قسم اور خیر کے کام

   
۲۰ اپریل ۲۰۲۳ء

آج قسم کے حوالے سے ایک ضروری پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی وقت حالات سے مجبور ہر کر کوئی ایسی قسم اٹھا لی جس کے بارے میں بعد میں احساس ہوا کہ یہ قسم نہیں اٹھانی چاہیے تھی یا یہ قسم کسی خیر کے کام میں رکاوٹ بن رہی ہے تو ایسے موقع پر اسلام کی تعلیم کیا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کیا ہے؟

اس سلسلہ میں دور نبویؐ کے چند واقعات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جن سے ہمیں اس معاملہ میں راہنمائی ملتی ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ایک موقع پر ساتھیوں کے ہمراہ کھانا کھا رہے تھے تو ایک صاحب دسترخوان سے ہٹ کر الگ بیٹھ گئے، ان سے جب کھانے میں شریک ہونے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ حضرات مرغی کا گوشت کھا رہے ہیں اور میں مرغی کا گوشت نہیں کھایا کرتا، اس لیے کہ ایک موقع پر میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا تو میرے دل میں اتنی نفرت پیدا ہوئی کہ میں نے زندگی میں مرغی نہ کھانے کی قسم اٹھا لی اس لیے میں اس کھانے میں شریک نہیں ہوں گا۔

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے اس سے کہا کہ تم کھانے میں شریک ہو جاؤ، میں تمہیں قسم کے بارے میں مسئلہ بتاؤں گا۔ اس پر انہوں نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ ان کے خاندان کے لیے چند سواریوں کی ضرورت تھی تاکہ وہ سفر پر جا سکیں اور ان کے پاس سواریاں نہیں تھیں۔ جناب نبی اکرمؐ کے پاس بیت المال میں اونٹ وغیرہ موجود ہوتے تھے جو ضرورت مندوں کو دے دیے جاتے تھے۔ حضرت ابو موسٰی اشعریؓ چند اونٹوں کا تقاضہ لے کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپؐ کسی وجہ سے ناراض بیٹھے تھے، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو اس کا احساس نہ ہوا اور انہوں نے جاتے ہی اونٹوں کا سوال کر دیا۔ حضورؐ نے اونٹ دینے سے انکار کر دیا بلکہ ابو موسٰیؓ کے دوبارہ سوال پر قسم اٹھا لی کہ وہ انہیں کوئی سواری نہیں دیں گے۔ وہ مایوس ہو کر واپس چلے گئے، تھوڑی دیر کے بعد آپؐ نے انہیں بلوا بھیجا، وہ وہاں گئے تو اونٹوں کی دو جوڑیاں کھڑی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ ان کے حوالے کر دیے۔ انہیں خیال آیا کہ حضورؐ نے تو سواری نہ دینے کی قسم اٹھائی تھی اب وہ انہیں اونٹ کیسے دے رہے ہیں؟ سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ میں اگر کسی ایسی بات کی قسم اٹھا لوں جو خبر کے کام میں رکاوٹ بن رہی ہو تو قسم کو توڑ دیتا ہوں اور کفارہ ادا کر دیتا ہوں مگر قسم کو خیر کے کسی کام میں رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔

ایک حدیث میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بھی اس بات کی تلقین فرمائی یہ کہ اگر ایسی قسم اٹھا لی ہے جس کے بارے میں بعد میں احساس ہوا کہ یہ قسم خیر کے کسی کام میں رکاوٹ بن رہی ہے تو قسم توڑ کر کفارہ دے دو اور اس کی وجہ سے خیر کے کام کو نہ روکو۔

بخاری شریف میں اس سلسلہ میں ایک اور دلچسپ واقعہ بھی مذکور ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ کے کچھ مہمان آئے، انہوں نے اپنے بیٹے عبد الرحمانؓ سے کہا کہ مہمانوں کو گھر لے جا کر کھانا کھلاؤ، میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک ہو کر تھوڑی دیر تک آجاؤں گا۔ حضرت عبد الرحمان بن ابی بکرؓ مہمانوں کو گھر لے گئے اور دستر خوان بچھا کر ان کے لیے کھانا لگایا تو مہمانوں نے کہا کہ حضرت ابوبکرؓ جب آئیں گے تو وہ ان کے ساتھ ہی کھانا کھائیں گے۔ عبد الرحمانؓ نے اصرار کیا کہ وہ شاید دیر سے آئیں اس لیے آپ لوگ کھانا کھا لیں ورنہ وہ مجھ سے ناراض ہوں گے، مگر مہمانوں نے کہا کہ نہیں ہم حضرت ابوبکرؓ کی واپسی پر ان کے ساتھ ہی کھانا کھائیں گے۔ کچھ دیر کے بعد حضرت ابوبکرؓ گھر واپس آئے تو یہ معلوم کر کے حضرت عبد الرحمانؓ پر سخت ناراض ہوئے کہ ابھی تک مہمانوں نے کھانا نہیں کھایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے کھانا پیش کیا تھا مگر مہمانوں نے آپ کے بغیر کھانا کھانے سے انکار دیا۔ مہمانوں نے اس بات کی تصدیق کی تو حضرت ابوبکرؓ نے ان سے کہا کہ میں تو کھانا نہیں کھاؤں گا، اس لیے آپ لوگ کھانا کھا لیں۔ انہوں نے انکار کر دیا کہ آپ نہیں کھائیں گے تو ہم بھی نہیں کھائیں گے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے قسم اٹھا لی کہ وہ آج کھانا نہیں کھائیں گے، مہمانوں نے بھی قسم اٹھا لی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے تو ہم بھی نہیں کھائیں گے۔ اس سے خاصی پریشانی کا ماحول بن گیا، رات کا ایک حصہ گزر چکا تھا، حضرت ابوبکرؓ نے تھوڑی دیر کے بعد پریشانی کو محسوس کیا تو فرمایا کہ دستر خوان لگایا جائے وہ مہمانوں کے ساتھ کھانے میں شریک ہوں گے۔ جب کھانا کھا چکے تو حضرت صدیق اکبرؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی دہرایا کہ اگر وہ کسی ایسی بات کی قسم اٹھا لیں جس سے خیر کے کام میں رکاوٹ ہو رہی ہو تو وہ قسم توڑ کر کفارہ دے دیتے ہیں اور خیر کے کام کو نہیں روکتے۔

اس موقع پر ایک دلچسپ بات یہ بھی ہوئی کہ جب مہمان اور گھر کے افراد سب کھانا کھا چکے تو دیکھا کہ کھانے میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور وہ دسترخوان پر اسی طرح موجود ہے جیسے چنا گیا تھا، حضرت ابوبکرؓ نے اہلیہ محترمہ سے کہا کہ مجھے یوں لگتا ہے جیسے کھانا ویسے کا ویسا ہے جیسا کہ کھانے سے پہلے موجود تھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میرے خیال میں کھانا پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ برکت تھی اور حضرت ابوبکرؓ کی کرامت تھی۔ حضرت عبد الرحمان بن ابی بکرؓ کہتے ہیں کہ وہ کھانا صبح کو مسجد نبویؐ میں بھجوایا گیا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں نے وہ تناول کیا۔

اس کے ساتھ خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قسم کو بھی دیکھ لیں جس کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ آپؐ نے گھر کے کسی معاملہ کی وجہ سے قسم اٹھا لی کہ میں شہد نہیں کھاؤں گا تو اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے شہد کو حلال کہا ہے تو آپ اسے اپنے لیے حرام کیسے کر رہے ہیں؟ مفسرین کرامؒ اس کی حکمت بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے اگرچہ صرف ذاتی طور پر شہد استعمال نہ کرنے کی قسم اٹھائی تھی لیکن آپؐ امت کے لیے اسوہ ہیں اس لیے یہ بات پیش نظر تھی کہ اگر حضورؐ شہد استعمال نہیں کریں گے تو امت بھی شہد کا استعمال ترک کر دے گی۔ جس کی پہلے سے مثال موجود ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام بیمار ہوئے، انہیں عرق النساء یعنی لنگڑی کا درد تھا جو سخت تکلیف دہ ہوتا ہے، انہوں نے نذر مان لی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس بیماری سے شفا دے دی تو وہ اپنی سب سے مرغوب خوراک چھوڑ دیں گے، اللہ تعالیٰ نے شفا دی تو انہوں نے اونٹ کا گوشت کھانا چھوڑ دیا جو وہ بہت شوق سے کھایا کرتے تھے۔ حضرت یعقوبؑ نے اونٹ کا گوشت ذاتی طور پر اپنی نذر کی وجہ سے ترک کیا تھا مگر یہودیوں نے اسے مستقل طور پر حرام سمجھ لیا اور اب تک یہودیوں کے ہاں اونٹ کا گوشت حرام تصور ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرمؐ کو شہد ترک کرنے سے روک دیا اور فرمایا کہ ’’قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم‘‘ اللہ تعالیٰ نے ایسی قسموں کو توڑ دینا فرض کیا ہے۔

یہ چند واقعات میں نے اس لیے عرض کیے ہیں کہ ہمارے ہاں عام طور پر ایسی قسمیں اٹھا لی جاتی ہیں جو غلط ہوتی ہیں اور خیر کے کاموں میں رکاوٹ بن جاتی ہیں، اس لیے اگر کوئی ایسی قسم اٹھا لی جس سے حلال و حرام کا دائرہ متاثر ہو رہا ہے، یا وہ قسم خیر کے کسی کام میں رکاوٹ بن رہی ہے تو اس قسم کو توڑ دینا اور کفارہ ادا کرنا ہی سنتِ نبویؐ ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter