’’اسلام کے بنیادی ارکان مسلم ریاست کو کیا سبق سکھاتے ہیں؟‘‘ کے عنوان سے محترم افضال ریحان صاحب کے ایک حالیہ کالم کے ایک پہلو پر کچھ گزارشات پیش کر چکا ہوں، ایک اور پہلو کے حوالے سے چند معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ محترم موصوف ارشاد فرماتے ہیں کہ
’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کا جو فریضہ ہے، اس کو جتنا بھی بڑھا لیا جائے، اس کی جتنی بھی فضیلت بیان کر لی جائے، یہ رکنِ اسلام کبھی بھی قرار نہیں پایا ۔۔۔ پھر معروف و منکر بھی کوئی طے شدہ ابدی خیر و شر کے اعمال و افعال نہیں ہیں، ہر نسل اور ہر دور کا اپنا معروف اور اپنا منکر ہوتا ہے، جسے اس نسل اور اس دور کے لوگوں کو تلاش کرنا چاہیے۔‘‘
یہاں دو باتیں توجہ طلب ہیں:
- ایک یہ کہ قرآن و سنت کے وہ احکام جو اسلام کے بنیادی ارکان کی فہرست میں شامل نہیں ہیں، کیا اس بات سے ان کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور ان پر عملدرآمد کی اس درجہ ضرورت باقی نہیں رہتی؟
- اور دوسری بات یہ کہ قرآن کریم نے جن معروفات کی تلقین اور جن منکرات سے منع کرتے رہنے کا حکم دیا ہے، کیا وہ ابدی نہیں ہیں اور کیا زمانے کے تغیر کے ساتھ ساتھ معروف و منکر کا تصور بھی بدلتا رہا ہے؟
پہلی بات کی وضاحت کے لیے قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات کا حوالہ دینا چاہوں گا جن سے آسانی کے ساتھ یہ بات معلوم کی جا سکتی ہے کہ قرآن و سنت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا درجہ کیا ہے۔ اور اسلام کے بنیادی ارکان کی فہرست میں شامل نہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسولؐ نے اس فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی پر کس قدر سخت لہجے میں زجر و توبیخ فرمائی ہے:
- سورہ آل عمران کی آیت ۱۰۴، ۱۱۰، ۱۱۴ میں اللہ تعالیٰ نے امتِ محمدیہؐ کا خصوصیت کے طور پر ذکر فرمایا ہے کہ یہ امت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ اور اس بات کا حکم دیا ہے کہ تم میں ایک مستقل جماعت اس کام کے لیے مخصوص ہونی چاہیے کہ وہ معروفات کی تلقین اور منکرات سے روکنے کا کام کرتی رہے۔
- سورہ المائدہ کی آیت ۷۸، ۷۹ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ملعون قرار دیے جانے کے اسباب بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اس لیے نازل ہوئی کہ وہ منکرات کا ارتکاب تو کرتے تھے، لیکن ایک دوسرے کو منکرات سے روکنے کا عمل انہوں نے ترک کر دیا تھا۔ انہی آیات میں بنی اسرائیل کے لعنت کا مستحق ہونے کا ایک اور سبب بھی بیان کیا گیا ہے جو اگرچہ ہمارے اس موضوع سے تعلق نہیں رکھتا لیکن محترم افضال ریحان صاحب کی خصوصی توجہ کے لیے اس کا ذکر کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ بنی اسرائیل اس لیے بھی لعنتی قرار پائے کہ ان کی اکثریت نے کافروں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانا شروع کر دی تھیں۔
- سورہ الاعراف کی آیت ۱۵۷ اور آیت ۱۹۹ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائضِ منصبی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نبی آخر الزمانؐ لوگوں کو معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے منع کرتے ہیں، اور رسول اکرمؐ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپؐ عفو و درگزر سے کام لیں، معروف کا حکم دیں، اور جاہلوں سے اعراض کریں۔
- سورہ التوبہ کی آیت ۶۷ میں بتایا گیا ہے کہ منافقوں کا کام یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو منکرات کے لیے آمادہ کرتے ہیں اور معروفات سے روکتے ہیں۔ اس سورت کی آیت ۵ میں مومنوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ معروفات کا حکم دیتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں۔ جبکہ آیت ۱۱۲ میں مومنوں کی صفت کے طور پر دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ اس کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ وہ نیکی کی تلقین کرنے والے اور برائی سے روکنے والے ہوتے ہیں۔
- سورہ الحج کی آیت ۴۱ میں اللہ تعالیٰ نے مسلم حکمرانوں کے فرائض کا ذکر کیا ہے کہ جب ہم انہیں زمین میں اقتدار دیتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ کا اہتمام کرتے ہیں، معروفات کی تلقین کرتے ہیں، اور منکرات سے لوگوں کو روکتے ہیں۔
- سورہ لقمان کی آیت ۱۷ میں حضرت لقمان حکیم علیہ السلام کی اس نصیحت کا ذکر ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنے بیٹے کو دیگر نصائح کے ساتھ ساتھ اس بات کی تلقین بھی فرمائی ہے کہ بیٹا! نماز قائم کرنا، نیکی کا حکم دینا، برائی سے منع کرتے رہنا، اور جو مصیبت یا آزمائش آئے اس پر صبر کرنا۔
قرآن کریم کے مذکورہ بالا ارشادات کے ساتھ ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند فرمودات پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے:
- مسلم شریف میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص منکر یعنی برائی کا ارتکاب ہوتا دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو دل سے روکے یعنی دل سے اس کو برا جانے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
- ترمذی شریف میں حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اس پروردگار کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ تم نیکی کی تلقین ضرور کرو گے اور برائی سے روکتے رہو گے، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیج دے، پھر تم دعائیں کرو گے تو وہ بھی قبول نہیں کی جائیں گی۔
- ترمذی اور ابو داؤد میں روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب زمامِ خلافت سنبھالنے کے بعد مرتدین اور باغیوں کی سرکوبی کے لیے مختلف اطراف میں لشکر روانہ کیے تو بعض حضرات نے قرآن کریم کی ایک آیت (سورہ المائدہ آیت ۱۰۵) کا ان کے سامنے تذکرہ کیا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’اے ایمان والو! تم پر لازم ہے کہ اپنی فکر کرو، کوئی اگر گمراہ ہوتا ہے تو تمہیں اس کا کوئی ضرر نہیں ہے، اگر تم خود ہدایت پر ہو‘‘۔ اس آیت کریمہ کی طرف حضرت ابوبکرؓ کی توجہ دلانے سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مرتدین، منکرینِ ختمِ نبوت، منکرینِ زکوٰۃ اور دیگر باغیوں کے خلاف خلیفۂ اول کی فوج کشی شاید اس آیت کے تقاضے کے خلاف ہے۔ اس پر حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ اس آیت کریمہ کا یہ مطلب نہیں ہے اس لیے کہ میں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے، آپ فرماتے تھے کہ لوگ جب معاشرے میں برائی کا ارتکاب ہوتا دیکھیں اور اس کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو عذاب سے دوچار کر دیں۔
- ترمذیؒ میں حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب نبی اکرمؐ سے اس آیت کریمہ (المائدہ ۱۰۵) کے بارے میں دریافت کیا تھا، آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اس آیت کا حکم عمومی نہیں ہے بلکہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے رہو گے، حتیٰ کہ جب خواہش پرستی اس درجہ عام ہو جائے کہ دنیا کو ہی ترجیح دی جانے لگے، ہر شخص اپنی رائے پر اترانا شروع کر دے اور تمہارے لیے خود اپنی ہی فکر کرنا ناگزیر ہو جائے، تو پھر باقی لوگوں کو چھوڑ دو اور اپنی فکر کرو، کیونکہ وہ صبر کا زمانہ ہو گا اور اس دور میں دین کی بات کرنا ایسے ہو گا جیسے جلتا ہوا انگارہ ہاتھ میں لینا، اس دور میں دین پر عمل کرنے والے کو تم میں سے پچاس عمل کرنے والوں جتنا اجر ملے گا۔
- ترمذی شریف میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے ایک بار نمازِ عصر کے بعد طویل خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں یہ بھی فرمایا کہ تمہیں لوگوں کی ہیبت اس بات سے نہ روکے کہ جو حق بات معلوم ہو وہ بھی نہ کہہ سکو، اور برائی کا عمل ہوتا دیکھو تو اسے روک نہ سکو۔
- شرح السنۃ میں حضرت عدیؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کی بدعملی پر عام لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا، لیکن جب وہ دیکھیں کہ برائی کا ارتکاب کھلے بندوں ہو رہا ہے، اور وہ اسے روکنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی نہیں روکتے، تو پھر اللہ تعالیٰ خاص اور عام سب لوگوں کو عذاب سے دوچار کر دیتے ہیں۔
- امام بیہقیؒ نے ’’شعب الایمان‘‘ میں حضرت عمر بن الخطابؓ سے روایت کیا ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ آخری زمانے میں لوگوں کو اپنے حکمرانوں کی طرف سے سخت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس دور میں تین قسم کے لوگ نجات کے مستحق ہوں گے: (۱) وہ شخص جس نے دین کو پہچانا اور اس کے لیے اپنی زبان، ہاتھ اور دل کے ساتھ جہاد کرتا رہا۔ (۲) دوسرا وہ شخص جس نے دین کی پہچان حاصل کی اور اس کی تصدیق کرتا رہا۔ (۳) اور وہ شخص جس نے دین کی بات سنی اور خاموشی اختیار کر لی ، البتہ اس نے جس کو خیر پر عمل کرتے دیکھا اس سے محبت کی اور جس کو باطل پر عمل کرتے دیکھا اس سے دل میں نفرت کی۔ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ ان میں پہلا شخص ایسا ہے کہ اس کے لیے سبقت کے جھنڈے گاڑے جائیں گے، یعنی سب سے بہتر شخص وہ ہو گا۔
- بیہقیؒ کی ’’شعب الایمان‘‘ میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ پہلے زمانوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو اس کی ساری آبادی سمیت الٹا دو۔ حضرت جبریلؑ نے عرض کیا کہ یا اللہ! اس بستی میں ایک ایسا شخص بھی رہتا ہے جس نے کبھی آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس شخص سمیت ساری بستی کو الٹ دو، اس لیے کہ میری نافرمانی دیکھ کر ایک بار بھی اس کے چہرے کا رنگ نہیں بدلا، یعنی اس نے کبھی غصے کا اظہار نہیں کیا۔
ان آیاتِ کریمہ اور احادیثِ نبویہؐ کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کے بیان کردہ اس تاریخی واقعے کا حوالہ بھی دینا چاہوں گا جس کا تذکرہ سورہ الاعراف آیت ۱۶۲ تا ۱۶۶ میں کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے دور میں سمندر کے کنارے ایک بستی کے لوگوں نے ہفتہ کے دن مچھلی کے شکار کی ممانعت کے بارے میں حکمِ خداوندی سے انحراف کا راستہ اختیار کیا تو کچھ لوگ انہیں ایک دو بار سمجھانے کے بعد خاموش ہو گئے، مگر کچھ لوگوں نے مسلسل سمجھانے اور روکتے رہنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ حتیٰ کہ ان لوگوں سے پوچھا گیا کہ تم لوگ انہیں برائی سے روکنے میں اتنا پیچھا کیوں کرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ خود ہی انہیں سزا دے گا۔ برائی سے مسلسل روکنے والوں نے جواب دیا کہ ہم اپنے رب کے حضور عذر پیش کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں تاکہ ہماری معذرت قبول ہو جائے اور ہمیں یہ بھی امید ہے کہ شاید یہ لوگ راہِ راست پر آجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ برائی سے مسلسل روکتے رہے انہیں ہم نے نجات دی، اور ظالموں کو سخت عذاب میں مبتلا کر دیا، اور وہ عذاب یہ تھا کہ انہیں بندروں کی شکل میں مسخ کر دیا گیا۔
ان واضح حقائق کے باوجود اگر ہمارے بعض دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چونکہ اسلام کے بنیادی ارکان کی فہرست میں مذکور نہیں ہے اس لیے اس کی حیثیت ثانوی اور اضافی ہے، تو انہیں اس رائے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، لیکن قرآن و سنت کے صریح دلائل ان کی اس بات کی تائید نہیں کرتے۔
اس کے بعد ہم دوسری بات کی طرف آتے ہیں کہ کیا معروف اور منکر کا دائرہ اور معیار ہر دور کے لیے الگ ہے؟ اور زمانے کے تغیر کے ساتھ ساتھ معروفات کی حدود اور فہرست میں بھی ردوبدل ہو جاتا ہے؟ ہمارے خیال میں اس سوچ کی بنیاد مغرب کے اس فکر و فلسفہ پر ہے کہ معروف اور منکر کا تعین کرنا اور ان کی حدود طے کرنا صرف اور صرف سوسائٹی کا کام ہے جس میں اللہ تعالیٰ، وحی اور رسول کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور سوسائٹی کی اقدار چونکہ ہمیشہ تغیر پذیر رہتی ہیں اس لیے معروف اور منکر کے دائرے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ مغرب آج اسی فلسفہ پر عمل پیرا ہے اور ہم مسلمانوں سے بھی یہ فلسفہ قبول کرنے کا مسلسل مطالبہ کر رہا ہے، یہ اسی فکر و فلسفہ کا کرشمہ ہے کہ
- سود اور جوا، جو مغرب میں ایک دور تک برائی اور منکر شمار ہوتا رہا ہے، آج اس کے معروفات میں شامل ہو چکا ہے اور مغرب کے تمام تر نظامِ معیشت کی بنیاد ہی اسی پر ہے۔
- زنا، عریانی اور ہم جنس پرستی کچھ عرصہ قبل تک مغرب میں منکرات کی فہرست میں تھے، مگر اب انہیں معروفات بلکہ انسانی حقوق میں شمار کر لیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں کے روشن خیالوں نے بھی جب زنا کے بارے میں شرعی قوانین میں ردوبدل کیا تو اسے تحفظِ حقوقِ نسواں کا نام دیا۔ اس پر میرا اصولی اعتراض یہ تھا، جو اَب بھی قائم ہے، کہ زنا کو اسلامی شریعت نے جرائم میں شمار کیا ہے، مگر ہمارے روشن خیالوں نے تحفظِ حقوقِ نسواں کے کے ساتھ اسے حقوق کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔
- شراب اب سے پون صدی پہلے تک مغرب میں منکرات کا حصہ رہی ہے، حتیٰ کہ امریکہ میں اب سے کچھ عرصہ پہلے تک اس کے بنانے، بیچنے اور پینے پلانے پر قانوناً پابندی تھی، مگر اب وہ معروفات میں شمار ہوتی ہے۔
یہ دو تین مثالیں صرف یہ واضح کرنے کے لیے پیش کی ہیں کہ مغرب کے نزدیک چونکہ معروف اور منکر یا خیر و شر کے تعین کی بنیاد صرف سوسائٹی کی سوچ اور خواہش پر ہے اس لیے اس کا ہر دور کا معروف و منکر اور خیر و شر الگ الگ ہے۔ کل کی برائی آج کی نیکی ہے، اور آج کی نیکی کل برائی کا عنوان اختیار کر سکتی ہے۔ مگر اسلام میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اسلام میں خیر و شر اور معروف و منکر کا فیصلہ وحئ الٰہی کے حوالے سے ہوتا ہے جو قرآن و سنت کی صورت میں ہمارے پاس پوری تفصیلات اور تصریحات کے ساتھ موجود ہیں۔ اس لیے کوئی سوسائٹی خدانخواستہ اجتماعی طور پر پورے اتفاق کے ساتھ بھی قرآن کریم کے بیان کردہ کسی شر کو خیر کا، اور منکر کو معروف کا عنوان دینا چاہے تو اسے اس کا اختیار نہیں ہے۔
قرآن کریم نے ’’نہی عن المنکر‘‘ کو مسلمانوں کے اجتماعی فرائض میں شمار کیا ہے، سوسائٹی کی اجتماعی ذمہ داری قرار دیا ہے، اور اس کا ذکر مسلمان حکومت کی ذمہ داریوں میں کیا ہے۔ جبکہ جن باتوں سے قرآن کریم نے منع کیا ہے، سورہ النساء کی آیت ۳۱ میں ارشاد ربانی ہے کہ اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے، جن سے تم روکے جاتے ہو، بچتے رہو تو تمہاری باقی خطائیں ہم خود ہی معاف کر دیں گے اور تمہیں جنت میں داخل کر دیں گے۔ اسی آیت کریمہ کی روشنی میں محدثین کرامؒ نے ’’کبیرہ گناہ‘‘ اور ’’صغیرہ گناہ‘‘ کی اصطلاحات بیان کی ہیں، اور اس سلسلہ کی مجموعی احادیث و روایات کی بنیاد پر یہ بتایا ہے کہ صغیرہ گناہ نیک اعمال کی برکت سے خودبخود معاف ہوتے رہتے ہیں، مگر کبیرہ گناہ کی معافی کے لیے توبہ، تلافی اور استغفار شرط ہے۔ ہمارے علم اور فہم کے مطابق یہ ’’کبائر‘‘ ہی وہ منکرات ہیں جن سے قرآن کریم نے ہر حال میں بچنے کا حکم دیا ہے، اور جن سے ایک دوسرے کو منع کرنے کی نہ صرف پوری امت کو تلقین کی ہے بلکہ اسے حکومت کی سرکاری ذمہ داریوں میں بھی شامل کیا ہے۔
محدثین کرامؒ کے ہاں کبیرہ گناہ وہ شمار ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا یا آخرت میں کوئی سزا مقرر کی ہے، جس کے ساتھ لعنت یا غضب کا ذکر کیا ہے، یا جس کام کے کرنے والے سے اللہ تعالیٰ نے یا رسول اللہ نے بیزاری اور برأت کا اظہار کیا ہے۔ اس نوعیت کے سارے کام کبیرہ گناہ شمار ہوتے ہیں۔ امام شمس الدین ذہبیؒ نے اس اصول پر ’’کتاب الکبائر‘‘ کے نام سے مستقل کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے محدثینؒ کے اس اصول کی روشنی میں ۷۰ گناہ ذکر کیے ہیں۔ مگر اس بات کی وضاحت کے لیے کہ اسلام کس قسم کے کاموں سے سختی کے ساتھ روکتا ہے، اور قرآن و سنت نے منکرات سے روکنے کا جو حکم دیا ہے اس کا دائرہ کیا ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیسیوں ارشادات میں سے صرف دو کا حوالہ دینا چاہوں گا:
- بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو: (۱) شرک (۲) جادو (۳) قتلِ ناحق (۴) سود خوری (۵) یتیم کا مال ہڑپ کرنا (۶) میدانِ جنگ سے بھاگ جانا (۷) پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ جبکہ بخاری شریف ہی کی ایک روایت میں حضرت ابوہریرہؓ جناب نبی اکرمؐ کا ارشاد بیان کرتے ہیں جس میں (۸) شراب نوشی (۹) خیانت و بد دیانتی (۱۰) اور کسی کا مال اچک لینے کو ایمان کے منافی اعمال میں شمار کیا ہے۔
- مسند احمد میں حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ (۱) شرک نہ کرنا (۲) ماں باپ کی نافرمانی نہ کرنا (۳) فرض نماز کبھی ترک نہ کرنا (۴) شراب نہ پینا (۵) شریعت کی نافرمانی سے بچنا (۶) میدانِ جنگ سے نہ بھاگنا (۷) وبا کے علاقہ سے باہر نہ جانا (۸) اہل و عیال پر استطاعت کے مطابق خرچ کرتے رہنا (۹) ان پر اپنا رعب اور کنٹرول قائم رکھنا (۱۰) اور خدا کے معاملہ میں انہیں ڈراتے رہنا۔
ان روایات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک منکرات اور کبائر کی نوعیت کیا ہے، اور اسلام کس قسم کے کاموں سے مسلم سوسائٹی کو پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ کبیرہ گناہوں اور منکرات کی یہ ایک ابتدائی فہرست ہے جو میں نے قرآن و سنت کے حوالے سے پیش کی ہے۔ ان میں سے کون سی بات ہے جو حالات کے تغیر اور سوسائٹی کے ماحول میں تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہو سکتی ہے؟ اور پھر مسلم سوسائٹی میں یہ اختیار اور اتھارٹی آخر کس کے پاس ہے کہ وہ قرآن کریم کے بیان کردہ حرام کو حلال اور منکر کو معروف قرار دے سکے؟ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو معروف کا درجہ دیا ہے اسے حالات کے تغیر یا سوسائٹی کے ارتقا کے عنوان سے منکرات کی فہرست میں شامل کر سکے؟
مغرب نے تو خدا، رسول اور وحی سے دستبرداری اختیار کر لی ہے، اس لیے سوسائٹی کی خواہش پر اس نے شراب، زنا، ہم جنس پرستی، عریانی، سود اور جوا جیسے صریح منکرات کو معروفات کا درجہ دے کر انسانی حقوق کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ لیکن مسلم سوسائٹی بحمد اللہ تعالیٰ خدا اور رسول اور قرآن و سنت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ قرآن کریم اور سنتِ رسولؐ پر ایمان رکھتی ہے اور وحئ الٰہی کے ساتھ اس کی کمٹمنٹ تمام تر بے عملی اور کوتاہیوں کے باوجود آج بھی بے لچک ہے۔
اس لیے مسلم سوسائٹی کو قرآن و سنت کے صریح احکام کو نظرانداز کر دینا، یا ان کی خودساختہ تعبیر و تشریح کر کے ان میں سے مغربی فلسفہ و ثقافت کشید کرنا قرآن و سنت کے ساتھ صریح نا انصافی ہے۔ اگر ہمارے بعض محترم دانشوروں کے نزدیک ایسا کرنا بہرحال ضروری ہے تو اس کے لیے مصطفیٰ کمال اتاترک کی طرح اخلاقی جرأت سے کام لیتے ہوئے قرآن و سنت سے دستبرداری کا صریح اعلان کرنا ہو گا، کیونکہ قرآن و سنت کے فرمودات و ارشادات ایسے مخفی اور مبہم نہیں ہیں کہ ان کے نام پر مغرب زدہ روشن خیالی کی کوئی دکان سجائی جا سکے۔