ایک طرف ملک کے سرکاری نصابِ تعلیم کی تیاری و اشاعت کو بین الاقوامی اداروں کے سپرد کر کے اسے سیکولر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے، اور دوسری طرف مغربی دانشور درسِ نظامی کے مکمل دینی نصاب کا جائزہ لے کر اس کی افادیت پر بحث کر رہے ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۲ اپریل ۲۰۰۱ء کے مطابق اسلام اور دیگر مشرقی علوم کے معروف امریکی سکالر پروفیسر جان وال برج نے گزشتہ روز لاہور میں ’’اقبال میموریل لیکچر ۲۰۰۱ء‘‘ سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام اتحاد اور قانون کا مذہب ہے، اور اسلامی معاشرہ میں درسِ نظامی کا روایتی نظام ختم ہونے سے اسلامی تعلیمات کو نقصان، اور اسلام میں اختلافات کے خاتمہ کے ماحول کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ جبکہ اسلامی معاشروں کو درس نظامی کے پرانے اور فعال نظام کی ضرورت ہے، اسی نظام سے اسلامی معاشروں میں اختلافات کے خاتمہ میں مدد ملتی تھی اور معاشرے میں برداشت عام ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جدیدیت پسند اور بنیاد پرست دونوں مسلمان گروپ درسِ نظامی کے فعال کردار کے خاتمے پر خاموش ہیں، اور اپنی اپنی جگہ اسلام کی تشریح اپنے اپنے حوالے سے کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پروفیسر جان وال برج نے یہ بھی کہا کہ نوآبادیاتی نظام، جدیدیت اور سیکولرازم کے نظاموں نے اسلامی تعلیمات کے پرانے نظام درسِ نظامی کو ختم کر دیا ہے جس سے اسلامی تعلیمات و علوم اور اسلامی قانون کی تحقیق کے حوالے سے حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔
ہم پروفیسر جان وال برج کے اس تجزیہ سے متفق ہیں، البتہ ان کا یہ ارشاد ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ ’’بنیاد پرست حلقہ بھی درسِ نظامی کے فعال کردار کے خاتمہ پر خاموش ہے‘‘۔ کیونکہ بنیاد پرست حلقے نے تو گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے درسِ نظامی کے نظام کو سینے سے لگا رکھا ہے، اور جنوبی ایشیا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے لاکھوں دینی مدارس درسِ نظامی کے نصاب کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ اسے قومی سطح پر ایک متبادل نظام کے طور پر پیش کرنے کی صلاحیت سے بھی بہرہ ور ہیں۔ البتہ نوآبادیاتی نظام، جدیدیت اور سیکولر نظاموں کے بارے میں ان کا ارشاد بجا ہے، مگر یہ سب مل کر بھی درسِ نظامی کے نصاب و نظام کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔