تنزانیہ میں پانچ سالہ بچے کا ظہور: معجزہ یا فتنہ؟

   
یکم جون ۲۰۰۱ء

ان دنوں تنزانیہ کے ایک بچے کا تذکرہ اخبارات اور ٹی وی نشریات میں عام طور پر ہو رہا ہے اور بازار میں بچے کی سرگرمیوں پر مبنی سی ڈیز بھی فروخت ہو رہی ہیں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پانچ برس قبل ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا اور ڈیڑھ سال کی عمر میں اس نے قرآن کریم کی سورتیں پڑھنا شروع کر دیں۔ اب پانچ سال کی عمر میں وہ زبانی قرآن کریم پڑھتا ہے، وعظ و خطاب کرتا ہے اور سوالوں کے جوابات دیتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کا بڑا بھائی اسے دیکھ کر مسلمان ہو گیا ہے، جبکہ ان دونوں بھائیوں کو ان کے ماں باپ نے گھر سے نکال دیا ہے اور نائجیریا حکومت نے سرکاری مہمان کے طور پر انہیں اپنی تحویل میں لے لیا ہے جہاں سے اس کی تشہیر اور اس کے حوالے سے مختلف محافل اور پروگراموں کا اہتمام کیا جا رہا ہے، ٹیلی ویژن کے مختلف ادارے اور خاص طور پر کیبل نیٹ ورک کے بعض مراکز اس بچے کو اپنے ناظرین کے سامنے لانے کا بطور خاص اہتمام کر رہے ہیں اور عام لوگوں میں اس کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں پھیل رہی ہیں۔

مجھ سے گوجرانوالہ میں بعض دوستوں نے ایک اجتماع میں سوال کیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ دو دھاری تلوار ہے جو کسی طرف بھی چل سکتی ہے:

  1. اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ قرآن کریم جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ ہے، اس کا اعجاز صحابہ کرامؓ کی طرح ہم بھی اپنے سامنے کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، اور ہمارے بعد بھی قیامت تک مسلمان قرآن کریم کے اعجاز کا مشاہدہ کرتے رہیں گے۔ قرآن کریم کے اعجاز کی بہت سی وجوہ اور صورتیں ہیں جن کا اظہار مختلف مثالوں میں قیامت تک ہوتا رہے گا۔ اس لیے یہ واقعہ بھی حقیقتاً اگر اسی طرح ہے جیسے بیان کیا جا رہا ہے تو یہ قرآن کا اعجاز اور اس کی صداقت کا اظہار ہے جو اللہ تعالیٰ نے نائجیریا کے بچے الشیخ شرف الدین الخلیفہ کی صورت میں کیا، اور ہم اس پر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سر بسجود ہیں۔
  2. لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کے اعجاز کے نام پر مختلف ادوار میں بعض فتنے بھی کھڑے ہوتے رہے ہیں، جن کا مقصد مسلمانوں کو تذبذب اور شکوک میں مبتلا کرنا اور ان کے ایمان کو آزمائش میں ڈالنا ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں محتاط رہنے کی بھی ضرورت ہے۔

خود ہماری زندگی میں اس حوالے سے دو فتنے سامنے آئے جنہوں نے قرآن کریم کے اعجاز کے نام پر سرگرمیوں کا آغاز کیا اور مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کی توجہات حاصل کرنے کے بعد فتنہ گری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ میں ان کا مختصر تذکرہ کرنا چاہوں گا تاکہ قارئین کو اندازہ ہو کہ اس قسم کی باتیں بسا اوقات مسلمانوں کے ایمان کے لیے آزمائش اور ابتلا کا باعث بھی بن جایا کرتی ہیں۔

  1. اب سے کوئی پندرہ برس پہلے کی بات ہے کہ امریکہ میں مصر سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے، جن کا نام خلیفہ رشاد تھا، ریاضی کے کسی قاعدہ کے حوالے سے قرآن کریم کے اعجاز کے ایک نئے پہلو سے لوگوں کو متعارف کرانا شروع کیا، جو انیس کے عدد کی مناسبت سے تھا۔ اور اس نے یہ دعویٰ کیا کہ انیس کے عدد کے حسابی قاعدہ کا اطلاق قرآن کریم کی آیات اور سورتوں پر کیا گیا تو ساری سورتیں اور آیات اس قاعدہ پر یکساں اتریں، جو قرآن کریم کے معجزہ ہونے کی ایک نئی دلیل ہے۔ اس فارمولا کا دنیا بھر میں پرچار کیا گیا، حتیٰ کہ ہمارے ہاں پاکستان میں بھی اس پر مقالات اور کتابیں لکھی گئیں، اور عیسائیت کے خلاف عالمی مسلم مبلغ و داعی الشیخ احمد دیدات نے تو اسے اپنی مہم اور مشن کا مستقل حصہ بنا لیا۔

    لیکن خلیفہ رشاد نے جب دیکھا کہ اس کا اعتماد مسلمانوں کے ایک بڑے حلقہ میں قائم ہو گیا ہے، تو اس نے ایک قدم اور بڑھایا اور کہا کہ قرآن کریم کی آیات اور سورتیں تو انیس کے عدد کے اس فارمولے پر پوری اترتی ہیں، مگر احادیثِ نبویؐ اس فارمولا پر پوری نہیں بیٹھتیں۔ یہ حدیثِ نبویؐ کے بارے میں مسلمانوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش تھی۔ جبکہ اس کے بعد خلیفہ رشاد موصوف نے قرآن کریم کی سورۃ توبہ کی آخری دو آیات کے بارے میں کہا کہ یہ دو آیات بھی انیس کے عدد کے فارمولے کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے (نعوذ باللہ) یہ دو آیات قرآن کریم کی اصلی آیات نہیں بلکہ الحاقی معلوم ہوتی ہیں۔ یہاں تک پہنچنے کے بعد خلیفہ رشاد نے باقاعدہ نبوت کا دعویٰ کر دیا اور کہا کہ اس پر اللہ تعالی کی طرف سے (معاذ اللہ) وحی نازل ہوتی ہے۔ ان صاحب کو ۱۹۹۰ء میں کسی نے سوتے میں خنجر کا وار کر کے جہنم رسید کر دیا، ورنہ یہ امت میں کسی بڑے نئے فتنہ کا بیج ڈالنے میں شاید کامیاب ہو جاتا۔

  2. دوسرا واقعہ اس سے بھی قبل کا ہے۔ انڈونیشیا میں سابق صدر جناب سوہارتو کے اقتدار کا ابتدائی دور تھا جب وہاں زہرہ خوما نامی ایک خاتون کا ظہور ہوا، جس نے دعویٰ کیا کہ اس کے پیٹ میں بچہ ہے جو نماز پڑھتا ہے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور اس کی تلاوت کی آواز سنائی دیتی ہے۔ تنزانیہ کے شرف الدین خلیفہ کی طرح اس عورت کو بھی ذرائع ابلاغ اور میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کے انٹرویو نشر ہونے لگے، اخبارات میں فیچر چھپنے لگے اور اجتماعات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جن میں یہ خاتون لیٹ جاتی، اس کے پیٹ میں حرکت نظر آتی جسے پیٹ کے اندر بچے کی نماز پڑھنے سے تعبیر کیا جاتا اور قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آتی جو قریب کے لوگ اپنے کانوں سے سنتے، حتیٰ کہ ایک اجتماع میں انڈونیشیا کے صدر سوہارتو نے بھی اس کا مشاہدہ کیا اور قرآن کریم کی تلاوت سنی۔

    ان واقعات کی عالمی سطح پر شہرت ہونے لگی مگر چند ماہ کے بعد یہ ڈرامہ یوں فلاپ ہو گیا کہ میڈیکل چیک اپ سے معلوم ہوا کہ زہرہ خوما کے پیٹ میں کوئی بچہ وچہ نہیں ہے، ہوا ہے جو حرکت کرتی ہے، اور آپریشن کے ذریعے پیٹ میں چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر نصب کیا ہوا ہے، جس سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آتی ہے۔

اس لیے نائجیریا کے الشیخ شرف الدین الخلیفہ کے بارے میں مسلمانوں کو جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ اگر درست واقعہ ہے تو قرآن کریم کا اعجاز ہے، لیکن دوسری طرف کسی ایسے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کسی خاص مشن کے لیے اسے تیار کیا گیا ہو۔ سائنس کے عروج کا دور ہے، جسم کے کسی بھی حصہ میں کوئی بھی آلہ فٹ ہو سکتا ہے اور ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اس سے کوئی بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ مسلمان بھائیوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ احتیاط سے کام لیں، اس واقعہ پر خوشی کا اظہار ضرور کریں، لیکن کسی دوسرے پہلو کے امکان کو بھی سامنے رکھیں تاکہ کل کسی نئے فتنہ کا شکار نہ ہو جائیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter