عراق پر امریکی حملے کی تیاری اور برطانوی وزیر

   
اکتوبر ۲۰۰۲ء

روزنامہ جنگ کراچی ۲۳ ستمبر ۲۰۰۲ء کی خبر کے مطابق برطانیہ کی بین الاقوامی ترقی کی وزیر کلیئرشاٹ نے عراق پر ممکنہ حملے کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہم مشرقِ وسطیٰ میں ایک اور جنگ نہیں چھیڑ سکتے۔ بی بی سی کے مطابق انہوں نے کہا کہ عراقی عوام پہلے ہی بہت کچھ سہہ چکے ہیں، کوئی نہ کوئی طریقہ نکالنا چاہیے جس سے اقوامِ متحدہ کی تجاویز کو عراق پر نافذ کیا جا سکے اور صدام حسین کو بین الاقوامی طاقت سے خوفزدہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اور خلیجی جنگ نہیں چھیڑی جا سکتی اور عراقی عوام کو مزید پریشانی میں مبتلا نہیں کیا جا سکتا۔

برطانیہ امریکہ کا سب سے قریبی حلیف ہے اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے مبینہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ کا جس طرح ساتھ دیا ہے اور ہر سطح پر اس کا دفاع کیا ہے، اس کے پیش نظر ایک برطانوی ایم پی نے کچھ عرصہ قبل ان پر یہ آوازہ کسا تھا کہ وہ برطانیہ کے وزیراعظم نہیں بلکہ امریکہ کے وزیرخارجہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن عراق پر نئے امریکی حملہ کی تیاریوں کے اس سنگین ماحول میں ٹونی بلیئر کی کابینہ کی ایک اہم رکن کی طرف سے ممکنہ حملہ کی مذمت اور عراقی عوام سے ہمدردی کا یہ بیان اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ امریکہ کا اصل کردار آہستہ آہستہ دنیا پر واضح ہوتا جا رہا ہے۔ اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ملبہ کی دھول اور دھند کی فضا میں امریکہ نے اپنے مخصوص عزائم کو عالمی جنگ کی شکل دینے کی جو پالیسی اختیار کی تھی، اس کی اصلیت بے نقاب ہوتی جا رہی ہے۔

ہم برطانوی وزیر کے اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں اور برطانوی حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنے حلیف بلکہ عالمی جانشین امریکہ کو اس پالیسی اور طرزعمل پر نظرثانی کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرے جس کا ساتھ دینا خود برطانیہ کے لیے بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ برطانیہ کے لیے یہ بات سمجھنا کون سا مشکل ہے کہ اقوام و ممالک کو طاقت کے ذریعے زیادہ دیر تک دبایا نہیں جا سکتا، اور نہ ہی عقائد و نظریات اور تہذیبوں کو قوت و دولت کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ گزشتہ صدیوں میں اس کا بخوبی تجربہ کر چکا ہے، اس لیے اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عالمی جانشین کو اس تلخ تجربہ کے نتائج سے آگاہ کرے اور دہرانے کے تکلف سے باز رکھنے کی سنجیدہ کوشش کرے۔

   
2016ء سے
Flag Counter