کسی اور کے جرم کی سزا

جاہلیت کے زمانے میں یہ رواج تھا کہ اگر کوئی شخص قتل ہو گیا ہے، تو مقتول کے قبیلے کے لوگوں کا یہ حق ہوتا تھا کہ وہ قاتل کے قبیلے کے لوگوں میں سے جس کو مرضی مار دیں۔ اگر قاتل قابو نہیں آیا تو قبیلے کا کوئی اور آدمی قابو آ گیا، اسے مار دیں۔ یہ قبیلے کا انتقام ہوتا تھا کہ ایک قبیلے نے دوسرے قبیلے سے انتقام لینا ہے، ہمارے قبیلے کا آدمی مارا تھا، ہم نے اس قبیلے کا آدمی مارنا ہے۔ تو دو دو، تین تین، چار چار مار دیتے تھے، پھر وہ جواب میں مارتے تھے۔ یہ لڑائی صدیوں تک رہتی تھی بعض قبائل میں۔ بنو اوس اور بنو خزرج میں اسی قسم کی لڑائی تھی جو ایک سو بیس سال رہی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ختم کر دیا کہ نہیں بھئی، وہ آدمی ذمہ دار ہے، قبیلہ ذمہ دار نہیں ہے، جس نے مارا ہے وہ ذمہ دار ہے، وہ اگر قابو آتا ہے تو پکڑو اسے جو قانون ضابطہ ہے وہ کرو۔ لیکن یہ نہیں کہ ایک آدمی نے قتل کیا ہے تو اس کا بھائی مارا جائے، اس کا بھائی پکڑا جائے، اس کا باپ پکڑا جائے، اس کا بیٹا پکڑا جائے، یہ نہیں۔ یہ جاہلیت کا رواج جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے، جس کو قبیلے کا انتقام کہتے تھے، برادی کا انتقام، اس کو حضورؐ نے ختم کر دیا۔ اور پھر ایک گنجائش یہ بھی دی کہ اگر فدیہ دے دیں، دیت دے دیں، تب بھی ٹھیک ہے۔ اگر مقتول کے وارث راضی ہوں کہ ہم دیت دے دیتے ہیں، تو اس کا بھی یہاں اعلان کیا۔ جس قبیلے کا کوئی آدمی مارا گیا ہے تو ان کو دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہےکہ

(۱) قاتل کو اگر قصاص میں قتل کرنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے۔

(۲) اور اگر فدیہ لینا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے، یعنی دیت۔

تیسری بات نہیں ہو گی کہ قاتل کا کوئی آدمی (رشتہ دار) پکڑ لیا اور اسے مار دو ، فرمایا اس کی اجازت نہیں ہے۔ وہ جاہلیت کا جو رواج تھا حضورؐ نے ختم کر دیا۔

ایک موقع پر حضورؐ نے فرمایا، حجۃ الوداع میں، کوئی آدمی کسی دوسرے کے جرم میں، بھائی کے جرم میں، باپ کے جرم میں، بیٹے کے جرم میں، کوئی آدمی کسی دوسرے کے جرم میں نہیں پکڑا جائے گا۔ جس نے جرم کیا ہے اس کے ساتھ معاملہ ہو گا، اس کے کسی اور رشتہ دار کے ساتھ معاملہ نہیں ہو گا۔

2016ء سے
Flag Counter