حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود اپنی عمر کے تقریباً نو عشرے مکمل کر چکے ہیں اور ان کی ساری زندگی دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ بطور خاص مذہب اہل سنت کے تحفظ اور مسلک علماء دیوبند کے دفاع میں گزری ہے۔ میں اس زمانے سے ان کا خوشہ چین ہوں جب وہ بھرپور جوانی سے سرشار تھے اور گوجرانوالہ کے دینی جلسوں میں اکثر تشریف لایا کرتے تھے۔ قادیانیت کے محاذ پر ان کا شمار حضرت مولانا محمد حیاتؒ ، حضرت مولانا لال حسین اخترؒ ، اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ساتھ بڑے مناظرین میں ہوتا تھا اور وہ مناظرہ و مجادلہ کے اعلیٰ ذوق کے ساتھ ساتھ تحریکی مزاج میں بھی صف اول کے راہ نماؤں میں شامل رہے ہیں۔ ایک عرصہ سے برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں مقیم ہیں اور ایک بڑے دینی مرکز کے انتظام و انصرام کے علاوہ پورے برطانیہ کی علمی و دینی مجالس کی رونق ہوتے ہیں۔ مجھے ان سے نیاز مندی اور خوشہ چینی کے ساتھ ساتھ مختلف تحریکات میں ان کے ساتھ رفاقت کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔ شاہدرہ لاہور کی امامیہ کالونی میں جامعہ ملیہ کے نام سے ان کی نگرانی اور اہتمام میں علمی و دینی مرکز مصروف کار ہے اور وہ سال کا ایک حصہ یہاں گزارتے ہیں۔ جبکہ ان کے عزیز شاگرد مولانا عزیر الحسن سلّمہ اس ادارے کے انتظام میں حضرت علامہ صاحب کی نمائندگی کرتے ہیں۔
شعبان المعظم کی تعطیلات کے دوران جامعہ ملیہ میں چند روز کے لیے ایک تربیتی کلاس کا اہتمام کیا گیا۔ حضرت علامہ صاحب کو علالت کی وجہ سے ڈاکٹر صاحبان نے سفر سے روک دیا اور وہ تشریف نہیں لا سکے۔ البتہ انہوں نے مختلف نشستوں سے الیکٹرانک خطاب کیا اور اس طرح کلاس کے شرکاء کو ان سے مستفید ہونے کا موقع مل گیا۔ متعدد ارباب علم نے اس کورس میں اپنے اپنے فن اور موضوع کے حوالہ سے شرکاء کی راہنمائی فرمائی۔ اور ۸ جون کو ظہر کے بعد کی نشست میں مجھے بھی کچھ گزارشات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب امت کی ایک بڑی علمی شخصیت ہیں اور دیوبندی مکتب فکر کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ سے نوازیں اور تادیر امت کی راہ نمائی کرتے رہنے کی توفیق دیں، آمین۔
مجھے امام محمدؒ کی ’’کتاب السیر‘‘ کے حوالہ سے گفتگو کرنے کے لیے کہا گیا ہے جو جنگ و جہاد سے متعلقہ مسائل اور بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں اسلامی احکام و قوانین کی ترتیب و تدوین میں اولین علمی کاوش شمار کی جاتی ہے۔ اور آج جبکہ بین الاقوامی تعلقات و معاملات نے ایک منظم اور مربوط علم و فن کا درجہ حاصل کر لیا ہے، امام محمدؒ کی کتاب السیر اس فن میں اسلامی احکام و تعلیمات کا بنیادی ماخذ تصور کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی معاملات و تعلقات کے باب میں امام محمدؒ کی ’’السیر الصغیر‘‘ اور ’’السیر الکبیر‘‘ کے علاوہ امام اوزاعیؒ کی ’’سیر اوزاعیؒ ‘‘ اور اس کے نقد میں امام ابو یوسفؒ کی ’’الرد علی سیر الاوزاعی‘‘ اس موضوع پر ہمارے قدیم اور اولین علمی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جبکہ ان کے بعد امام سرخسیؒ کی علمی و اجتہادی مساعی کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے۔ آج چونکہ دنیا بھر کے بیشتر معاملات میں بین الاقوامی معاہدات اور معاملات ہی زیادہ تر کار فرما دکھائی دیتے ہیں، اس لیے اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہمارے علمی و دینی مراکز میں سیر اور بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں امام یوسفؒ ، امام محمدؒ ، امام اوزاعیؒ ، امام سرخسیؒ اور دیگر فقہاء اسلام کی علمی تحقیقات اور اجتہادی کاوشوں کو از سر نو زیر بحث لایا جائے۔ اور امت مسلمہ بالخصوص دینی و علمی تحریکات اور حلقوں کی راہ نمائی کا اہتمام کیا جائے۔
ایک بات میں عرصہ سے گزارش کر رہا ہوں کہ اس وقت دنیا میں بین الاقوامی معاہدات کی حکومت ہے اور اقوام متحدہ اور اس کے ساتھ دیگر عالمی ادارے ان بین الاقوامی معاہدات کے ذریعہ دنیا کے نظام کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ اس لیے ہماری آج کی سب سے بڑی علمی و فکری ضرورت یہ ہے کہ دنیا میں رائج الوقت بین الاقوامی معاہدات کا جائزہ لیا جائے اور اسلامی تعلیمات و احکام کے ساتھ ان کا تقابلی مطالعہ کر کے ان کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل اور حکمت عملی طے کی جائے۔ مگر اس کے لیے ہمیں مذکورہ بالا بزرگوں اور اس موضوع پر مختلف اوقات میں علمی خدمات سر انجام دینے والے دیگر فقہائے کرام کی تحقیقات سے راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے ان کے از سر نو مطالعہ اور تجزیہ و تحقیق کا اہتمام کرنا چاہیے ہوگا۔ اس کے ساتھ میں اس مسئلہ کے صرف ایک پہلو پر ابتدائی معروضات پیش کرنا چاہوں گا کہ بین الاقوامی معاہدات اور رسم و رواج کے حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارک کیا ہے؟
جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کی بیشتر رسوم و رواجات کو جاہلی اقدار قرار دے کر مسترد فرما دیا تھا اور حجۃ الوداع کے خطبہ میں یہ تاریخی اعلان کیا تھا کہ ’’کل أمر الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی‘‘ جاہلیت کی ساری قدریں میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ لیکن کچھ روایات اور رسوم کو باقی بھی رکھا تھا جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جہاں جاہلی اقدار سے معاشرے کو نجات دلانا ضروری ہے وہاں اگر کوئی عرف و تعامل اسلامی اصولوں سے متصادم نہ ہو تو اسے قبول بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر دو تین باتوں کا حوالہ دینا چاہوں گا:
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیلمہ کذاب کے دو قاصدوں سے فرمایا کہ اگر سفیروں کا قتل نہ کرنا دنیا کا معمول نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں سفیر اپنے ارتداد کی وجہ سے قتل کے مستحق تھے۔ لیکن چونکہ اس دور کا بین الاقوامی عرف تھا کہ سفیر کو قتل نہیں کیا جاتا اس لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل کرنے سے گریز کیا اور ایک رائج الوقت عالمی عرف اور تعامل کے احکام کی عملی مثال پیش فرمائی۔
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مختلف بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے خطوط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ مختلف قوموں کے درمیان یہ رواج ہے کہ خط پر مہر ہو تو اسے بادشاہوں کے ہاں قبول کیا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے باقاعدہ مہر بنوائی جو حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت تک سرکاری مہر کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔
- بعض معاملات میں ایسا بھی ہوا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رواج کے کچھ حصوں کو قبول فرمایا ہے اور کچھ کو رد کیا ہے۔ مثلاً غلامی کے شعبہ میں اس دور میں آزاد شخص کو پکڑ کر بیچ دیا جاتا تھا۔ تاوان کے عوض غلام بنایا جاتا تھا۔ کسی جرم کی سزا میں کسی شخص کو غلام قرار دے دیا جاتا تھا۔ اور جنگی قیدیوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری صورت کو جواز کے درجے میں برقرار رکھتے ہوئے غلام بنائے جانے کی پہلی تمام صورتوں کو ممنوع قرار دے دیا۔
- جاہلیت کے دور میں دم وغیرہ اور ٹونوں ٹوٹکوں کا عام رواج تھا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں ان سب باتوں سے منع فرما دیا۔ مگر بعد میں کچھ عرصہ کے بعد یہ کہہ کر اجازت دی کہ اعرضوا علیّ رقاکم۔ کہ اپنے دم وغیرہ میرے سامنے پیش کرو۔ تاکہ میں بتا سکوں کہ کون سا دم جائز ہے اور کون سا ناجائز۔
یہ چند باتیں میں نے اس لیے عرض کی ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں جاہلیت کی رسموں اور اس وقت کے بین الاقوامی عرف و تعامل کی بہت سی باتوں کو رد فرمایا ہے وہاں کچھ باتوں کو کلاً یا جزاً قبول بھی کیا ہے۔ اس لیے ہمیں آج کے بین الاقوامی معاہدات و معاملات کا پوری طرح جائزہ لینا چاہیے تاکہ ہم پورے شرح صدر کے ساتھ یہ طے کر سکیں کہ آج کے عالمی قوانین و معاہدات کی کون کون سی بات شرعی طور پر ہمارے لیے قابل قبول ہے اور کون سی باتوں کو ہم قبول نہیں کر سکتے۔