ویلفیئر اسٹیٹ، چائلڈ الاؤنس اور حضرت عمرؓ

   
جنوری ۲۰۲۳ء

ویلفیئر اسٹیٹ، بچوں کا وظیفہ اور حضرت عمرؓجناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں عملاً یہ ماحول بنا دیا تھا کہ بیت المال شہریوں کی ضروریات کا کفیل ہوتا تھا۔ معذوروں، بیروزگاروں اور مقروضوں کو تعاون ملتا تھا۔ جو آدمی اپنا خرچہ پورا نہیں کر سکتا، یا جو آدمی اپنا قرض ادا نہیں کر سکتا، یا معذور، یا بے روزگار ہوتا، تو بیت المال اس سے تعاون کرتا تھا۔ اسے آج کی دنیا میں ویلفیئر اسٹیٹ اور رفاہی ریاست کہتے ہیں۔آج مختلف ممالک میں چائلڈ الاؤنس یعنی بچہ پیدا ہونے پر وظیفہ جاری کیا جاتا ہے، یورپی ممالک میں برطانیہ، ناروے اور ڈنمارک وغیرہ میں چائلڈ الاؤنس دیا جاتا ہے۔ بچہ پیدا ہوا ہے تو ظاہر بات ہے کہ گھر کا خرچہ بڑھ گیا ہے، تو حکومت کی طرف سے اس کو اس بچے کا وظیفہ ملتا ہے۔ اس الاؤنس کا آغاز حضرت عمرؓ نے کیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے یہ قانون نافذ کر رکھا تھا کہ جو بھی ملک کا شہری ہے جس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو بچے کے لیے وظیفہ مقرر تھا۔ لیکن ضابطہ یہ تھا کہ جب بچہ ماں کا دودھ چھوڑنے کے بعد خوراک شروع کر دیتا تو اس کا وظیفہ لگ جاتا تھا۔ بچے کے لیے دودھ وغیرہ کے اخراجات برداشت کرنا بڑا مسئلہ ہوتا ہے اس لیے بچے کا بیت المال سے وظیفہ مقرر تھا۔ لیکن اس وقت جب ماں کا دودھ چھوڑ کر بچے کو الگ خوراک کی ضرورت ہوگی تو چونکہ گھر میں ایک اور فرد کا اضافہ ہوگیا ہے اور خرچہ بڑھ گیا ہے تب بچے کو وظیفہ دیا کرتے تھے۔

مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ حضرت عمرؓ کا معمول تھا کہ وہ رات کو گشت کیا کرتے تھے، حالات معلوم کرنے کے لیے کہ صورتحال کیا ہے؟ حضرت عمر کے خادم حضرت اسلمؓ اکثر ساتھ ہوتے تھے۔ ایک رات حضرت عمرؓ گشت کر رہے تھے۔ ایک گھر کے سامنے سے گزرے تو گھر سے بچے کے رونے کی آواز آرہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے سوچا کہ بچہ جاگا ہوگا اور رو رہا ہوگا، آگے گزر گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر جب وہاں سے گزر ہوا تو بچے کے رونے کی آواز تب بھی آرہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے پھر سوچا کہ بچہ ویسے ہی رو رہا ہوگا۔ اتفاق کی بات کہ جب حضرت عمرؓ وہاں سے تیسری دفعہ گزرے تو بچہ تب بھی رو رہا تھا۔ اب آپؓ کو پریشانی محسوس ہوئی کہ بچہ مسلسل ہو رہا ہے کوئی وجہ ہے۔

حضرت عمرؓ نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، ایک آدمی باہر نکلا، آپ نے اس سے پوچھا کہ بچہ کیوں رو رہا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ بچہ بھوکا ہے اور ماں اسے دودھ نہیں پلا رہی اس لیے بچہ رو رہا ہے۔ آپ نے پوچھا کہ ماں بچے کو دودھ کیوں نہیں پلا رہی؟ اس نے جواب دیا کہ ماں اس لیے دودھ نہیں پلا رہی کہ وہ دودھ چھڑوانا چاہتی ہے تاکہ بچہ دوسری خوراک کا عادی ہو اور بچے کا وظیفہ جاری ہو سکے، کیونکہ امیر المومنین نے یہ اعلان کیا ہوا ہے کہ بچہ دودھ چھوڑے گا تو اس کو وظیفہ ملے گا۔ ماں بچے کو دودھ چھوڑنے کی عادت ڈال رہی ہے تاکہ اس کا وظیفہ لگ سکے، حضرت عمرؓ نے اس سے کہا کہ ماں کو کہو دودھ پلائے۔ میں ہی عمر ہوں، صبح میرے پاس آئے میں وظیفہ جاری کر دوں گا۔

حضرت عمرؓ نے ساتھی کے سامنے اپنے آپ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے عمر! تو نے کتنے معصوم بچوں کو رُلایا ہو گا، عمر! تیری اس شرط کی وجہ سے کتنے بچے روئے ہوں گے؟ حضرت عمرؓ نے صبح ساتھیوں سے مشاورت کی کہ مجھے تو بڑی پریشانی ہوئی ہے۔ اس طرح کتنے معصوم بچے روئے ہوں گے جب ان کی ماؤں نے ان کا دودھ وظیفے کی غرض سے چھڑایا ہوگا۔ آپ نے قانون بدل دیا کہ بچے کا وظیفہ دودھ چھوڑنے سے نہیں بلکہ بچہ پیدا ہونے سے شروع ہوگا۔ خدا جانے دودھ چھڑانے کے لیے مائیں بچوں کے ساتھ کیا کیا کرتی ہوں گی۔

حضرت عمر ؓ کا جاری کردہ چائلڈ الاؤنس اب ابھی دنیا کی کئی ریاستوں میں چل رہا ہے، البتہ ہمارے ہاں نہیں ہے۔ بعض یورپی ممالک میں یہ وظیفہ چل رہا ہے۔ جب میں برطانیہ جایا کرتا تھا تب ایک بچے کو نو پونڈ ویکلی وظیفہ ملتا تھا۔ اگر پانچ بچے ہوں تو مہینے کی تنخواہ بن جاتی تھی۔ وہاں میں اکثر وائٹ چیپل کے علاقے میں رہتا تھا اس علاقے میں بنگالی زیادہ ہیں، وہاں کا ایم پی یعنی ممبر پارلیمنٹ بھی عام طور پر بنگالی ہوتا ہے، ایک دفعہ میں نے اپنے میزبان مولانا محمد عیسٰی منصوری سے پوچھا کہ عام طور پر یہ بنگالی کام نہیں کرتے، ایسے ہی بیٹھ کر گپ شپ لگاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کو کام کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ ان میں سے کسی کے دس سے کم بچے نہیں ہیں۔ ان کو وظیفہ ملتا ہے اور سارے گھر کا گزارا ہوتا ہے۔

برطانیہ کے چائلڈ الاؤنس پر ایک واقعہ ذکر دیتا ہوں۔ وزیر آباد کے سابق ایم این اے جسٹس افتخار چیمہ ہمارے دوست ہیں انہوں نے ایک مجلس میں یہ واقعہ بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ ہم کیمبرج میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو وہاں ایک عمر رسیدہ انگریز تھا، لوگ اس کو ملنے آیا کرتے تھے۔ سیانے لوگوں سے ملتے رہنا چاہیے، کوئی کام کی بات مل جاتی ہے۔ افتخار چیمہ کہتے ہیں کہ ہم نے بھی اس کی شہرت سن رکھی تھی تو ہم تین چار پاکستانی ساتھی اس کے پاس گئے، اس نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو، ہم نے بتایا پاکستان سے، پاکستان نیا نیا بنا تھا تو وہ ہماری بات سے بہت خوش ہوا، اور اس نے کہا تم نے اسلام کے نظام کے لیے ریاست بنائی ہے بہت اچھا کیا ہے۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔ اس نے ہم سے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ برطانیہ میں ویلفیئر اسٹیٹ کا جو سسٹم ہے اور بچوں، بے روزگاروں اور معذوروں کو وظیفہ ملتا ہے۔ جب یہ قانون نافذ ہوا تھا تو یہ کس نے بنایا تھا، ہم نے کہا ہمیں تو معلوم نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ پارلیمنٹ کی جس کمیٹی نے سوشل بینیفٹ کا سسٹم بنایا تھا اس کا چیئرمین میں تھا۔ پھر اس نے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے یہ سارا سسٹم کہاں سے لیا تھا؟ میں نے یہ جنرل عمرؓ سے لیا تھا۔ مغرب والے جب حضرت عمرؓ کا نام لیتے ہیں تو ان کو جنرل عمرؓ کہتے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد کی بات بھی نقل کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں بیان کی جس میں میں بھی شریک تھا۔ انہوں نے یہ واقعہ سنایا کہ میں ناروے گیا، وہاں بچہ پیدا ہونے پر اس کو وظیفہ ملتا ہے، اس وظیفے کا نام ’’عمر الاؤنس‘‘ ہے۔ کہتے ہیں یہ نام سن کر مجھے تجسس ہوا کہ حضرت عمرؓ کے نام سے الاؤنس ناروے میں، اس کا کیا مطلب؟ معلوم کیا تو پتہ چلا کہ صرف عمر الاؤنس نہیں، بلکہ وہاں سوشل بینیفٹس اور وظیفوں کا جو سسٹم ہے اس کو ’’عمر لاء‘‘ کہتے ہیں۔ ناروے کے قانون میں ’’عمر لاء‘‘ کا ذکر ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ قوانین حضرت عمرؓ سے لیے ہیں۔ وہ سسٹم ’’عمر لاء‘‘ کہلاتا ہے اور بچوں کا وظیفہ ’’عمر الاؤنس‘‘ کہلاتا ہے۔ حضرت عمرؓ اس بنیاد پر بچوں کو وظیفہ دیتے تھے کہ خاندان میں ایک فرد کا اضافہ ہوا ہے اور بجٹ میں اضافہ ہوا ہے تو اس بجٹ کا بوجھ بیت المال برداشت کرے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter