مذہب ہی خواہشات اور مفادات کا توازن قائم کر سکتا ہے

   
۲۴ اکتوبر ۱۹۹۶ء

کابل پر طالبان کی حکومت کے قیام اور ان کی طرف سے افغانستان میں مکمل شرعی نظام کے نفاذ کے اعلان کے بعد اسلامی شریعت ایک بار پھر موضوعِ بحث بن گئی ہے اور عالمی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ علم و دانش کی محفلوں میں بھی شرعی قوانین کے مختلف پہلوؤں کا ذکر پہلے سے زیادہ ہونے لگا ہے، دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کو طالبان کی اس کامیابی سے حوصلہ ملا ہے اور وہ شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ و غلبہ کی جدوجہد میں نئے جذبہ و ولولہ کے ساتھ پیشرفت کر رہی ہیں۔

اس مرحلہ پر ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ نفاذِ شریعت کی اس عالم گیر جدوجہد کے پس منظر اور اہداف پر ایک نظر ڈال لی جائے تاکہ وہ خالی الذہن حضرات بھی شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ و غلبہ کی اہمیت کو محسوس کر سکیں جو ان تحریکات سے ذہنی قرب نہیں رکھتے یا روابط نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اغراض و اہداف سے بے خبر ہیں۔

شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ سے مراد یہ ہے کہ ایک مسلمان سوسائٹی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام معاملات ان ہدایات و احکام کے مطابق طے پائیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صورت میں نازل فرمائے ہیں اور جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث و سنت کی صورت میں ان کی وضاحت فرمائی ہے۔ اس لیے ایک مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے دستور، قوانین اور قومی زندگی کے تمام شعبوں کے نظم و نسق کو آسمانی ہدایات کا پابند بنائے اور حکمران خود بھی ان کی پابندی قبول کریں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ملک کا دستور، قوانین، عدالتی نظام، انتظامی فریم ورک، معاشی ڈھانچہ، معاشرتی نظام اور بین الاقوامی تعلقات تمام کے تمام قرآن و سنت کی روشنی میں طے کرنے ضروری ہوں گے۔ خلفاء راشدینؓ کا طرزِ حکومت ان معاملات میں مشعلِ راہ ہو گا۔ ایسا کرنا کیوں ضروری ہے؟ اس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر اس موقع پر تین امور کی طرف توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے:

  1. ایک یہ کہ ہم بحیثیت مسلمان دینی طور پر اس بات کے پابند ہیں کہ زندگی کے تمام معاملات میں قرآن و سنت کی رہنمائی قبول کریں۔ کیونکہ اسلام محض ایک مذہب نہیں جو صرف عقائد، عبادات اور اخلاقیات میں رہنمائی کرتا ہو، بلکہ ایک مکمل دین اور ضابطۂ حیات ہے جو انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر معاملہ میں واضح رہنمائی کرتا ہے اور قرآن و سنت کے بیان کرده احکام و ہدایات کا کوئی حصہ اختیاری مضمون کی حیثیت نہیں رکھتا کہ ہم اسے قبول کرنے یا نہ کرنے میں اپنی مرضی استعمال کر سکیں، بلکہ جس طرح توحید، نماز اور روزہ جیسے معاملات میں قرآن و سنت کے احکام لازمی ہیں، اسی طرح حکومت، عدل و انصاف، سود، زکوٰۃ اور غیر مسلم اقوام سے تعلقات کے تعین جیسے امور میں بھی قرآن و سنت کی ہدایات لازمی احکام کا درجہ رکھتی ہیں اور ہم زندگی کے کسی بھی معاملہ میں قرآن و سنت کے احکام سے روگردانی کر کے اپنے مسلمان ہونے کے ناگزیر تقاضے پورے نہیں کر سکتے۔ بلکہ اگر یہ روگردانی عملی کوتاہی سے بڑھ کر فکری اور اعتقادی دائرہ میں داخل ہو جائے تو صریح کفر اور ارتداد بن جاتی ہے، جس کے بعد مسلمان کہلانے کا حق بھی باقی نہیں رہ جاتا۔
  2. دوسری وجہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر کے مسلم ممالک میں جو نظام ہائے حکومت اور قوانین ہیں ایک آدھ کی جزوی استثنا کے ساتھ وہ سب کے سب کافرانہ نظام ہیں جو گزشتہ دو سو برس کے دوران ان ممالک پر استعماری قوتوں کے غلبہ و تسلط کے موقع پر نافذ کئے گئے تھے اور بظاہر آزادی حاصل کرنے کے باوجود وہ نظام ابھی تک ان ممالک میں نافذ ہیں۔ یہ نظامِ حکومت مسلم ممالک میں نوآبادیاتی مقاصد کے لیے مسلط کیے گئے تھے اور آج بھی ان نظاموں کے ذریعہ یہ مسلم ممالک عملاً استعماری قوتوں کے لیے نوآبادیات ہی کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں ”ریموٹ کنٹرول “ کے ذریعہ عالمی استعمار نے قابو میں رکھا ہوا ہے۔ ان مسلم ممالک کی داخلی پریشانیوں اور بین الاقوامی ایجنسیوں کی بنیادی وجہ یہی نوآبادیاتی نظام ہیں اور ان نظاموں کے خاتمہ کے بغیر مسلم ممالک امن و سلامتی اور ترقی و استحکام کی منزل کسی صورت میں طے نہیں کر سکتے۔ ان نظاموں کے خلاف ہر ملک کے عوام میں نفرت موجود ہے اور وہ انہیں تبدیل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ اس سمت میں ان کی راہنمائی کی ضرورت ہے کہ نوآبادیاتی نظاموں کے خاتمہ کے بعد ان کی جگہ وہی نظام ان کے لیے سودمند ہے جو ان کے عقائد و نظریات اور صدیوں سے چلی آنے والی معاشرتی اقدار و روایات سے مطابقت رکھتا ہے اور یہ شریعتِ اسلامیہ کا نظام ہے۔
  3. تیسری وجہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں جتنے بھی نظام ہائے حیات عملاً رائج ہیں وہ اس لحاظ سے ناکام ہو چکے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کو امن و سلامتی اور ذہنی سکون فراہم کرنا ان کے بس میں نہیں رہا۔ جو ممالک ترقی یافتہ کہلاتے ہیں وہاں جرائم، اخلاقی بے راہ روی اور معاشرتی بے سکونی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ خاندانی زندگی، معاشرتی سکون اور جان و مال کا تحفظ دن بدن درماندگی کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور معاشی تفاوت نے تو انسانی معاشرہ کو بھوک، افلاس اور جہالت کی آخری سرحدوں تک پہنچا دیا ہے۔ جمہوریت، بادشاہت، سیکولرازم، کمیونزم اور سوشلزم سمیت تمام مروجہ نظاموں کی بنیاد مذہب کی قید سے آزادی پر تھی اور یہ سب کے سب نظام اپنے اوپر مذہب کی بالادستی قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ اب یہ احساس دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کہ مذہب سے آزادی کے نتائج مثبت نہیں نکلے بلکہ منفی ثابت ہوئے ہیں، اس لیے کہ انسانی معاشرہ میں فساد کا آغاز خواہشات اور مفادات کے ٹکراؤ سے ہوتا ہے اور جب تک خواہشات کو کسی دائرے کا پابند نہ بنایا جائے اور مفادات میں ایک معقول توازن قائم نہ کر دیا جائے فساد، بد امنی ، جنگ و جدل، جرائم اور باہمی کشمکش کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں۔

    تاریخی عمل کے تجربات نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ خواہشات پر کنٹرول اور مفادات میں توازن قائم کرنا مذہب کے سوا اور کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔ دو سو برس قبل انسانی سوسائٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم اپنی اجتماعی عقل کے ذریعہ خواہشات اور مفادات کے گرد مضبوط حصار قائم کر لیں گے، لیکن یہ تجربہ ناکام ہو گیا اور یہ بات طے ہو گئی ہے کہ عقل انفرادی ہو یا اجتماعی، اس کا کام بالادست قوت کا ساتھ دینے اور اس کے اقدامات کا جواز فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس لیے انسانی سوسائٹی اب مذہب کی طرف واپسی کی ضرورت محسوس کر رہی ہے اور اسی وجہ سے اکیسویں صدی کو مذہب کی صدی کہا جا رہا ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں اس وقت جتنے مذاہب بھی موجود ہیں، اسلام کے سوا کسی مذہب کے پاس آسمانی وحی اور اپنے پیغمبر کی تعلیمات محفوظ حالت میں موجود نہیں ہیں۔ یہ صرف قرآن کریم اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت ہے جو تاریخ کے ریکارڈ میں اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ محفوظ ہے اور انسانی معاشرہ کی قیادت و رہنمائی کے لیے ہر وقت مہیا ہے۔ اس لیے شرعی نظام کا نفاذ اور ایک اسلامی نظریاتی حکومت کا قیام صرف عالمِ اسلام کی نہیں بلکہ پوری دنیائے انسانیت کی اجتماعی ضرورت ہے، کیونکہ موجودہ نظاموں کی ناکامی کے بعد دنیائے انسانیت کو جس عادلانہ نظام کی ضرورت ہے وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ اور یہ بات ناگزیر ہو گئی ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں ایک نظریاتی اسلامی حکومت کے ذریعے مکمل شرعی نظام نافذ ہو، تاکہ انسانی معاشرہ خود ساختہ نظاموں کے تلخ تجربہ کے بعد آسمانی تعلیمات کی برکات کا بھی نظارہ کر سکے۔ کیا بعید ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز سے قبل افغانستان میں بوریا نشین علماء اور طلبہ کے ہاتھوں ایک اسلامی حکومت کا قیام اللہ تعالیٰ کے اس تکوینی فیصلے کی پہلی کڑی ہو۔

   
2016ء سے
Flag Counter