سود کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بینچ میں دوبارہ بحث شروع ہونے والی ہے جو ان سطور کی اشاعت تک خاصی آگے بڑھ چکی ہو گی۔ سود اسلامی شریعت میں حرام ہے اور قرآن کریم نے سودی کاروبار پر اصرار کو اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ اسی وجہ سے قیامِ پاکستان کے بعد سے دینی حلقوں کا مسلسل یہ اصرار اور مطالبہ رہا ہے کہ ملک کے معاشی نظام کو سود سے پاک کیا جائے اور وہ تمام قوانین منسوخ کیے جائیں جو قومی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں سود کو تحفظ فراہم کرتے ہوں۔ مگر ہماری حکومتیں ہمیشہ یہ کہتی رہی ہیں کہ
- بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے ساتھ سود کے بغیر مالی معاملات کو چلانا تو سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔
- پاکستان کے اندرونی نظام میں بھی سود کے بغیر تجارت و معیشت کے مروجہ نظام کو برقرار رکھنا مشکل ہے، اور جب تک کوئی متبادل نظام جس میں سود کے بغیر بینکاری وغیرہ کو چلانا قابلِ عمل ہو سامنے نہ آ جائے اس وقت تک سودی قوانین کو ختم کرنے کا مطلب ایک ایسا خلا پیدا کرنا ہو گا جس سے ملکی معیشت بالکل تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ اس لیے سودی قوانین کے خاتمہ سے پہلے معیشت و بینکاری کے غیر سودی سسٹم کی تشکیل ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جب وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی اور اسے یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ملک کے کسی بھی قانون کو قرآن و سنت کے منافی سمجھے تو اسے ختم کرنے کے لیے حکومت کو ہدایات جاری کر سکتی ہے، تو اس وقت مالیاتی قوانین کو دس سال کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا، تاکہ اس کا کوئی فیصلہ معاشی شعبہ میں کسی بحران کا باعث نہ بن جائے اور اس دوران غیر سودی بینکاری کا کوئی قابل عمل نظام تجویز کر لیا جائے۔
چنانچہ غیر سودی بینکاری کے نظام کی تیاری کا کام شروع کر دیا گیا اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ محنت اسلامی نظریاتی کونسل نے کی، جس نے جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن کی سربراہی میں بلاسود بینکاری پر ایک جامع رپورٹ مرتب کر کے پیش کر دی، جس کی بنیاد پر ۱۹۸۴ء میں اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ جناب غلام اسحاق خان نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ اعلان کیا کہ بلاسود بینکاری کا سسٹم طے کر لیا گیا ہے جو جامع اور قابلِ عمل ہے، اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے قوم کو یہ خوشخبری دی کہ اگلے سال کا پاکستان کا بجٹ مکمل طور پر غیر سودی ہو گا۔ مگر عملاً ایسا نہ ہو سکا اور سودی قوانین بدستور ملک میں نافذ العمل رہے۔
اس کے بعد جب وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے مالیاتی قوانین کی استثنا کی دس سالہ مدت ختم ہوئی تو ملک کے بہت سے حلقوں نے سودی قوانین کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر دیا، اس وقت وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن تھے، جو اس سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے کونسل کی طرف سے بلا سود بینکاری کی جامع رپورٹ پیش کر چکے تھے۔ اس لیے وفاقی شرعی عدالت نے کیس کی تفصیلی سماعت کے بعد ملک میں رائج تمام سودی قوانین کو غیر آئینی قرار دے دیا اور حکومت کو نوٹس دے دیا کہ وہ ایک مقررہ تاریخ تک متبادل قوانین نافذ کر دے، ورنہ یہ سارے سودی قوانین خودبخود ختم ہو جائیں گے۔
بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ملک بھر کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی مذکورہ بالا رپورٹ کا خلاصہ اور وفاقی شرعی عدالت کا مذکورہ فیصلہ کراچی کے صدیقی ٹرسٹ نے الگ الگ کتابچوں کی صورت میں اردو زبان میں شائع کر دیا ہے اور تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام، اساتذہ، وکلاء، ماہرینِ معیشت اور دینی جماعتوں کے کارکنوں سے گزارش ہے کہ وہ ان دونوں کتابچوں کا ضرور مطالعہ کریں۔
وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلہ کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جس پر اسے حکمِ امتناعی مل گیا، اس کی وجہ سے سودی قوانین ابھی تک جاری و ساری ہیں۔ اور حکومت سے دینی جماعتوں کا یہ پیہم مطالبہ چلا آ رہا ہے کہ وہ سود کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کردہ رٹ واپس لے۔ کچھ عرصہ پہلے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے یہ رٹ واپس لینے کی درخواست دائر کر دی، مگر اس کے ساتھ ہی وفاقی شرعی عدالت میں بھی سابقہ فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست دے دی جس میں سود کی بعض صورتوں کو حکم سے مستثنیٰ قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ مگر سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بینچ نے جسٹس خلیل الرحمٰن خان کی سربراہی میں حکومت کی یہ درخواست واپس کرنے سے انکار کر دیا اور اس کی باقاعدہ سماعت شروع کر دی، جس کا دوسرا مرحلہ تین مئی کو شروع ہونے والا ہے۔
اس دوران سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بینچ کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمٰن خان کو قائم مقام وفاقی محتسب اعلیٰ مقرر کیا جا چکا ہے اور انہوں نے نئے عہدہ کا چارج لے لیا ہے، اس لیے یہ ابہام پیدا ہو گیا ہے کہ وہ شریعت اپلیٹ بینچ میں بیٹھ سکیں گے یا نہیں؟ اور اگر نہیں بیٹھیں گے تو ان کی جگہ بینچ کا نیا سربراہ کون ہو گا؟ تاہم اس مضمون میں اس سلسلہ کی اشاعت تک یہ صورتحال واضح ہو چکی ہو گی۔
اس پس منظر میں پاکستان شریعت کونسل نے پچیس اپریل کو جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں سود کے بارے میں تازہ ترین صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے سیمینار منعقد کیا اور اس میں مختلف علماء کرام اور اہل دانش نے خیالات کا اظہار کیا۔ سیمینار اس لحاظ سے بھی خوش آئند تھا کہ اس میں جمعیت علماء اسلام کے دونوں دھڑوں اور پاکستان شریعت کونسل کے سرکردہ حضرات نے شرکت کی، گویا پرانی متحدہ جمعیت علماء اسلام کے بہت سے دوست ایک تقریب میں اکٹھے نظر آئے جس پر کچھ احباب نے بہت مسرت کا اظہار کیا۔
جامعہ انوار القرآن میں منعقد ہونے والے اس سیمینار اور دوسرے روز جامع مسجد توحید گلشن جدید کراچی میں منعقد ہونے والے پاکستان شریعت کونسل کے جلسۂ عام میں جو حضرات شریک و مخاطب ہوئے ان میں مولانا فداء الرحمٰن درخواستی، سابق سینیٹر حافظ حسین احمد، مولانا محمد اسعد تھانوی، مولانا اکرام الحق خیری، مولانا عبدالرشید انصاری ، خواجہ مشرف الاسلام ایڈووکیٹ ، مولانا عبدالمتین قریشی، مولانا احسان اللہ ہزاروی، مولانا حافظ اقبال اللہ، مولانا قاری شیر افضل، مولانا سیف الرحمن آرائیں اور مولانا قاری عبدالکریم عابد بطور خاص قابلِ ذکر ہیں، جبکہ راقم الحروف نے بھی ان اجتماعات میں کچھ معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔
سود کے حوالہ سے مختلف حضرات نے بہت سے امور پر روشنی ڈالی اور شرکاء کو اس سلسلہ میں جدوجہد کی مرحلہ وار پیشرفت سے آگاہ کیا مگر اس موقع پر حافظ حسین احمد کی دو باتوں کا خصوصی طور پر ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔
- ایک یہ کہ سود صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کا مسئلہ ہے، بالخصوص خلیج میں امریکی فوجوں کی موجودگی اور عربوں کی دولت کے وحشیانہ استحصال کے پیچھے بھی سود خور یہودی لابی کار فرما ہے۔ اس لیے عالمی سطح پر یہ سوچ بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلم حکومتیں متفقہ طور پر سود کے خلاف موقف اختیار کر کے عالمی ساہوکاروں کے شکنجے سے مسلم امت کی گردن چھڑانے کا راستہ اختیار کریں۔
- اور دوسری بات یہ کہ پاکستان کی کوئی حکومت بھی سودی نظام کے خاتمہ میں سنجیدہ نہیں ہو گی، اس لیے اگر ملک سے سودی قوانین کو ختم کرنا ہے تو اس کے لیے عوامی دباؤ منظم کرنا ہو گا اور اس کی صورت یہی ہے کہ عوام کی ذہن سازی کی جائے اور تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور دینی جماعتیں یہ مہم چلائیں کہ اگر حکومت سودی نظام ختم نہیں کرتی تو لوگ بینکوں سے اپنی رقوم واپس لینا شروع کر دیں۔
حافظ صاحب کی تجویز اگرچہ اس قدر آسان نہیں ہے لیکن دباؤ کا راستہ یہی ہے۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ دینی جماعتوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔