتدار کی دوڑ سے دور رکھا ہوا ہے۔ ہم خالصتاً علمی، نظریاتی اور فکری محاذ پر کام کر رہے ہیں، لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہم سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان شریعت کونسل کے کسی بھی رکن پر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت یا سیاسی کردار ادا کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ کونسل کے مقاصد سے اتفاق رکھنے والے حضرات کئی ایک سیاسی جماعتوں کے ممبر، کارکن اور علماء کرام ہمارے ساتھی ہیں۔ ہمارا کام صرف نفاذ اسلام کے لیے بریفنگ، لابنگ اور ذہنی تربیت کرنا ہے، جس کے لیے ہم کوشاں ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی کردار نہیں ہے۔

وزارت: جمعیۃ علماء اسلام سے کنارہ کشی کی وجوہات کیا تھیں؟

جمعیۃ علماء اسلام سے کنارہ کشی والی بات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ میں نے جماعت نہیں چھوڑی البتہ عہدیداری سے کنارہ کشی ضرور اختیار کر رکھی ہے اور عام کارکن کی حیثیت سے بدستور اپنی جماعت جمعیۃ علماء اسلام کے لیے کام کر رہا ہوں۔ میں نے ایک طویل عرصہ اپنی جماعت کے لیے انتہائی متحرک کردار ادا کیا ہے۔ ۱۹۹۰ء میں چند ذاتی مصروفیات کی وجہ سے جمعیۃ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے عہدے سے کنارہ کشی اختیار کی۔ بنیادی وجہ یہی تھی اور ہے کہ میں ذہنی یکسوئی کے ساتھ علمی و دینی سرگرمیوں کی انجام دہی چاہتا تھا۔ ۱۹۶۲ء سے لے کر تاحال میں جمعیۃ علماء اسلام کا رکن ہوں لیکن اب کسی بھی سطح پر عہدیدار نہیں ہوں۔

وزارت: کیا پاکستان شریعت کونسل انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے؟

پاکستان شریعت کونسل انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا بالکل کوئی ارادہ نہیں رکھتی کیونکہ ہماری منزل اقتدار اور مراعات نہیں بلکہ فروغ دین اسلام اور نوجوان نسل کی شعوری و دینی تربیت ہے۔

وزارت: آئندہ انتخابات میں دینی سیاسی جماعتوں کا مستقبل کیا ہے؟

آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والی دینی سیاسی جماعتوں کا واضح مستقبل ان کے باہمی اتحاد و اتفاق میں ہے۔ ان کا مل کر رہنا اور مشترک طور پر انتخابی سیاست میں حصہ لینا ہی ان کی قوت کی علامت ہے، لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں پاتا۔ ماضی میں متعدد مرتبہ دینی سیاسی جماعتوں کے اتحاد معرض وجود میں آتے رہے ہیں، خاص طور پر گزشتہ ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کے نام سے دینی سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے خاطرخواہ انتخابی کامیابی حاصل کی اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) میں حکومت بھی بنا لی لیکن اس کے باوجود یہ اتحاد قائم نہیں رہ پایا، جس کا نتیجہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں سامنے آ گیا۔ آج بھی حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ دینی سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو کر انتخابات میں حصہ لیں لیکن اگر وہ نفاق اور انتشار کا شکار رہیں گی تو نتیجہ گزشتہ انتخابات جیسا ہی ہو گا۔

وزارت: دینی سیاسی جماعتیں باہمی اتحاد و اتفاق برقرار کیوں نہیں رکھ سکتیں؟

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دینی جماعتیں وقتی ایجنڈے اور دباؤ کے تحت متحد ہوتی ہیں، مثلاً انتخابات یا کسی دینی ایشو، خاص طور پر ختم نبوت جیسے خاص اور حساس معاملات پر دینی جماعتوں کا اتحاد وجود میں آتا ہے لیکن انہوں نے کبھی کسی سنجیدہ اور مثبت ایجنڈے پر اتحاد نہیں بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی خاص ضرورت کے لیے معرض وجود میں آنے والا اتحاد وقت گزرنے کے ساتھ شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے۔ حالانکہ قیام پاکستان کے بعد تمام مکاتب فکر کے اکابرین اور علماء کرام نے بائیس نکات کی صورت میں اپنا ایک ایجنڈا طے کیا تھا، وہ ایجنڈا آج بھی دینی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک مثالی اتحاد کی معقول ترین بنیاد بن سکتا ہے۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی جماعتیں ایک مستقل ایجنڈے کے تحت ملک کے سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے متحد ہوں۔

میرے نزدیک دینی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی بنیاد دو باتیں ہونی چاہئیں۔ (۱) اول، خلافت راشدہ کے طرز پر وطن عزیز کے عام آدمی کے مسائل و ضروریات کو سامنے رکھ کر ایک صحیح ویلفیئر اسلامی ریاست کا قیام بنیادی ہدف بنایا جائے۔ (۲) دوم، ملک میں موجود ظالمانہ، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف مضبوط آواز اٹھاتے ہوئے قوم کو ان سے نجات دلانے کی بھرپور جدوجہد کی جائے، جو کہ ملک اور عوام کی بنیادی ضرورت ہے۔ جبکہ یہی بات دینی سیاسی جماعتوں کے ایک مضبوط، دیرپا اتحاد کی وجہ اور تحریک بھی بن سکتی ہے۔

وزارت: حقانی نیٹ ورک پر لگنے والے امریکی الزام کے بعد طالبان کا ردعمل کیا ہو گا؟

یہ حربہ طالبان پر مذاکرات کے حوالہ سے دباؤ ڈالنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ ایک طرف تو امریکہ مختلف حوالوں سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے اور افغانستان کے مستقبل کے نقشہ میں طالبان کے کردار پر گفتگو چل رہی ہے، جبکہ دوسری طرف طالبان ہی کے ایک حصہ حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں حالیہ امریکی اقدامات کا مقصد اس کے سوا اور کیا سمجھا جا سکتا ہے کہ امریکہ مذاکرات کے دوران طالبان کو دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ مستقبل میں ان کے کردار کو محدود سے محدود تر کیا جا سکے۔ لیکن میرے خیال میں یہ بے فائدہ بات ہے اس لیے کہ طالبان نے گزشتہ ۱۰ برسوں کی جنگ میں اپنی پوزیشن دنیا سے تسلیم کروالی ہے، لہٰذا فیصلے تو اسی تناظر میں ہوں گے۔

وزارت: دفاع پاکستان کونسل کا مستقبل کیا ہے؟

’’دفاع پاکستان کونسل‘‘ ایک اچھے مقصد کے تحت عوامی دباؤ کو منظم کرنے کے لیے قائم ہوئی تھی اور اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی حاصل ہوا ہے۔ اس کا بنیادی ہدف امریکہ کی مخالفت ہے جو کہ حکومت کے بھی مفاد میں ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ زیادہ اعتماد کے ساتھ بات چیت کر سکے۔ یہ عوامی دباؤ ہماری قومی ضرورت ہے، میرے خیال میں دفاع پاکستان کونسل کو نہ صرف اپنا یہ کردار مسلسل جاری رکھنا چاہیے بلکہ خود کو اسی مقصد کے لیے محدود رکھنا چاہیے۔

وزارت: ملکی بقا کے لیے کیا چیز ضروری ہے، جمہوریت یا انقلاب؟

میرے خیال میں جمہوریت اگر صحیح معنوں میں آجائے تو وہ ملک میں عوامی مسائل کے حل اور نفاذِ اسلام کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت ابھی تک آئی ہی نہیں ہے بلکہ جمہوریت کے نام پر ہم طبقاتی بالادستی کی کشمکش کے دور سے گزر رہے ہیں۔ جمہوریت کی حقیقی بحالی کے لیے عوامی تحریک کی ضرورت ہے جو ہمارے سماجی اور سیاسی رویوں میں تبدیلی کا باعث بنے اور ہم صحیح معنوں میں جمہوری قوت کے بل بوتے پر اپنے ملک کو اسلامی رفاہی ریاست بنا سکیں۔

وزارت: عمران خان کی سیاسی اصلیت کیا ہے؟

عمران خان کی سیاسی اصلیت اور ان کے دل کا بھید تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن بظاہر عمران خان موجودہ سیاست میں ایک پریشر گروپ کے طور پر سامنے آئے ہیں اور آئندہ انتخابات میں بھی ایک پریشر گروپ ہی ثابت ہوں گے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پارٹی میں شامل ہونے والے نئے لوگوں کو الیکشن تک اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہیں تو کچھ بات بن جائے گی، کیونکہ ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے بہت سے لوگ واپس جا رہے ہیں، جس کا نتیجہ ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ کے حق میں بہتر نہیں ہو گا۔

وزارت: پاکستان شریعت کونسل نوجوانوں کے لیے کیا لائحہ عمل رکھتی ہے؟

ملک کے نوجوانوں سے ہماری توقع یہ ہے کہ وہ اپنے آفاقی و لاثانی دین اسلام کے ساتھ شعوری وابستگی اختیار کرنے کے علاوہ ایک اچھا شہری بننے کی کوشش بھی کریں۔ تعلیم اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھ کر ملک کے مستقبل کے نقشہ میں خود کو صحیح جگہ پر فٹ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اس حوالے سے پاکستان شریعت کونسل کا تمام تر تعاون اور تربیت ملکی نوجوانوں کے لیے حاضر ہے۔

وزارت: ملکی سیاسی حالات پر آپ کا تبصرہ؟

پہلے بھی یہ عرض کر چکا ہوں کہ ملک میں سیاست یا حقیقی جمہوریت تاحال صحیح رخ پر نہیں آ سکی۔ اداروں میں باہمی بالادستی کی کشمکش سنجیدہ اور محب وطن لوگوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ سبھی ادارے بہت محترم ہیں اور ان کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔ جہاں تک بالادستی کی بات ہے تو دستور پاکستان میں اللہ تعالٰی کی حاکمیت اعلٰی اور قرآن و سنت کی بالادستی تسلیم کی گئی ہے۔ لہٰذا تمام قومی اداروں کو باہمی بالادستی کی جنگ میں الجھنے کی بجائے اصل بالادست قوت کے سامنے جھک جانا چاہیے۔ ملک میں دستوری طور پر بالادستی قرآن و سنت کی ہے، اگر تمام ادارے اس کو عملًا بھی تسلیم کر لیں تو ہمارے خیال میں تمام جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں۔

وزارت: گوجرانوالہ شہر میں جو نیا فلائی اوور بن رہا ہے اس کے بارے میں آپ کے کیا تحفظات ہیں؟

جی ٹی روڈ گوجرانوالہ پر تعمیر ہونے والے فلائی اوور پر صرف ہمارے نہیں، شہر کے بہت سے لوگوں کے تحفظات ہیں۔ اصل میں شہر میں ٹریفک کنٹرول کا بہتر حل یہ ہے کہ جی ٹی روڈ کو وسیع کیا جائے، دورویہ جی ٹی روڈ تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ سائیڈوں پر سروس روڈ بھی بنائے جائیں اور ان کی راہ میں حائل ہونے والی بلڈنگوں کو کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے۔ خاص طور پر سٹی ریلوے اسٹیشن کے قریب سڑک تنگ درے کی شکل اختیار کر جانے سے ٹریفک بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس صورتحال میں اوورہیڈ بریج کے نیچے والی دوکانوں کو ختم کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ اگر جی ٹی روڈ کو صحیح معنوں میں وسیع کر دیا جائے تو شاید فلائی اوور کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ گوجرانوالہ فلائی اوور کی تعمیر کے خلاف کوئی بھی نہیں ہے، لیکن لازم ہے کہ اس کو سابقہ نقشہ کے مطابق شیخوپورہ موڑ تا جنرل بس اسٹینڈ تعمیر کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر ٹریفک کنٹرول نہیں ہو سکتی۔

ہماری دوسری گزارش یہ ہے کہ پل کے مجوزہ نقشہ کی زد میں آنے والی دو مساجد اکبری مسجد اور القائی نوری مسجد کو گرانے کی بجائے نقشہ میں معمولی ردوبدل کر کے پل کو ان کے اوپر سے گزار دیا جائے۔

جبکہ تیسری گزارش یہ ہے کہ پل کی زد میں آنے والے تاجروں اور دوکانداروں کو اعتماد میں لے کر انہیں معقول متبادل جگہ فراہم کی جائے تاکہ وہ زیادتی کا شکار نہ ہو جائیں۔

وزارت: آپ کے والد بزرگوار کو دنیا امام اہل سنت کے نام سے یاد کرتی ہے، جن کے دنیا بھر میں بالواسطہ لاکھوں کی تعداد میں شاگرد ہیں، جن میں آپ بھی شامل ہیں، آخر میں آپ اپنے والد اور شفیق استاد حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے بارے میں چند الفاظ جو کہ نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو سکیں۔

والد محترم علیہ الرحمۃ کے حوالے سے نئی نسل کے لیے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اور ان کے بھائی مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ اپنی مدد آپ کے تحت موجودہ مقام تک پہنچے تھے۔ انہوں نے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تعلیمی زندگی کا آغاز کیا اور پھر سخت محنت کے ساتھ تمام تر علمی مراحل طے کر کے اس مقام تک پہنچے کہ دینی علم کی دنیا میں انہوں نے لاکھوں افراد کو پڑھایا اور سند کا درجہ حاصل کیا۔ ان کی محنت، جدوجہد، جفاکشی اور قناعت نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ میں بڑے فخر سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور چچا جان محترم صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کی دینی خدمات صدیوں یاد رکھی جائیں گی اور میرے یہ دونوں بزرگ ایک رول ماڈل کی حیثیت سے خلق خدا کے دلوں میں بستے رہیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter