سپاہ صحابہؓ کے مظاہرے اور مطالبات

   
جون ۱۹۹۸ء

روزنامہ جنگ لاہور ۱۴ مئی ۱۹۹۸ء کے مطابق سپاہ صحابہؓ کے قائم مقام سربراہ خلیفہ عبد القیوم نے اپنے قائدین کی رہائی کے لیے ملک بھر میں دوبارہ مظاہرے شروع کرنے اور ۶ جون کو مسجد شہداء لاہور میں کل پاکستان احتجاجی جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

محرم الحرام کے آغاز میں سپاہ صحابہؓ کے کارکنوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا اور اس موقع پر حکومت کے ذمہ دار حضرات کے ساتھ گفتگو میں یہ طے پایا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف وفاقی وزیر داخلہ کی موجودگی میں سپاہ صحابہؓ کے مرکزی راہنماؤں سے مذاکرات کریں گے اور ان کی شکایات کا جائزہ لیں گے۔ ان مذاکرات کے لیے اخبارات میں ایک تاریخ کا بھی اعلان ہوا تھا جو گزر چکی ہے، مگر مذاکرات کے کہیں دور دور تک آثار دکھائی نہیں دیتے۔

سپاہ صحابہؓ کے راہنماؤں کے ایک وفد نے گزشتہ روز گوجرانوالہ میں راقم الحروف سے بھی ملاقات کی اور اپنے موقف اور مطالبات سے آگاہ کیا، جس کے مطابق انہیں شکایت یہ ہے کہ انہیں یکطرفہ طور پر ریاستی جبر اور انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی راہنمائی میں ان کی ذاتی دلچسپی کے باعث ہو رہا ہے۔ سپاہ صحابہؓ کے راہنماؤں کا کہنا ہے کہ جس نوعیت کے مقدمات ان کے خلاف درج ہیں، ان کے مخالف فریق کے خلاف بھی اسی قسم کے مقدمات ملک بھر میں موجود ہیں، لیکن کاروائی صرف سپاہ صحابہؓ کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف ہو رہی ہے۔ ان کے بقول سپاہ صحابہؓ کے راہنما اور صوبائی اسمبلی کے رکن مولانا محمد اعظم طارق جس نوعیت کے مقدمات میں ایک عرصہ سے زیر حراست ہیں، تحریکِ جعفریہ کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی کے خلاف اسی نوعیت کے مقدمات مختلف تھانوں میں ریکارڈ پر موجود ہیں، مگر وہ نہ صرف آزاد ہیں بلکہ بہت سے اجلاسوں میں وزیراعظم پاکستان کے پہلو میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ سپاہ صحابہؓ کے راہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے کارکنوں کے خلاف ملک بھر میں درج مقدمات میں سے بیشتر انتقامی اور معاندانہ ہیں، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے طرزعمل پر نظرثانی کرے اور سپاہ صحابہؓ کو ہر حال میں کچل دینے کی پالیسی تبدیل کر کے انصاف کے تقاضے پورے کرے۔

سپاہ صحابہؓ کے مذکورہ موقف کے حوالے سے ہماری گزارش ہے کہ اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اور اس کا معروف طریقہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن قائم کیا جائے جو سُنی شیعہ کشیدگی میں اضافے کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں سپاہ صحابہؓ اور تحریکِ جعفریہ کے راہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف درج مقدمات کا جائزہ لے اور محض مخالفت اور ضد کی بنیاد پر درج کیے گئے مقدمات کو خارج کر کے دونوں فریقوں کو انصاف مہیا کیا جائے۔ اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو سپاہ صحابہؓ کی قیادت کے اس الزام کو رد کرنا مشکل ہو جائے گا کہ حکومت طے شدہ پالیسی کے تحت سپاہ صحابہؓ کے راہنماؤں اور کارکنوں کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنا رہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter