معاشرتی جرائم کی شرعی سزائیں اور بائیبل

   
۱۲ اگست ۲۰۰۱ء

پروفیسر گلزار وفا چوہدری کے حوالے سے گزشتہ کالم میں ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ شریعت کے احکام کی خلاف ورزی پر دنیا اور آخرت دونوں جگہ میں سزا اور عذاب کی جو بات مسلم علماء اور فقہاء کرتے ہیں وہ ان کی خود ساختہ نہیں ہے، بلکہ ان کی بنیاد ’’آسمانی تعلیمات‘‘ اور ’’پاک نوشتوں‘‘ پر ہے، جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے معصوم پیغمبروں کے ذریعے احکامِ شریعت کی نافرمانی پر اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے ڈرایا ہے۔

اس پر ایک سوال ذہن میں آ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو نافرمان بندوں کو خود سزا دینے کی بات کر رہے ہیں جیسا کہ بائیبل کی کتاب ’’احبار‘‘ کے باب نمبر ۲۶ کی ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے جو ہم نے پیش کی ہیں۔ اس سے بندوں کو یہ اختیار کیسے حاصل ہو گیا ہے کہ وہ شریعت کے احکام و قوانین کی خلاف ورزی پر دوسروں کو سزا دیں؟ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے یہ عرض کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ ’’کتاب مقدس‘‘ یعنی بائیبل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک پیغمبروں اور انسانی سوسائٹی کے حکمرانوں کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ اپنے ماحول میں شریعت کے قوانین و احکام کی عملداری کا اہتمام کریں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو جرم کے مطابق سزا دیں۔ اس پر بائیبل سے ہی کچھ حوالہ جات پیش کیے جا رہے ہیں۔

ارتداد کی سزا

’’استثناء‘‘ باب نمبر ۱۳ آیت ۲ تا ۱۱ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ

’’جو شخص لوگوں کو بت پرستی اور شرک پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے اس کو سنگسار کر دیا جائے اور اس پر قطعاً ترس نہ کھایا جائے اور نہ ہی اس کے جرم کو چھپایا جائے۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دینِ اسلام چھوڑ کر مرتد ہو جانے پر قتل کی سزا صرف اسلام میں نہیں، بلکہ پہلی شریعتوں میں بھی ارتداد کی سزا یہی تھی۔

قذف اور زنا کی سزا

’’استثناء‘‘ باب نمبر ۲۱ میں درج ہے کہ

’’اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے تو اس سے پنچائیت میں ثبوت طلب کیا جائے۔ اگر وہ ثبوت مہیا کر دے تو اس کی بدکار بیوی کو اس کے باپ کے دروازے پر لا کر شہر کے لوگ سنگسار کر دیں۔ اور اگر خاوند ثبوت مہیا نہ کر سکے تو اسے جھوٹی تہمت لگانے کے جرم میں کوڑے مارے جائیں۔ اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو دونوں کو قتل کر دیا جائے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی منگیتر سے بدکاری کا مرتکب ہو تو دونوں کو شہر کے پھاٹک پر لا کر سنگسار کر دیا جائے۔ اگر کوئی شخص کسی لڑکی سے جبراً بدکاری کرے تو جبر کرنے والے مرد کو مار ڈالا جائے اور مجبور لڑکی کو کچھ نہ کہا جائے۔‘‘

اس سے واضح ہے کہ اسلامی شریعت میں قذف یعنی بدکاری کی جھوٹی تہمت پر کوڑوں کی سزا اور بدکاری پر سنگسار کرنے کی سزا بھی پہلی شریعتوں کا تسلسل ہے، جس کا ذکر بائیبل میں موجود ہے۔

ہم جنس پرستی کی سزا

’’احبار‘‘ باب نمبر ۲۰ آیت ۱۳ میں ہے کہ

’’اگر کوئی مرد دوسرے مرد سے صحبت کرے یعنی وہ ہم جنس پرستی کا ارتکاب کریں تو ان دونوں نے نہایت مکروہ کام کیا ہے، سو وہ دونوں ضرور جان سے مارے جائیں۔ اس طرح اگر کسی نے سوتیلی ماں، بہو، ساس، بہن، خالہ یا پھوپھی سے بدکاری کی تو ان کی سزا بھی قتل ہے اور جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے والے کی سزا بھی موت ہے۔""

قصاص و دیت کے قوانین

’’خروج‘‘ باب نمبر ۲۱ میں ہے کہ

’’قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے یا خون بہا (دیت) ادا کی جائے۔ کسی شخص کو اغواء کرنے والے کو بھی مار ڈالا جائے۔ اگر کسی کے مارنے سے حاملہ عورت کا حمل گر جائے تو اس کے شوہر کی مرضی کے مطابق جرمانہ ادا کیا جائے۔‘‘

قصاص کا عمومی قانون اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ

’’جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت، ہاتھ کے بدلے ہاتھ، پاؤں کے بدلے پاؤں، جلانے کے بدلے جلانا، زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ۔‘‘ (آیت ۲۳ تا ۲۵)

اس کے علاوہ ’’گنتی‘‘ باب ۳۵ میں ہے کہ

’’کسی کو قتل کرنے والے خونی کو ضرور مارا جائے اور خون کا انتقام لینے والا خونی کو آپ ہی قتل کرے۔‘‘

یعنی مقتول کے وارثوں کو حق حاصل ہے کہ اگر وہ قاتل کو قصاص میں قتل کرنا چاہیں تو انہیں اس کا موقع دیا جائے اور اسلام کا قانون بھی یہی ہے۔

سبت کے دن کی بے حرمتی کی سزا

موسوی شریعت میں ہفتہ کا دن مقدس تھا اور اس دن عبادت کے سوا اور کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں تھی، اور اس حکم کی خلاف ورزی پر موت کی سزا دی جاتی تھی۔ اس پر بائیبل کی کتاب ’’گنتی‘‘ باب نمبر ۱۵ میں ایک واقعہ یوں درج ہے کہ

’’اور جب بنی اسرائیل بیابان میں رہتے تھے، ان دنوں ایک آدمی ان کو سبت کے دن لکڑیاں جمع کرتا ہوا ملا۔ وہ اسے موسیٰ اور ہارون اور ساری جماعت کے پاس لے گئے۔ انہوں نے اسے حوالات میں رکھا کیونکہ ان کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔ تب خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ یہ شخص ضرور جان سے مارا جائے۔ ساری جماعت لشکر گاہ کے باہر اسے سنگسار کرے۔ چنانچہ جیسا خداوند نے موسیٰ کو حکم دیا تھا اس کے مطابق ساری جماعت نے اسے لشکر گاہ کے باہر لے جا کر سنگسار کیا اور وہ مر گیا۔‘‘ (آیت 32 تا 35)

اس سے واضح ہوتا ہے کہ مذہب اور مذہبی شعائر کی توہین پر اسلام نے موت کی جو سزا تجویز کی ہے اس کا اصل ماخذ بھی ’’کتاب مقدس‘‘ ہے جس کی شہادت بائیبل آج بھی دے رہی ہے۔

اس طرح ’’گنتی‘‘ باب نمبر ۱۵ آیت ۲۹ تا ۳۱ میں ہے کہ

’’جو شخص سہواً گناہ کرے اسے تو اس کے مطابق سزا دی جائے، لیکن جو شخص بے باک ہو کر گناہ کرے خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی، وہ خداوند کی اہانت کرتا ہے وہ شخص اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے گا کیونکہ اس نے خداوند کے کلام کی نافرمانی کی اور اس کے حکم کو توڑ ڈالا۔ وہ شخص بالکل کاٹ ڈالا جائے گا، اس کا گناہ اسی کے سر لگے گا۔‘‘

اس کے علاوہ ’’احبار‘‘ باب نمبر ۲۵ آیت ۱۰ تا ۱۸ میں واقعہ درج ہے کہ

’’ایک جھگڑے میں کسی شخص نے اللہ تعالیٰ کے پاک نام پر کفر بکا، یعنی اللہ تعالیٰ کی توہین کی تو حضرت موسیٰ نے اسے گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آنے پر اسے سنگسار کیا۔‘‘

ماں باپ کی توہین کی سزا

بائیبل کی کتاب ’’خروج‘‘ باب نمبر ۲۱ آیت ۱۸ میں ہے کہ

’’ماں باپ کی بے حرمتی اور ان پر لعنت کرنے والے کی سزا بھی یہی ہے کہ اسے جان سے مار ڈالا جائے۔‘‘

ان کے علاوہ اور بھی حوالہ جات پیش کیے جا سکتے ہیں۔ یہ چند حوالے بطور نمونہ اس لیے درج ہیں کہ ہمارے مسیحی دوست یہ بات سمجھ لیں کہ اسلام نے معاشرتی جرائم اور مذہبی جرائم کی جو سخت اور سنگین سزائیں مقرر کی ہیں، اور مسلم علماء و فقہاء سوسائٹی میں امن کے لیے جن سزاؤں کی بات کرتے ہیں وہ بائیبل کی شہادت کے مطابق سابقہ شریعتوں کے احکام ہی کا تسلسل ہے۔ البتہ اسلام نے ان میں سے بہت سی سزاؤں کو برقرار رکھا ہے اور بعض میں نرمی کر دی ہے، لیکن سزاؤں کا سخت اور عبرتناک ہونا تمام شریعتوں کا مشترکہ اصول رہا ہے اور آج بھی ’’آسمانی تعلیمات‘‘ اور ’’پاک نوشتوں‘‘ کی ہدایت یہی ہے کہ نسلِ انسانی اگر دنیا میں امن و خوشحالی اور آخرت میں نجات چاہتی ہے تو وہ وحئ الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی پناہ میں آ جائے۔ اس کے بغیر آخرت کی نجات تو ممکن ہی نہیں اور دنیا کا امن اور خوشحالی بھی نسلِ انسانی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔

   
2016ء سے
Flag Counter