روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۸ اپریل ۱۹۹۸ء کی ایک خبر کے مطابق بیساکھی کے میلہ کے سلسلہ میں لاہور آئے ہوئے ایک سکھ راہنما اور شرومنی پربندھک کمیٹی کے ممبر سردار جنگ بہادر نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ۱۹۴۷ء میں تقسیمِ پنجاب کے موقع پر ہندوؤں کے ورغلانے پر سکھوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا جس پر انہیں افسوس ہے۔
غالباً دو سال قبل کی بات ہے کہ لندن کے علاقہ ساؤتھال میں، جہاں سکھوں کی بڑی تعداد آباد ہے، ایک سکھ راہنما سے اس مسئلہ پر راقم الحروف کی گفتگو ہوئی تو انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ ہم سے اس وقت بہت بڑی غلطی ہوئی کہ ہم نے ہندوؤں کے اکسانے پر مسلمانوں کا قتلِ عام کیا اور اس کا خمیازہ ابھی تک ہم بھگت رہے ہیں۔ راقم الحروف نے ان سے عرض کیا کہ صرف ۱۹۴۷ء کی بات نہیں ہے بلکہ ۱۸۵۷ء میں بھی سکھوں نے مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا جب ۱۸۵۷ء کی معروف جنگِ آزادی کے کمانڈر جنرل بخت خان مرحوم دہلی پر قبضہ کر چکے تھے اور غاصب انگریزوں کو کوئی جائے پناہ نہیں مل رہی تھی، اس وقت بھی پنجاب سے سکھوں کی تازہ دم فوج نے دہلی جا کر انگریزوں کا ساتھ دیا تھا اور جنرل بخت خان سے دہلی کا قبضہ واپس لینے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ اس وقت اگر سکھ فوجیں انگریزوں کی حمایت میں دہلی نہ پہنچتیں، اور مرزا غلام احمد قادیانی کے دادا مرزا غلام مرتضٰی جیسے غدارانِ قوم انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے لڑاکا نوجوانوں کے دستے دہلی نہ بھجواتے تو جنگِ آزادی اپنے نتائج حاصل کر چکی تھی اور دہلی پر مجاہدینِ آزادی کا قبضہ ہو چکا تھا۔
سکھوں کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ جذبات میں آ کر کام کر جاتے ہیں اور بعد میں سوچتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے وہ کرنا چاہیے تھا یا کہ نہیں؟ اس لیے انہیں افسوس اور ندامت کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ مگر یہ صرف سکھوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، جو قوم یا گروہ بھی صرف جذبات اور جوش و خروش کے حوالے سے فیصلہ کرتا ہے اور نتائج و عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا، تاریخ میں اسے یہی کردار ملتا ہے، اور جب پچھتاوے کی نوبت آتی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں حاصل ہوتا کیونکہ ؎
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت