لوئیس فرخان اور نیشن آف اسلام

   
مئی ۱۹۹۶ء

ریاستہائے متحدہ امریکہ ان دنوں سیاہ فام امریکیوں کی معروف تنظیم ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے سربراہ لوئیس فرخان کو لیبیا کے صدر محترم معمر القذافی کی طرف سے ملنے والی ایک ارب ڈالر کی امداد اعلیٰ حلقوں میں زیر بحث ہے۔ اور امریکی کانگریس کے ایک ممبر پیٹر کنگ نے کہا ہے کہ لوئیس فرخان کو کانگریس کے سامنے اس امر کی وضاحت کے لیے طلب کیا جائے گا کہ انہیں صدر قذافی کی طرف سے ملنے والی امداد سے امریکی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔

لوئیس فرخان نے گزشتہ دنوں لیبیا اور عراق کا دورہ کیا ہے اور اس سے قبل امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں نیشن آف اسلام کی منعقد کردہ عوامی ریلی عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے آ چکی ہے جس میں دس لاکھ کے لگ بھگ افراد نے شرکت کی تھی۔ اس عوامی ریلی کی قیادت لوئیس فرخان نے کی اور اس میں تلاوت قرآن کریم اور اذان کے خصوصی اہتمام کے ساتھ دنیا کو یہ بتایا گیا کہ نیشن آف اسلام امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے جو اپنے اثر و رسوخ میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔ اس پس منظر میں ضروری ہو گیا ہے کہ نیشن آف اسلام کے بارے میں تعارفی معلومات کو منظر عام پر لایا جائے تاکہ عام مسلمان امریکہ میں اسلام کے نام پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے والی اس تحریک کے عقائد و نظریات اور مقاصد سے آگاہ ہو سکیں۔

نیشن آف اسلام امریکہ کے آنجہانی سیاہ فام لیڈر ایلیجاہ محمد کی قائم کردہ تنظیم ہے، اور گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھانے سے قبل اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ لفظ ’’عالی جاہ‘‘ نہیں ہے جیسا کہ ہمارے ہاں عام طور پر لکھا جاتا ہے بلکہ ایلیجاہ (Elijah) ہے جو الیاس کا انگلش تلفظ ہے۔ جس طرح یعقوب کو انگریزی میں جیکب اور یوسف کو جوزف بولا جاتا ہے اسی طرح الیاس کو ایلیجاہ بولا جاتا ہے۔ ایلیجاہ محمد کا اصل نام ’’ایلیجاہ پول‘‘ تھا۔ وہ ۱۸۹۷ء میں امریکی ریاست جارجیا میں عیسائیوں کے بیپٹسٹ فرقہ کے ایک واعظ کے ہاں پیدا ہوا۔ آٹو موبائیل کا کاریگر تھا۔ ۱۹۳۰ء میں اس کی ملاقات امریکی شہر ڈیٹرائیٹ میں ’’ولی دی فارد‘‘ نامی ایک مبلغ سے ہوئی اور اس سے متاثر ہو کر اس نے ’’اسلام‘‘ کے نام پر اس کا مذہب قبول کر کے اپنا نام ایلیجاہ محمد رکھ لیا۔

ولی دی فارد جسے نیشن آف اسلام کے حلقوں میں ماسٹر ڈبلیو فارد محمد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں ہے کہ یہ شخص ۱۸۷۷ء میں مکہ میں پیدا ہوا اور ۱۹۳۰ء میں امریکہ چلا گیا۔ وہاں اس نے ڈیٹرائیٹ اور شکاگو میں مسجدیں بنائیں۔ اس نے امریکہ کے سیاہ فاموں کو بتایا کہ وہ ان کی راہنمائی اور نجات کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جبکہ نیشن آف اسلام کے ارکان کا اس کے بارے میں عقیدہ یہ ہے کہ وہ خدا کا فرستادہ اور کالوں کا نجات دہندہ تھا، بلکہ خود اللہ تعالیٰ اس کی شکل میں ظاہر ہوا تھا۔

ایلیجاہ محمد ۱۹۳۰ء میں اس کا ساتھی بنا اور تھوڑے عرصہ میں ہی اس کے دست راست کی حیثیت اختیار کر لی۔ ۱۹۳۴ء میں فارد محمد پراسرار طور پر غائب ہو گیا اور ایلیجاہ محمد نے اس کے جانشین کے طور پر اس گروہ کی قیادت سنبھال لی۔ ایلیجاہ محمد کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ خدا کا پیغمبر ہے اور سیاہ فاموں کی نجات اور برتری کے لیے بھیجا گیا ہے۔ امریکہ میں سیاہ فاموں پر صدیوں سے چلے آنے والے مظالم اور نسلی تفریق کے پس منظر میں اس نے اپنے پیروکاروں کو یہ عقیدہ دیا کہ دنیا کی قدیم سوسائٹیوں کے اصل راہنما سیاہ فام ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ جبکہ سفید فام شیطان کی نسل سے ہیں اور ان کی برتری کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اس نے سیاہ فاموں کو امریکی فوج میں بھرتی ہونے سے منع کیا جس کی پاداش میں اسے ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۶ء تک جیل بھگتنا پڑی اور اسے کالوں کے مسلّمہ لیڈر کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اس نے اپنے گروہ کا نام ’’نیشن آف اسلام‘‘ رکھا اور ’’محمد بولتا ہے‘‘ کے نام سے آرگن جاری کیا۔ اس نے کہا کہ سیاہ فام سب کے سب فطرتاً مسلمان ہیں اس لیے انہیں گوروں کے مذہب (عیسائیت) کو چھوڑ دینا چاہیے۔

ایلیجاہ محمد بنیادی طور پر سفید فاموں کے صدیوں سے چلے آنے والے مظالم کے خلاف سیاہ فاموں کے فطری ردعمل کا نمائندہ تھا، اور اس کے عقائد و افکار اور سرگرمیاں سفید فاموں کے خلاف اسی ردعمل اور نفرت کے اظہار کے گرد گھومتی رہیں، لیکن اس نے ’’اسلام‘‘ کا لبادہ اوڑھ کر اپنی تحریک کو مذہبی رنگ دے دیا۔

اسی دوران اسے عالمی مکہ باز محمد علی کلے اور مالکم ایکس جیسے ساتھی مل گئے جن کی وجہ سے اس کی تحریک کو بہت زیادہ شہرت اور وسعت حاصل ہوئی۔ محمد علی کلے کو تو ساری دنیا جانتی ہے، البتہ مالکم ایکس کا تعارف یہ ہے کہ یہ شخص ۱۹۲۵ء میں پیدا ہوا، اس کا اصل نام مالکم لٹل تھا، ہوش سنبھالتے ہی جرائم کی دنیا میں آگے بڑھنے لگا اور رفتہ رفتہ ایک ٹولی کا لیڈر بن گیا۔ ۱۹۴۶ء میں چوری کے الزام میں جیل چلا گیا جہاں سے ۱۹۵۲ء میں رہائی ملی۔ جیل کے دوران ایلیجاہ محمد کی تحریک سے متعارف ہوا اور اس میں شامل ہو گیا۔ رہائی کے بعد ایلیجاہ محمد سے ملا اور اس کا سرگرم ساتھی بن گیا۔ شعلہ نوا مقرر تھا، تھوڑے دنوں میں ایلیجاہ محمد کے دست راست کی حیثیت اختیار کر لی۔

اسی طرح محمد علی کلے نے بھی ایلیجاہ محمد کی تحریک سے متاثر ہو کر ’’اسلام‘‘ قبول کیا تھا، اس لیے وہ بھی اس گروہ کے لیے خاصی تقویت کا باعث بنا۔ لیکن مالکم لٹل، جو اب مالکم ایکس یا مالکم شہباز کے نام سے تعارف ہو چکا تھا، اور محمد علی کلے دونوں کو یہ فضا زیادہ دیر تک راس نہ آئی۔ محمد علی کلے کو دنیا کے مختلف حصوں کے مسلمانوں سے ملاقات کا موقع ملتا رہتا تھا اس لیے اس نے جلد محسوس کر لیا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا اسلام اور ایلیجاہ محمد کا اسلام دو مختلف اور متضاد مذہب ہیں۔ جبکہ مالکم ایکس کو ۱۹۶۴ء میں حج بیت اللہ کے لیے حرمین شریفین میں حاضری کا موقع ملا تو دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمانوں کو دیکھ کر اس کے ذہن کے دریچے کھل گئے۔ چنانچہ حج سے واپسی پر امریکہ پہنچ کر اس نے ایلیجاہ محمد کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا اور محمد علی کلے نے بھی اس بغاوت میں اس کا ساتھ دیا۔ ان دونوں نے اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد کی بنیاد پر دنیا بھر کی مسلمان برادری میں شمولیت اختیار کر لی۔ اور مالکم شہباز نے نیویارک میں ’’مسلم مسجد‘‘ کے نام سے الگ مرکز بنا لیا جو راقم الحروف نے دیکھا ہے۔ ۲۱ فروری ۱۹۶۵ء کو ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مالکم شہباز کو شہید کر دیا گیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قتل ایلیجاہ محمد کے ایما پر کیا گیا۔

ایلیجاہ محمد اس کے بعد ۱۹۷۵ء تک زندہ رہا اور اپنے گروہ کی قیادت کرتا رہا۔ ۱۹۷۵ء میں اس کی وفات ہوئی تو اس کے بیٹے وارث دین محمد نے اس کے جانشین کی حیثیت سے گروہ کی قیادت سنبھال لی، لیکن باپ کے غلط عقائد پر قائم رہنے کی بجائے اس نے بھی مالکم شہباز شہیدؒ اور محمد علی کلے کا راستہ اختیار کیا، اور اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیم کا نام بدل دیا اور اپنے ساتھیوں کے لیے ’’بلالی مسلم‘‘ کا خطاب اختیار کیا۔ مگر بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ وارث دین محمد کے ان اعلانات کے بعد ایلیجاہ محمد کے ایک اور ساتھی لوئیس فرخان نے، جو اس سے قبل مالکم شہباز شہیدؒ اور محمد علی کلے کے ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا، الٹی زقند لگا کر ایلیجاہ محمد کی جانشینی کا دعویٰ کر دیا اور اس کے عقائد پر واپس جاتے ہوئے اس کے گروہ کی قیادت سنبھال لی۔

چنانچہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وارث دین محمد، محمد علی کلے اور ان کے ساتھ امام سراج وہاج اہل السنۃ والجماعۃ (شافعی المسلک) عقائد کی بنیاد پر صحیح العقیدہ مسلمانوں کی راہنمائی کر رہے ہیں، جبکہ لوئیس فرخان ایلیجاہ محمد کے جانشین ہونے کا دعویٰ کر کے ’’نیشن آف اسلام‘‘ کی قیادت سنبھالے ہوئے ہے۔

لوئیس فرخان انتہائی عیار اور چالاک شخص ہے جو ایک طرف تو خود کو ایلیجاہ محمد کا نمائندہ قرار دیتا ہے اور اپنے سرکاری آرگن ’’دی فائنل کال‘‘ میں اس کے عقائد و نظریات کا مسلسل پرچار کر رہا ہے، مگر دوسری طرف دنیا بھر کی مسلمان تنظیموں اور حکومتوں کے ساتھ روابط بڑھا کر ان سے اخلاقی اور مالی تعاون بھی حاصل کر رہا ہے۔ یہ شخص ایلیجاہ محمد کے غلط عقائد کے خلاف بغاوت میں محمد علی کلے اور مالکم شہباز شہیدؒ کے ساتھ تھا، لیکن وارث دین محمد کے اعلانات کے بعد جب ایلیجاہ محمد کی سیٹ خالی دیکھی تو فوراً پلٹ کر اس کے گروہ کی قیادت سنبھال لی۔ اس نے ایلیجاہ محمد کے بیٹے وارث دین محمد کے خلاف امریکی عدالتوں میں ایک طویل مقدمہ لڑا کہ چونکہ وارث دین محمد اپنے باپ کے عقائد سے منحرف ہو گیا ہے اس لیے ایلیجاہ محمد اور نیشن آف اسلام کے اثاثوں پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ مقدمہ لوئیس فرخان نے جیت لیا ہے اور وہ تمام اثاثے اب اس کے پاس ہیں۔ لیکن مسلمان اداروں سے مفادات اٹھانے میں بھی وہ پیش پیش ہے۔

۱۹۹۰ء میں رابطہ عالم اسلامی نے امریکہ میں مسلمان تنظیموں کی ایک کانفرنس منعقد کی تو اس میں لوئیس فرخان بطور مہمان خصوصی شریک تھا۔ اس نے کانفرنس کی رپورٹ اور تصویریں اپنے آرگن ’’دی فائنل کال‘‘ کے ۳۱ اکتوبر ۱۹۹۰ء کے شمارے میں نمایاں طور پر ’’مسلمان متحد ہو گئے‘‘ کے عنوان کے ساتھ شائع کیں جبکہ اسی شمارے میں ’’دی فائنل کال‘‘ کی پرنٹ لائن یوں درج ہے:

Published by Minister Louis Farrakhan National Representative of the Honorable Elijah Muhammad and The Nation of Islam

اس پر امریکہ کی مسلمان تنظیموں میں اضطراب پیدا ہوا، چنانچہ شکاگو کے ایک مسلم ادارہ ’’انسٹیٹیوٹ آف اسلامک انفرمیشن اینڈ ایجوکیشن‘‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر امیر علی صاحب نے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد اللہ عمر نصیف کو ایک تفصیلی یادداشت بھجوائی جس کی ایک کاپی شکاگو حاضری کے موقع پر انہوں نے مجھے بھی مرحمت فرمائی۔ اس یادداشت کے ساتھ نیشن آف اسلام کے سرکاری ترجمان دی فائنل کال کی ۲۸ ستمبر ۱۹۹۰ء کی اشاعت کے ایک صفحہ کی فوٹوکاپی بھی منسلک ہے جس میں ایلیجاہ محمد کی فوٹو کے ساتھ ’’مسلمانوں کے عقائد کیا ہیں؟‘‘ کے عنوان سے نیشن آف اسلام کے عقائد درج ہیں۔

ان عقائد میں جہاں کالوں کی برتری اور آنے والے دور میں ان کی بالادستی کا ذکر ہے، وہاں یہ بھی ہے کہ قیامت امریکہ میں قائم ہو گی اور اس کے نتیجے میں کالوں کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ ان عقائد میں یہ بھی لکھا ہے کہ قیامت کے دن سزا و جزا کا تعلق جسم و بدن کے ساتھ نہیں ہو گا بلکہ یہ روحانی اور ذہنی سکون یا اذیت کی صورت میں ہو گی۔ اور انہی عقائد میں ماسٹر ڈبلیو فارد محمد کے بارے میں لکھا ہے کہ

We believe that Allah (God) appeared in the person of Master W. Fard Muhammad on July 1930, the long awaited Messiah of the Christian and the Mahdi of the Moslims.

’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ۱۹۳۰ء میں ماسٹر فارد محمد کی شکل میں ظاہر ہوا تھا، یہ وہی مسیح ہے جس کا عیسائیوں کو مدت سے انتظار ہے، اور وہی مہدی ہے جس کا مسلمانوں کو انتظار ہے۔‘‘

(بقیہ حصہ ندارد)

   
2016ء سے
Flag Counter