ملک کا عدالتی نظام اور سپریم کورٹ آف پاکستان

   
نومبر ۲۰۰۰ء

روزنامہ جنگ لندن ۹ اکتوبر ۲۰۰۰ء کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب ارشاد حسین خان نے ملک کے عدالتی نظام کے ایک شعبہ عائلی مقدمات کے حوالے سے کوڈ آف کریمینل پروسیجرز مجریہ ۱۸۹۸ء کی دفعہ ۴۹۱ اور فیملی کورٹس آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم کے مسودہ کو عوامی رائے کے لیے مشتہر کرنے کی منظوری دی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی مجوزہ ترامیم منظر عام پر آ گئی ہیں جن کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے ذریعے عائلی مقدمات کے حوالے سے عدالتوں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے گا اور فیملی تنازعات کو جلد از جلد نمٹایا جائے گا۔

مجوزہ ترامیم میں فیملی کورٹس کو چھ ماہ کے اندر مقدمہ کا فیصلہ کرنے کا پابند کیا گیا ہے، اور جہیز کے معاملہ میں ڈگری کے اجرا کی شرح کو پندرہ ہزار روپے سے بڑھا کر تیس ہزار روپے کیا جا رہا ہے، جبکہ دیکھ بھال کے ماہانہ خرچہ کی مقدار پانچ ہزار روپے سے بڑھا کر دس ہزار روپے کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی فیملی کورٹس کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ وہ کسی ایک ہی مقدمہ میں طلاق، بچوں کی دیکھ بھال، ازدواجی حقوق کی بحالی، جہیز ،یا دیگر معاملات سے متعلق مختلف دعاوی کو ایک ہی دعویٰ میں شامل کر کے سب کا اکٹھا فیصلہ کر سکتی ہیں۔

ملک کے عدالتی نظام میں بہتری لانے اور عوام کو مقدمات و تنازعات کے فیصلے جلد از جلد فراہم کرنے کی اس کوشش سے اصولی طور پر ہم پوری طرح متفق ہیں۔ کیونکہ اس وقت ہماری عدالتوں میں جرائم، مالیات اور فیملی امور سے متعلق لاکھوں مقدمات زیرسماعت ہیں، اور ایک مقدمہ کو فیصلہ تک پہنچنے میں سالہا سال کا عرصہ گزر جاتا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں اس کا جو طریق کار اختیار کیا گیا ہے وہ درست نہیں ہے، کیونکہ برطانوی استعمار کے دور میں نافذ کیے جانے والے بوسیدہ عدالتی نظام کے مختلف حصوں کی مرمت کر کے اور ان میں تھوڑا بہت ردوبدل کر کے اسے اس قابل نہیں بنایا جا سکتا کہ وہ ہماری مذکورہ قومی ضرورت کو پورا کر سکے۔

  • اس وجہ سے بھی کہ یہ عدالتی نظام نوآبادیاتی دور کی یادگار ہے جو اس دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر نافذ کیا گیا تھا، اور آزادی کے بعد کی ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔
  • اس وجہ سے بھی کہ یہ نظام ہمارے دینی اعتقادات اور مذہبی احکام سے مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ پاکستان کے مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے معاملات بالخصوص نکاح و طلاق کے امور شریعت کے مطابق طے کرنے کے خواہشمند ہیں، جبکہ مروجہ عدالتی نظام کی بنیاد قرآن و سنت پر نہیں ہے۔ اور یہ واضح تضاد بھی ایک اہم وجہ ہے جو معاشرہ میں جرائم پر قابو پانے میں رکاوٹ ہے۔

اس لیے ہم چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش کریں گے کہ وہ بوسیدہ نوآبادیاتی عدالتی نظام کو ترامیم کی بیساکھیوں کے سہارے قائم رکھنے کی ناکام کوششوں میں وقت ضائع نہ کریں، بلکہ قرآن و سنت کے اصولوں کی بنیاد پر اسلام کے عدالتی نظام کو ملک میں مکمل طور پر رائج کرنے کی طرف پیشرفت کریں کیونکہ اس کے سوا ہمارے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter