اٹھارہویں صدی عیسوی میں جب برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں صدیوں سے چلے آنے والے مسلم اقتدار کو شدید بیرونی و اندرونی خطرات سے سابقہ درپیش تھا، اور جہاں ایک طرف سات سمندر پار سے آنے والے برطانوی، فرانسیسی اور پرتگیزی استعماری گروہ اس خطہ پر تجارت کے عنوان سے تسلط جمانے کے لیے مسلسل پیش قدمی کر رہے تھے، وہاں جنوبی ہند کے مرہٹوں نے قوت پکڑ کر دہلی کی مسلم مغل حکومت کے لیے حقیقی خطرات کھڑے کر دیے تھے۔ جبکہ مسلمان حکمران، نواب، امراء اور دیگر بااثر طبقات اقتدار کی باہمی کشمکش اور عیش پرستی میں الجھے ہوئے ہر محاذ پر پسپائی اختیار کرتے جا رہے تھے۔
عام مسلمان اور دیندار حلقے اس صورتحال پر سخت پریشان اور مضطرب تھے اور انہیں اصلاحِ احوال کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس ماحول میں اہلِ حق کے سرخیل حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ نے قافلۂ حق کی ترجمانی کرتے ہوئے ملت کی راہنمائی اور ترجمانی کی ذمہ داری سنبھالی اور فکری و عملی محاذ پر جو کچھ ان کے بس میں تھا کر گزرے۔ اس موقع پر انہوں نے دیگر عملی مساعی کے ساتھ ساتھ ملت کے مختلف طبقات سے مخاطب ہو کر ان طبقات میں پیدا ہو جانے والی خرابیوں کی نشاندہی کی اور انہیں اصلاح کی دعوت دی۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ کی پانچویں جلد میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے ان خطابات کے اہم حصے کم و بیش بیس صفحات میں نقل کیے ہیں۔ ان میں سے چند اہم اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں۔
حکمرانوں سے خطاب
اے بادشاہو! ملا اعلیٰ کی مرضی اس زمانہ میں اس امر پر مستقر ہو چکی ہے کہ تم تلواریں کھینچ لو اور اس وقت تک نیام میں داخل نہ کرو جب تک مسلم مشرک سے بالکلیہ جدا نہ ہو جائے، اور اہلِ فسق و کفر کے سرکش لیڈر کمزوروں کے گروہوں میں جا کر شامل نہ ہو جائیں، اور یہ کہ ان کے قابو میں پھر کوئی ایسی بات نہ رہ جائے جس کی بدولت وہ آئندہ سر اٹھا سکیں۔ پھر جب کفر و اسلام کے درمیان ایسا کھلا نمایاں امتیاز پیدا ہو جائے تب تمہیں چاہیے کہ ہر تین دن یا چار دن کے سفر کی منزلوں پر اپنا ایک ایک حاکم مقرر کرو۔ ایسا حاکم جو عدل و انصاف کا مجسم ہو، قوی ہو، جو ظالم سے مظلوم کا حق وصول کر سکتا ہو اور خدا کی حدود کو قائم کر سکتا ہو، اس میں سرگرم ہو کر پھر لوگوں میں بغاوت و سرکشی کے جذبات پیدا نہ ہوں، نہ وہ جنگ پر آمادہ ہوں اور نہ دین سے مرتد ہونے کی کسی میں جرأت باقی رہے، نہ کسی گناہ کبیرہ کے ارتکاب کی کسی کو مجال ہو، اسلام کا کھلے بندوں اعلان ہو اور اس کے شعائر کا اعلانیہ اظہار کیا جائے، ہر شخص اپنے متعلقہ فرائض کو صحیح طور پر ادا کرے، چاہیے کہ ہر شہر کا حاکم اپنے پاس اتنی قوت رکھے جس کے ذریعہ اپنی متعلقہ آبادی کی اصلاح کر سکتا ہو۔
امراء و ارکان دولت سے خطاب
اے امیرو! دیکھو کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے؟ دنیا کی فانی لذتوں میں تم ڈوبے جا رہے ہو اور جن لوگوں کی نگرانی تمہارے سپرد ہوتی ہے ان کو تم نے چھوڑ دیا ہے، تاکہ ان میں بعض بعض کو کھاتے اور نگلتے رہیں۔ کیا تم اعلانیہ شرابیں نہیں پیتے؟ اور پھر اپنے اس فعل کو تم برا بھی نہیں سمجھتے۔ تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ بہت سے لوگوں نے اونچے اونچے محل اس لیے کھڑے کیے ہیں کہ ان میں زنا کاری کی جائے، شرابیں ڈھالی جائیں اور جوا کھیلا جائے، لیکن تم اس میں دخل نہیں دیتے اور اس حال کو نہیں بدلتے۔ کیا حال ہے ان بڑے بڑے شہروں کا جن میں چھ سو سال سے کسی پر حد شرعی جاری نہیں ہوئی؟ جب کوئی کمزور مل جاتا ہے تو اس کو پکڑ لیتے ہو اور جب قوی ہوتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو، تمہاری ساری ذہنی قوتیں اس پر صرف ہو رہی ہیں کہ لذیذ کھانوں کی قسمیں پکواتے رہو اور نرم و گداز جسموں والی عورتوں سے لطف اٹھاتے رہو، اچھے کپڑوں اور اونچے مکانات کے سوا تمہاری توجہ کسی اور طرف منعطف نہیں ہوتی۔ کیا تم نے اپنے سر کبھی اللہ کے سامنے جھکائے؟ خدا کا نام تمہارے پاس صرف اس لیے رہ گیا ہے کہ اپنے تذکروں اور قصے کہانیوں میں اس نام کو استعمال کرو۔
فوجی افسروں سے خطاب
اے فوجیو اور عسکریو! تمہیں خدا نے جہاد کے لیے پیدا فرمایا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اللہ کی بات اونچی ہو گی اور خدا کا کلمہ بلند ہو گا اور شرک اور اس کی جڑوں کو تم دنیا سے نکال پھینکو گے، لیکن جس کام کے لیے تم پیدا کیے گئے تھے اسے تم چھوڑ بیٹھے ہو۔ اب تم گھوڑے پالتے ہو، ہتھیار جمع کرتے ہو، اس کا مقصد صرف یہ رہ گیا ہے کہ محض اس سے اپنی دولت میں اضافہ کرو۔ جہاد کی نیت سے تم بالکل خالی الذہن رہتے ہو، تم شرابیں پیتے ہو، بھنگ کے پیالے چڑھاتے ہو، داڑھیاں منڈواتے ہو اور مونچھیں بڑھاتے ہو، عام لوگوں پر زیادتیاں اور ظلم کرتے ہو، حالانکہ جو کچھ ان کا لے کر کھاتے ہو اس کی قیمت ان تک نہیں پہنچتی۔ خدا کی قسم! تم عنقریب اللہ کی طرف واپس جاؤ گے، پھر وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ تمہارے ساتھ خدا کی یہ مرضی ہے کہ اچھے پارسا اور صالحین غازیوں کا لباس اور ان کی وضع اختیار کرو، چاہیے کہ داڑھیاں بڑھاؤ، مونچھیں کٹواؤ، پنج وقتہ نماز ادا کیا کرو، عام لوگوں کے مال سے بچتے رہو اور جنگ اور مقابلہ کے میدان میں ڈٹے رہو۔
اہل صنعت و حرفت سے خطاب
اے ارباب حرفت و پیشہ! امانت کا جذبہ تم سے مفقود ہو گیا ہے، تم اپنے رب کی عبادت سے بالکل خالی الذہن ہو چکے ہو۔۔۔ یہ لوگ خاص قسم کا لباس اور جامہ اختیار کرتے ہیں، خاص طرح کے کھانے کھاتے ہیں، جن کی آمدنی کم ہوتی ہے۔ وہ اپنی عورتوں اور بچوں کے حقوق کی پرواہ نہیں کرتے۔ تم میں سے بعض صرف شراب نوشی کو پیشہ بنائے ہوئے ہیں اور تم ہی میں کچھ لوگ عورتوں کو کرایہ پر چلا کر پیٹ پالتے ہیں۔۔۔۔ دیکھو! اپنی صبح و شام کو تم خدا کی یاد میں بسر کیا کرو اور رات کو اپنی عورتوں کے ساتھ گزارو، اپنے خرچ کو اپنی آمدنی سے ہمیشہ کم رکھا کرو، پھر جو بچ جایا کرے اس سے مسافروں کی، مسکینوں کی مدد کیا کرو اور کچھ اپنے اتفاقی مصائب اور ضرورتوں کے لیے پس ماندہ بھی کیا کرو۔
پیرزادوں سے خطاب
اے وہ لوگو جو اپنے آباؤ اجداد کے رسوم کو بغیر کسی حق کے پکڑے ہوئے ہو یعنی گزشتہ بزرگان دین کی اولاد میں ہو! میرا آپ سے سوال ہے کہ آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ ٹکڑیوں ٹکڑیوں، ٹولیوں ٹولیوں میں آپ بٹ گئے، ہر ایک اپنے اپنے راگ اپنی اپنی منڈلی میں الاپ رہا ہے اور جس طریقہ کو اللہ نے اپنے رسول محمدؐ کے ذریعہ نازل فرمایا تھا اور محض اپنے لطف و کرم سے جس راہ کی طرف راہنمائی فرمائی تھی اسے چھوڑ کر ہر ایک تم میں ایک مستقل پیشوا بنا ہوا ہے اور لوگوں کو اس کی طرف بلا رہا ہے، اپنی جگہ اپنے آپ کو راہ یافتہ اور راہنما ٹھہرائے ہوئے ہے، حالانکہ دراصل وہ خود گم کردہ راہ اور دوسروں کو بھٹکانے والا ہے۔
غلط کار علماء سے خطاب
اے بدعقلو جنہوں نے اپنا نام ’’علماء‘‘ رکھ چھوڑا ہے! تم یونانیوں کے علوم میں دبے ہوئے ہو اور صرف و نحو، معانی میں غرق ہو اور سمجھتے ہو کہ یہی علم ہے۔ یاد رکھو کہ علم یا تو قرآن کی کسی آیتِ محکم کا نام ہے یا سنتِ ثابتہ قائمہ کا۔ چاہیے کہ قرآن سیکھو، پھر سببِ نزول کا پتہ چلاؤ اور اس کے مشکلات کو حل کرو۔ اسی طرح جو حدیثِ رسولِ انورؐ سے صحیح ثابت ہو چکی ہے اسے محفوظ کرو، یعنی رسول محمدؐ نماز کس طرح پڑھتے تھے، اپنی ضرورت کے لیے کس طرح جاتے تھے، جہاد کا آپ کے ہاں کیا قاعدہ تھا، گفتگو کا انداز کیا تھا، حج کیونکر ادا فرماتے، اپنی زبان کی کس طرح حفاظت فرماتے تھے، حضورؐ کے اخلاق کیا تھے۔ چاہیے کہ حضورؐ کی پوری روش کی پیروی کرو اور آپ کی سنت پر عمل کرو، مگر اس میں بھی اس کا خیال رہے کہ جو سنت ہے اسے سنت ہی سمجھو، نہ کہ اسے فرض کا درجہ عطا کرو۔
عام زندگی سے کنارہ کش صوفیوں سے خطاب
دین میں خشکی اور سختی کی راہ اختیار کرنے والوں سے میں پوچھتا ہوں اور واعظوں اور عابدوں اور ان کج نشینوں سے سوال ہے جو خانقاہوں میں بیٹھے ہیں کہ بہ جبر اپنے اوپر دین کو عائد کرنے والو! تمہارا کیا حال ہے کہ ہر بری بھلی بات، ہر رطب و یابس پر تمہارا ایمان ہے، لوگوں کو تم جعلی اور گھڑی ہوئی حدیثوں کا وعظ سناتے ہو، اللہ کی مخلوق پر تم نے زندگی تنگ کر چھوڑی ہے حالانکہ تم تو اس لیے پیدا ہوئے تھے کہ لوگوں کو آسانیاں بہم پہنچاؤ گے، نہ کہ ان کو دشواریوں میں مبتلا کر دو گے۔
عام مسلمانوں سے خطاب
میں مسلمانوں کی عام جماعت کی طرف اب مخاطب ہوں اور کہتا ہوں کہ اے آدم کے بچو! دیکھو تمہارے اخلاق سو چکے ہیں، تم پر بے جا حرص و آز کا ہوکا سوار ہو گیا ہے، تم پر شیطان نے قابو پا لیا ہے، عورتیں مردوں کے سر چڑھ گئی ہیں اور مرد عورتوں کے حقوق برباد کر رہے ہیں، حرام کو تم نے اپنے لیے خوشگوار بنا لیا ہے اور حلال تمہارے لیے بدمزہ ہو چکا ہے۔ پھر قسم ہے اللہ کی! اللہ نے ہرگز کسی کو اس کے بس سے زیادہ تکلیف نہیں دی ہے۔ چاہیے کہ تم اپنی شہوانی خواہش کو نکاح کے ذریعہ پوری کرو خواہ تمہیں ایک سے زیادہ نکاح ہی کیوں نہ کرنا پڑیں اور اپنے مصارف اور وضع قطع میں تکلف سے کام نہ لیا کرو، اسی قدر خرچ کرو جس کی تم میں سکت ہو۔
اے آدم کے بچو! جسے خدا نے ایک جائے سکونت دے رکھی ہو جس میں وہ آرام کرے، اتنا پانی جس سے وہ سیراب ہو، اتنا کھانا جس سے بسر ہو جائے، اتنا کپڑا جس سے تن ڈھک جائے، ایسی بیوی جو اس کی شرمگاہ کی حفاظت کر سکتی ہو اور اس کو رہن سہن کی جدوجہد میں مدد دے سکتی ہو تو یاد رکھو کہ دنیا کامل طور سے اس شخص کو مل چکی ہے، چاہیے کہ اس پر خدا کا شکر کرے۔‘‘