۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ کے دو شہروں نیویارک اور واشنگٹن میں ہونے والے بڑے سانحات میں ہزاروں جانوں کا نقصان ہوا ہے جس پر دنیا کے ہر شخص کو افسوس ہے، مگر امریکہ کی قیادت اس پر سیخ پا ہو کر جس بدحواسی کا مظاہرہ کر رہی ہے اس نے اہلِ دنیا کو افسوس اور رنج کے ساتھ ساتھ تعجب اور حیرت سے بھی دوچار کر دیا ہے۔ کیونکہ امریکہ کسی ثبوت کی فراہمی کی ضرورت محسوس کیے بغیر اور معاملہ کو کسی غیر جانبدار فورم کے سامنے لائے بغیر ازخود عرب مجاہد اسامہ بن لادن کو اس کا مجرم قرار دے رہا ہے، اور افغانستان کی طالبان حکومت پر اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام عائد کر کے اس پر حملہ آور ہونے کی تیاریوں میں مصروف ہے، حتٰی کہ امریکہ نے اس حملہ میں پاکستان کو شریک کار بننے کی دعوت بلکہ دھمکی دے کر اس کے لیے بھی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔
ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ اس معاملہ میں امریکہ خود ہی مدعی، خود ہی گواہ اور خود ہی جج کا منصب سنبھالے ہوئے ہے۔ اور امریکی قیادت طالبان کے اس مطالبہ کو انتہائی رعونت کے ساتھ رد کر چکی ہے کہ اگر اسامہ بن لادن کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو اسے سامنے لایا جائے، اور کسی ثبوت کے بغیر محض شک اور قیاس آرائی کی بنیاد پر اسے مجرم قرار نہ دیا جائے۔
اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں امریکہ کا موقف انصاف کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا اور اسے ہٹ دھرمی کے سوا اور کسی عنوان سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ اصل مقصد یہ نظر آتا ہے کہ امریکہ ان سانحات کو صرف افغانستان کے خلاف کاروائی کے لیے بطور بہانہ استعمال کرنا چاہتا ہے، جس کا مقصد:
- امارتِ اسلامی افغانستان کی اسلامی نظریاتی حکومت کو ختم کر کے وہاں لبرل طرز کی کوئی متبادل مسلمان حکومت قائم کرنا،
- پاکستان کی ایٹمی تنصیبات اور دیگر حساس عسکری مراکز پر نگرانی کا نظام قائم کرنا،
- اور عوامی جمہوریہ چین کے پڑوس میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی راہ ہموار کرنا ہے، جو جنوبی ایشیا کے حوالے سے امریکہ کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔
اس پس منظر میں افغانستان کے خلاف امریکہ کے فوجی عزائم میں اسے تعاون فراہم کرنے کی بات صرف افغانستان کے نہیں بلکہ خود پاکستان کے مفادات کے بھی منافی ہے۔ اور ہم حکومتِ پاکستان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں کوئی حتمی فیصلہ کرتے ہوئے ان معروضی حقائق اور ملکی مفاد کے تقاضوں کو نظرانداز نہیں کرے گی۔