مجلسِ اتحادِ امت پاکستان کے زیر اہتمام ۶ دسمبر ۲۰۲۳ء کو اسلام آباد کنونشن سینٹر میں ’’حرمتِ مسجدِ اقصٰی اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘ کے عنوان پر قومی سیمینار سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں اس اجتماع میں ایک کارکن کے طور پر اپنا نام شمار کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حاضری قبول فرمائیں۔ میں بس دو تین سوالات عرض کرنا چاہوں گا، باقی قائدین جو خطاب فرمائیں گے وہ ہمارا ایجنڈا ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ اور اس پر عمل کیا جائے گا۔
(۱) پہلا سوال ہمارے پاکستان کے حکمرانوں سے ہے کہ اسرائیل جب بنا تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل ناجائز ریاست ہے، ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ جبکہ آج ہم دو ریاستی حل کی بات پاکستان کی طرف سے کر رہے ہیں۔ میرا اسٹیبلشمنٹ سے سوال ہے کہ جناب! یہ موقف میں تبدیلی کب آئی ہے اور کس نے کی ہے؟ کل ہی ’’دو ریاستی حل‘‘ کا بیان آیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان کے موقف میں یہ تبدیلی کب آئی ہے، وہ اتھارٹی کون سی ہے جس نے قائد اعظم کے موقف کو مسترد کر کے دو ریاستی حل کی بات پیش کی ہے؟
(۲) میرا دوسرا سوال عالمی اسٹیبلشمنٹ سے اور دو ریاستی حل پیش کرنے والوں سے ہے کہ جناب! آپ نے ۱۹۴۷ء میں دو ریاستی منصوبہ بنایا تھا اور اب تک اس کو عملی صورت میں نہیں لا سکے، بلکہ آپ ۷۵ سال سے ڈیڑھ ریاستی فارمولے کو فلسطین پر مسلط کیے ہوئے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل مکمل ریاست ہے اور دوسری طرف فلسطین کو نارمل خودمختار ریاست بننے نہیں دیا جا رہا۔ اسرائیل کو آپ سپورٹ کر رہے ہیں، اسباب اور وسائل مہیا کر رہے ہیں، قوت مہیا کر رہے ہیں، اس کے پیچھے کھڑے ہیں، امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت۔ اسرائیل تو ایک مکمل طاقتور ریاست کے طور پر کھڑا ہے، جبکہ فلسطین جس کو ’’ریاست‘‘ کہتے ہوئے آپ کو شرم نہیں آتی اور اسے ایک نارمل خودمختار ریاست آپ خود نہیں بننے دے رہے۔ یہ ڈیڑھ ریاستی فارمولا کہاں سے آیا ہے اور یہ ۷۵ سال سے کیوں مسلط ہے؟ یہ میرا ان سے سوال ہے کہ ایک بات کرو کہ یا ڈیڑھ ریاست کی بات کرو، یا دو ریاستوں کی بات کرو، یہ تضاد اور منافقت ختم کرو۔
(۳) جبکہ تیسری بات کہ ایک اسٹیک ہولڈرز تو ریاستی ہیں، اور ایک اسٹیک ہولڈرز عوامی ہیں۔ ہمارے سماج اور سول سوسائٹی کے اسٹیک ہولڈرز حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب، حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب، حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب، حضرت مولانا ساجد میر صاحب ہیں، اور جناب سراج الحق صاحب ہیں۔ یہ ہمارے قائدین ہیں، ان سے میرا سوال ہے کہ ہمیں صرف کبھی کبھی اکٹھے نہیں ہونا چاہیے بلکہ قومی و ملی مسائل پر اکٹھے رہنا چاہیے، حالات ہم سے اکٹھے ہونے کا نہیں بلکہ اکٹھے رہنے کا تقاضہ کر رہے ہیں اور آنے والے انتخابات کا تو سب سے بڑا تقاضہ یہی ہے۔ اللہ پاک ہمیں صحیح رخ پہ چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔