بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اگست کا مہینہ شروع ہو گیا ہے اور حسبِ معمول ہر طرف سبز ہلالی پرچم لہرانے کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ چودہ اگست کو ہم قومی یومِ آزادی مناتے ہیں، اس روز برصغیر نے برطانوی استعمار کی حکومت سے آزادی حاصل کی تھی اور اسی روز پاکستان کے نام سے ایک نئی سلطنت اس خطہ میں وجود میں آئی تھی۔ ہم ان دو باتوں کی خوشی میں چودہ اگست کو ملک بھر میں تقریبات کرتے ہیں، قومی پرچم لہرایا جاتا ہے، ریلیاں ہوتی ہیں اور شہدائے آزادی کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی ایسا ہی ہو گا اور وطن و قوم کے لیے اور دین و ملت کے لیے ہم نئے عزم کا اظہار کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس موقع پر ایک قدیمی تحریکِ آزادی کے کچھ مناظر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کی تفصیلات قرآن کریم نے بیان فرمائی ہیں، ان میں سے دو چار کا تذکرہ کروں گا۔
یہ بنی اسرائیل کی جدوجہد آزادی ہے جو حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی قیادت میں کی گئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے یہودی قبائل کو دیکھا کہ وہ دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں۔ وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ اس روز فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہوا تھا اور بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی۔ یہ ہمارا یومِ آزادی ہے اور ہم اس کے شکرانہ میں روزہ رکھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ ’’نحن احق بموسیٰ منکم‘‘ ہمارا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تعلق تم سے زیادہ ہے، اس لیے ہم بھی روزہ رکھیں گے۔ چنانچہ اس کے بعد دس محرم کے روزے کا سلسلہ ہمارے ہاں بھی شروع ہو گیا۔
بنی اسرائیل کی آزادی کے بہت سے مراحل قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں، ان میں سے دو چار کا ذکر کر رہا ہوں۔
پہلی بات یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت غلام قوم میں ہوئی تھی اور اس وقت طاقت ور اور غالب قوم یعنی آل فرعون کا طریق کار یہ تھا کہ غلام قوم بنی اسرائیل کے کسی گھر میں اگر لڑکا پیدا ہوتا تو اسے قتل کر ا دیتے تھے تاکہ بڑا ہو کر ہمارے لیے مسئلہ نہ بنے۔ اور لڑکی کو زندہ رہنے دیتے تھے کہ یہ خدمت کے کام آئے گی۔ حضرت موسٰیؑ کی ولادت ہوئی تو والدہ محترم پریشان ہو گئیں کہ حکمران گروہ کو پتہ چل گیا تو بچے کی جان خطرے میں پڑ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر انہیں تسلی دی جو قرآن کریم میں ہے کہ ’’واوحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیہ فاذا خفت علیہ فالقیہ فی الیم ولا تخافی ولا تحزنی‘‘ (القصص ۷) ہم نے حضرت موسٰیؑ کی والدہ کے دل میں بات ڈالی کہ بچے کو دودھ پلاؤ، اگر اس کے بارے میں خوف ہو تو صندوق میں بند کر کے دریائے نیل میں ڈال دو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اس کی خود حفاظت کریں گے، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ صندوق دریائے نیل کی لہروں کے ساتھ فرعون کے محلات کے پاس سے گزرا تو کارندوں نے پکڑ لیا۔ کھول کر دیکھا تو ایک خوبصورت بچہ تھا۔ معصوم بچہ ایسے بھی خوبصورت لگتا ہے، اور وہ تو پیغمبر تھے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’والقیت علیک محبۃ منی‘‘ (طہ ۳۹) میں نے حضرت موسٰی علیہ السلام پر محبت کی چادر ڈال دی تھی، جو بھی دیکھتا تھا محبت کرنے لگتا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی حفاظت کا بندوبست تھا۔
فرعون کی اہلیہ حضرت آسیہؓ نے دیکھا تو ان کے دل میں محبت کا جذبہ موجزن ہو گیا اور انہوں نے فرعون کے کارندوں کو قتل کرنے سے روک دیا بلکہ اپنا بیٹا بنا لیا۔ اور پھر حضرت موسٰیؑ کی پرورش فرعون کے خرچہ پر اس کے گھر میں ہوئی۔ جبکہ حضرت موسٰیؑ کو اپنی والدہ محترم سے بھی اللہ رب العزت نے ملا دیا اور دودھ وہی پلاتی رہیں۔
جوان ہونے تک حضرت موسٰیؑ کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک بار ان کے قوم کے ایک فرد کا جھگڑا فرعون کے خاندان کے ایک شخص سے ہوا تو موسیٰ علیہ السلام نے قومِ فرعون کے شخص کو مکہ مارا جس سے وہ مر گیا۔ حضرت موسٰیؑ پکڑے جانے کے خوف سے مصر چھوڑ کر مدین چلے گئے اور حضرت شعیب علیہ السلام کے گھر میں دس سال رہے۔ ان کی بیٹی سے ان کی شادی ہوئی، پھر وطن واپس آ رہے تھے کہ کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ نے نبوت سے نوازا اور فرعون کو دین کی دعوت دینے پر مامور فرمایا۔
حضرت موسٰیؑ کی درخواست پر ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت ملی اور دونوں بھائی فرعون کے دربار میں اللہ تعالیٰ کے دو پیغام لے کر گئے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی سرکشی سے باز آجاؤ اور خدائی کا دعویٰ ترک کر کے ایک اللہ کی عبادت کرو۔ اور دوسرا پیغام یہ تھا کہ ’’ان ارسل معنا بنی اسرائیل‘‘ (الشعراء ۱۷) ہماری قوم بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ اپنے پرانے وطن فلسطین میں واپس جانے دو۔ ہم واپس آزادی کے ماحول میں جانا چاہتے ہیں، تم راستہ نہ روکو۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت کی نشانی اور معجزہ کے طور پر عصا اور یدِ بیضا عطا فرمائے تھے جن کا اظہار فرعون کے دربار میں ہوا۔ جسے فرعون نے جادو قرار دے کر اس کے مقابلہ کے لیے اپنے جادوگر اکٹھے کرنے کا فیصلہ کیا۔ ملک بھر سے جادوگر جمع کیے گئے، کھلے میدان میں مقابلہ ہوا، جادوگروں کا جادو ناکام ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام جادوگر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔ وہ ان پر ایمان لے آئے جس پر فرعون نے انہیں قتل کرنے اور سولی پر لٹکانے کی دھمکی دی۔ انہوں نے اس کی پروا نہ کی اور ایمان پر استقامت کا اظہار کیا۔
اس مقابلہ میں ناکامی کے بعد فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا، جبکہ حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہارونؑ آزادی کے ساتھ اپنا کام کر رہے تھے۔ اس پر ’’وقال الملا من قوم فرعون اتذر موسیٰ و قومہ لیفسدوا فی الارض‘‘ (الاعراف ۱۲۷) فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کہ تم نے موسیٰ اور اس کی جماعت کو زمین میں فساد پھیلانے کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے؟ فرعون نے یہ بات درباریوں کے سامنے پیش کی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کے لیے مشورہ مانگا تو خود فرعون کے ایک رشتہ دار نے اس کی مخالفت کر دی اور دربار میں حضرت موسٰیؑ کے حق میں خطاب کیا۔ جس کا ذکر قرآن کریم نے ’’وقال رجل مومن من اٰل فرعون‘‘ (مومن ۲۸) کے عنوان سے تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔
یہ مراحل گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ ’’اسر بعبدی انکم متبعون‘‘ (الشعراء ۵۲) بنی اسرائیل کو لے کر رات کے وقت مصر سے نکل جاؤ کہ تمہارا تعاقب کیا جائے گا۔ چنانچہ بنی اسرائیل رات کو نکلے، فرعون نے پیچھا کیا، سمندر کے قریب پہنچ کر بنی اسرائیل پریشان ہو گئے کہ ہم تو درمیان میں پھنس گئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے سمندر کو پھاڑ کر بنی اسرائیل کو راستہ دیا اور فرعون کو لشکر سمیت غرق کر دیا اور اس طرح بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی۔