مہنگائی، قوتِ خرید اور طبقاتی کلچر

   
۲۷ جون ۲۰۰۶ء

تین خبریں بظاہر ایک دوسرے سے الگ نظر آتی ہیں مگر خدا جانے کیوں مجھے ایک سی لگتی ہیں:

  1. ایک یہ کہ وزیر اعظم نے بجٹ کے موقع پر عوام کو خوشخبری دی ہے کہ دالیں کچھ سستی ہو گئی ہیں۔
  2. دوسری یہ کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اس شکایت کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے کہ ارکانِ اسمبلی کو ایک روز ناشتہ میں جو حلوہ دیا گیا اس میں ریت پائی گئی تھی۔
  3. اور تیسری خبر یہ کہ خیر سے ایک رکن قومی اسمبلی کے دل میں غریب عوام کی ہمدردی جاگی ہے اور انہوں نے درویشی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اس طور پر کہ آئندہ وہ کھانے پینے کے لیے مٹی کے برتن استعمال کریں گے، زمین پر سوئیں گے، اور بسوں پر سفر کیا کریں گے۔

دالوں کے سستا ہونے کی بات بھی خوب ہے، اگر واقعی دال اس حد تک سستی ہو جائے کہ ایک عام آدمی کی قوتِ خرید کے دائرے میں رہے تو واقعتاً غریب آدمی کے لیے یہ خوشخبری کی بات ہے کہ کوئی چیز تو ایسی ہے کہ وہ آسانی سے خرید کر اپنے بچوں کو دو وقت روٹی کھلا سکتا ہے، مگر غریب آدمی کی ایسی قسمت کہاں! میرے بچپن کے دور میں یعنی اب سے کوئی چالیس پینتالیس سال قبل اشیائے خورد و نوش کی جو قیمتیں تھیں، آج کے بچوں کو جب وہ بتاتے ہیں تو انہیں یا تو خواب کی باتیں لگتی ہیں یا وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ بتانے والے کا دماغ چل گیا ہے۔ ہمارے گھر میں بھائیوں میں بڑا ہونے کی وجہ سے بازار سے سودا سلف لانے کی ذمہ داری زیادہ تر میری ہوتی تھی۔ والدہ صاحبہ محترمہ کی علالت کی وجہ سے گھر میں دو ہنڈیاں پکتی تھیں۔ ان کے لیے بکرے کی گردن کا ایک پاؤ گوشت لایا جاتا تھا اور باقی گھر والوں کے لیے بڑا گوشت پکتا تھا۔ میں نے ایک مدت تک بڑا گوشت چودہ آنے سیر اور بکرے کا گوشت دو روپے سیر خریدا ہے۔ جی ٹی روڈ گکھڑ میں جامع مسجد بوہڑ والی کے نیچے اللہ رکھا صاحب مرحوم کی گوشت کی دکان تھی، ان سے چھوٹا گوشت لایا جاتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک روز میں نے پاؤ گوشت تلوا کر ایک روپیہ انہیں دیا تو انہوں نے مجھے سات آنے واپس کیے، گویا ایک پاؤ گوشت کے نو آنے وصول کیے۔ میں نے غصے سے گوشت کا پیکٹ ان کی طرف پھینکا اور گھر کی طرف بھاگ نکلا۔ وہ دکان چھوڑ کر میرے پیچھے پیچھے جی ٹی روڈ تک آئے اور مجھے پکڑ کر کہا حافظ جی! آپ ٹوٹے ہوئے آٹھ آنے لے آیا کریں اور چپکے سے مجھے پکڑا دیا کریں، میرا بھاؤ خراب نہ کریں۔ اس کے بعد میں ایسے ہی کرتا رہا۔

اللہ رکھا صاحب مرحوم کا ذکر ہوا ہے تو ایک واقعہ اور یاد آ گیا ہے۔ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے عید الاضحیٰ سے ایک روز قبل مجھے ان کے پاس بھیجا کہ وہ قربانی کے لیے کوئی مناسب سا جانور دے دیں، عید کے بعد ان سے حساب کر لیں گے۔ میں گیا تو انہوں نے جانوروں میں سے ایک ’’لیلے‘‘ کا انتخاب کیا اور اس کی رسی مجھے پکڑا دی، میں اسے گھر لے آیا۔ عید پر اسے ذبح کرنے کے لیے بھی وہی اللہ رکھا صاحب آئے۔ اور دو تین روز بعد والد صاحب نے مجھے ایک سو روپے کا نوٹ دے کر بھیجا کہ جا کر ان کا حساب دے آؤ۔ انہوں نے نوٹ رکھ لیا اور باقی کچھ نہ دیا۔ میں نے واپس آ کر والد صاحب کو بتایا تو تعجب بلکہ قدرے غصے کے ساتھ کہا کہ ’’عجیب آدمی ہے، سارے ہی رکھ لیے ہیں‘‘۔

گوجرانوالہ سے لاہور کا سفر میں نے جس زمانے میں شروع کیا بس کا کرایہ ایک روپیہ چھ آنے تھا۔ لاہور سے ملتان کا پہلا سفر میں نے بس میں سوا پانچ روپے میں کیا ہے۔ اور گوجرانوالہ سے راولپنڈی کا سفر مجھے سوا چار روپے میں یاد ہے۔ مجھے یہ واقعہ کبھی نہیں بھول سکتا کہ میرے طالب علمی کے ابتدائی دور میں چند طلبہ نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ایک یونین بنائی جس کا سیکرٹری میں تھا۔ ہم نے طلبہ کے زیر انتظام ایک جلسہ کیا جس میں ملتان سے حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کو رخصت کرتے وقت گوجرانوالہ سے ملتان تک بس کے کرائے کا حساب کر کے پندرہ روپے پیش کیے تو بڑی شفقت سے فرمانے لگے کہ بیٹا اس تکلیف کی ضرورت نہیں تھی مگر تبرک سمجھ کر رکھ لیتا ہوں۔

اب وہ دور یاد آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یا تو وہ کوئی حسین خواب تھا، یا اب کسی بھیانک خواب کے حصار میں ہیں۔ بچوں کو اس دور کے حالات بتاتے رہیں تو انہیں ہماری دماغی حالت پر شک ہونے لگتا ہے۔ عام ضرورت کی اس زمانے کی قیمتوں میں اور آج کی قیمتوں میں کوئی نسبت ہی نہیں، کوئی جوڑ ہی نہیں، مگر جب ماہرین معیشت کے سامنے ذکر کرتے ہیں تو وہ آسان سا جواب دے دیتے ہیں کہ قیمتیں بڑھی ہیں تو آمدنی میں بھی تو اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ جواب درست نہیں ہے، بلکہ تنخواہ دار طبقہ اور محدود آمدنی رکھنے والے حضرات کے حوالے سے تو بالکل ہی غلط ہے۔ مزدور طبقہ اور تنخواہ دار لوگوں کی مزدوری اور تنخواہوں میں اس دوران جو اضافہ ہوا ہے وہ اس اضافے کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہے جو قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ہمارے سامنے ہے۔

میں ایک دوست کو جانتا ہوں جن کی تقرری ایک ادارے میں ۱۹۷۰ء میں ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر ہوئی۔ اس دور میں سونے کی قیمت ایک سو ستر روپے فی تولہ کے لگ بھگ تھی۔ اب وہ صاحب اسی ادارے میں اس تنخواہ کی ترقی یافتہ شکل ساڑھے پانچ ہزار روپے ماہوار کی صورت میں وصول کر رہے ہیں۔ آپ بازار سے سونے کا بھاؤ معلوم کر لیں اور فیصلہ کریں کہ ان صاحب کی تنخواہ میں ویلیو کے اعتبار سے اضافہ ہوا ہے یا کمی ہوئی ہے۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ تنخواہوں یا مزدوری میں گنتی کے حساب سے اضافے کے باوجود ویلیو اور قدر کے لحاظ سے مسلسل کمی ہوتی جا رہی ہے، مگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اس سے کئی گنا زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ جس نے عام آدمی اور خاص طور پر تنخواہ دار طبقہ کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا کہ یا تو وہ زندگی سے دستبرداری اختیار کر کے خودکشی اور بچوں کو ذبح کرنے کی راہ اختیار کریں، اور یا پھر کرپشن، رشوت اور بددیانتی کے خوگر ہو کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی کوئی صورت نکالیں۔

یہ سطور لکھتے ہوئے ۱۹۷۰ء کی ایک روایت یاد آ گئی ہے۔ میں اس دور میں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں بطور نائب خطیب خدمات سرانجام دے رہا تھا، جبکہ خطیب ہمارے مرحوم بزرگ حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ تھے۔ ان کے پاس ایک گاڑی تھی، متعدد بار ایسا ہوا کہ میں نے جیب میں دس روپے کی گنجائش محسوس کی تو مفتی صاحب سے گاڑی مانگ لی، دو گیلن پٹرول ڈلوایا اور لاہور آ کر دوستوں سے مل کر اور ایک دو کام نمٹا کر دس روپے میں گوجرانوالہ واپس پہنچ گیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ڈائیو نے لاہور سے گوجرانوالہ تک جو لوکل بس سروس چلائی ہے اس کا کرایہ ساٹھ روپے فی سواری ہے۔

۱۹۷۰ء کا ذکر بار بار اس لیے کر رہا ہوں کہ اس کے بعد پھر اشیائے صرف کی قیمتوں نے ایسی پرواز شروع کی کہ ان کی رفتار میں اب تک کوئی کمی واقع نہیں ہو سکی۔ اور قارئین کو یاد ہو گا کہ ۱۹۷۷ء میں ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تشکیل کے بعد اس کے پہلے سیکرٹری جنرل جناب رفیق احمد باجوہ مرحوم نے ۱۹۷۰ء کی قیمتوں کی واپسی کا نعرہ لگایا تھا جو ناقابلِ عمل ہونے کے باوجود اس نے اس وقت کے سب سے بڑے انتخابی نعرے کی حیثیت اختیار کر لی تھی، اور اس نعرے نے باجوہ صاحب مرحوم کا نام ایک عوامی مقرر کے طور پر عروج تک پہنچا دیا تھا۔

میں ۱۹۷۰ء کی قیمتوں کی واپسی کی بات نہیں کر رہا اور نہ ہی یہ قابلِ عمل بات ہے، کیونکہ اس کا تعلق بین الاقوامی حالات اور عالمی مارکیٹ سے ہے، جس میں ہم یا ہماری حکومت کچھ نہیں کر سکتے۔ لیکن عام آدمی کی قوتِ خرید کو سہارا دینے کی بات تو ہو سکتی ہے، اور عوام دوست حکومتیں یہی کرتی ہیں۔ مہنگائی ترقی یافتہ میں بھی ہے لیکن وہاں کی حکومتیں اپنے شہریوں کی قوتِ خرید کو استحکام کے دائرے میں رکھنے کی سرتوڑ کوشش کرتی ہیں، اور ان کی معاشی پالیسیاں اسی نکتہ کے گرد گھومتی ہیں ۔لیکن یہ بات اس ماحول اور فضا میں نہیں ہو سکتی کہ ملک کا وزیراعظم اپنے عوام کو تو دال سستی ہونے کی خوشخبری دے، مگر قومی اسمبلی اپنے ارکان کے ناشتے کے حلوے میں ریت کے چند ذرے شامل ہو جانے پر بحث کر رہی ہو، اور کوئی جاگیردار ایم این اے مٹی کے برتن میں پانی پی کر خوش ہو جائے کہ اس نے غریب عوام کا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ اس کے لیے

  • طبقاتی کلچر بدلنا ہو گا،
  • دولت اور وسائلِ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم پر نظر ثانی کرنا ہو گی،
  • عام آدمی کی قوتِ خرید میں استحکام لانے کے لیے خوشحال اور مراعات یافتہ طبقے کے حوالے سے خلفائے راشدینؓ اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو آئیڈیل بنانا ہو گا، اور اس وقت صرف انہی کا اسوہ ہمیں معاشی ناہمواری، غربت اور مہنگائی کی اس خوفناک دلدل سے نکال سکتا ہے۔
   
2016ء سے
Flag Counter