لاہور کے ایک قومی روزنامہ نے ۳ اگست ۱۹۹۶ء کو کے پی آئی کے حوالہ سے یہ خبر شائع کی ہے کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری نے تمام ڈپٹی کمشنروں سے دینی مدارس کے بارے میں کوائف طلب کر لیے ہیں۔ خبر کے مطابق ان کوائف کے حصول کے بعد حکومت دینی مدارس کو تحویل میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
عوام کے رضا کارانہ تعاون اور چندے سے چلنے والے دینی مدارس ملک کے ہر علاقے میں موجود ہیں اور یہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان مدارس کا آغاز ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد ہوا تھا، جب مسلمان اس جنگ میں مکمل طور پر شکست کھا گئے اور فرنگی حکمرانوں نے عربی اور فارسی کی بنیاد پر چلنے والا پرانا نظامِ تعلیم یکسر ختم کر دیا تو قرآن و حدیث اور دیگر دینی علوم کی تدریس و تعلیم کو باقی رکھنے کے لیے سرکاری تعاون سے بے نیاز دینی درسگاہوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ سب سے پہلے دیوبند، سہارنپور اور مراد آباد میں مدارس قائم ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے متحدہ ہندوستان (اب پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت) کے طول و عرض میں دینی مدارس کا جال بچھ گیا۔
ان دینی مدارس کا سب سے بنیادی کردار قرآن و حدیث کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا اور مساجد و مدارس میں ائمہ اور دینی اساتذہ کی کھیپ فراہم کرنا تھا اور گزشتہ سوا صدی کے دوران ان مدارس نے اپنا یہ کردار حسن و خوبی کے ساتھ ادا کیا ہے، بلکہ اب بھی قرآن و سنت اور دیگر دینی علوم کی تعلیم و تدریس اور مساجد و مدارس میں خطباء، ائمہ اور مدرسین کی فراہمی کا سلسلہ انہی مدارس کے دم قدم سے قائم ہے۔ ان مدارس کی بہت بڑی تعداد سرکاری سرپرستی اور امداد سے بے نیاز بلکہ گریزاں رہی ہے اور اپنے اخراجات عام لوگوں کے صدقات و عطیات سے پورے کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مدارس حکومتی پالیسیوں سے لا تعلق رہتے ہوئے اپنے مقاصد اور اہداف کے دائرے میں محدود رہنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ پاکستان کی مختلف حکومتوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ انہیں مدارس کے تعلیمی نصاب اور مالیاتی نظام میں دخل اندازی کا کوئی راستہ ملے، لیکن مدارس اسے اپنی خودمختاری اور آزادی کے خلاف سمجھتے ہوئے قبول کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوئے۔
دینی مدارس کو یہ خدشہ ہے کہ حکومتی مداخلت اور امداد یا سرپرستی کو قبول کرنے کی صورت میں وہ اپنے آزادانہ کردار سے محروم ہو جائیں گے اور معاشرہ میں دینی علوم کی ترویج و تعلیم کا کام دلجمعی کے ساتھ نہیں کر سکیں گے۔ اس سلسلہ میں دو عملی مثالیں دینی مدارس کے سامنے ہیں جنہوں نے اس خدشہ کو حقیقی خطرے کی شکل دے دی ہے۔
ایک مثال جامعہ عباسیہ بہاولپور کی ہے جو اپنے وقت میں بہت بڑا دینی مدرسہ تھا اور محکمہ تعلیم نے یہ کہہ کر اسے تحویل میں لیا تھا کہ اسے اسلامی یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے گا اور اس میں درس نظامی کے مکمل نصاب کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دی جائے گی۔ جامعہ عباسیہ اسلامی یونیورسٹی تو بن گیا اور کچھ عرصہ تک درس نظامی بھی مروجہ سرکاری نصاب کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، لیکن اب اس کے نصاب سے درس نظامی کا حصہ مکمل طور پر خارج کر دیا گیا ہے اور ملک کی دوسری یونیورسٹیوں کی طرح وہ بھی ایک روایتی یونیورسٹی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
دوسری مثال جامعہ عثمانیہ گول چوک اوکاڑہ کی ہے وہ بھی اپنے وقت میں ملک کے بڑے دینی مدارس میں شمار ہوتا تھا، اسے محکمہ اوقاف نے تحویل میں لے کر سرکاری انتظامات کے تحت چلانے کا اعلان کیا، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ وہاں دینی مدرسے کا کوئی وجود نہیں ہے اور جامعہ عثمانیہ کے کمرے محکمہ اوقاف نے مختلف فرموں اور لوگوں کو کرائے پر دے رکھے ہیں۔ ان تجربات کی روشنی میں دینی مدارس حد درجہ محتاط ہو گئے ہیں اور کسی بھی قسم کی سرکاری مداخلت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔
اس کے ساتھ ہی دینی مدارس کے خلاف عالمی ذرائع ابلاغ کا منفی پراپیگنڈا بھی روز بروز بڑھ رہا ہے۔ مغربی لابیوں کا تجزیہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں اسلامی تحریکات نے جہادِ افغانستان سے حوصلہ اور عزم حاصل کیا ہے اور جہادِ افغانستان کا فکری سرچشمہ پاکستان کے دینی مدارس ہیں۔ اس لیے بنیاد پرستی کی تحریکات کا راستہ روکنے کے لیے پاکستان کے دینی مدارس کے آزادانہ کردار کو محدود کرنا ضروری ہے، جو اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان پر کسی درجہ کا ریاستی کنٹرول قائم ہو جائے۔
ان حالات میں پنجاب کے چیف سیکرٹری کا تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں سے دینی مدارس کے کوائف طلب کرنا اور حکومت کی طرف سے دینی مدارس کو تحویل میں لینے کے عزم کا اظہار کوئی خوش آئند بات نہیں ہے۔ حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مغرب کی نظریاتی اور ثقافتی یلغار کے مقابلہ میں ہمارا آخری نظریاتی حصار یہی دینی مدارس ہیں اور ان مدارس کی قوت کا راز ان کے آزادانہ کردار اور خودمختاری میں ہے۔ ان کے منتظمین یقیناً فرشتے نہیں بلکہ انسان ہیں اور ہمارے معاشرہ کے انسان ہیں جو معاشرہ کی اجتماعی برائیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتے اور ان کی تعلیمی و انتظامی ترجیحات سے مکمل اتفاق بھی ضروری نہیں ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود مغرب کی نظریاتی و ثقافتی یلغار کے مقابلہ میں جنگ بھی وہی لڑ رہے ہیں اور انہی کو دیکھ کر قوم کو حوصلہ ہوتا ہے کہ ہمیں اس جنگ میں شکست نہیں ہوگی۔ اس لیے ہمارے حکمران اگر اس حالت جنگ میں دینی مدارس کو ان کے حال پر رہنے دیں اور سرپرستی اور تعاون کے نام پر ان کی قوت کو کمزور کرنے کی کوشش نہ کریں تو یہ ملک و قوم پر ان کا بہت بڑا احسان ہوگا۔