اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان دنوں ملک کے قیام کی پچاس سالہ تقریبات منائی جا رہی ہیں اور گزشتہ ماہ کے دوران اسی سلسلہ میں اسلام آباد میں مسلم سربراہ کانفرنس کا انعقاد بھی ہو چکا ہے۔ اگرچہ پچاس سالہ تقریبات کو جشن کے طور پر منانے کا طرزعمل بجائے خود محل نظر ہے کیونکہ قیامِ پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے گزشتہ نصف صدی میں ہم نے کوئی عملی پیشرفت نہیں کی:
- پاکستان کے قیام کا مقصد مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت کا احیا اور اسلامی نظام کی عملداری بتایا جاتا ہے، جس کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
- جبکہ ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد مسلمانوں کو ہندوؤں کی معاشی بالادستی سے نجات دلانا اور اقتصادی خودمختاری کا حصول تھا، اور اسلام کا نعرہ صرف عام مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے لگایا گیا تھا۔ لیکن اس نقطۂ نظر سے بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا کیونکہ ہماری قومی معیشت ہندو ساہوکار کے سائے سے نکل کر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی وساطت سے یہودی ساہوکاروں کے شکنجے میں جکڑی جا چکی ہے، اور ہم معاشی خودکفالت اور اقتصادی خودمختاری کی منزل سے ہنوز کوسوں دور ہیں۔
- مزید برآں گزشتہ نصف صدی کے دوران ہم ملک کے دولخت ہونے کے کربناک مرحلے سے بھی گزر چکے ہیں۔
اس لیے اصل ضرورت تو پچاس سالہ احتساب کی ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں کا تجزیہ کریں اور ان کے اسباب و عوامل کو سامنے لا کر ان کے ذمہ دار افراد و طبقات کا محاسبہ کریں۔ لیکن ہم اس کی بجائے جشن نما تقریبات، کھیل کود اور راگ و رنگ کی محفلوں میں مگن ہیں۔ جس کا ایک مظاہرہ ’’عالمی موسیقی کانفرنس‘‘ کی صورت میں مسلسل اخبارات کی خبروں کا موضوع بنا ہوا ہے جو گولڈن جوبلی تقریبات کے حوالے سے منعقد کی گئی ہے۔ ہم اربابِ حل و عقد سے عرض کریں گے کہ یہ طریق کار درست نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ جشن منانے کا کوئی موقع ہے اور نہ ہی راگ و رنگ اور لہو لعب میں قوم کو مشغول رکھنے کا کوئی جواز ہے۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ
- تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کے مقاصد کو اجاگر کیا جائے،
- ان مقاصد کے حصول میں ناکامی کے احساس کو بیدار کیا جائے،
- اور اس ناکامی کے اسباب و عوامل کا تجزیہ کرتے ہوئے ان سے نجات حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے۔