’’متحدہ مجلس عمل: توقعات، کارکردگی اور انجام‘‘

   
۱۸ دسمبر ۲۰۰۷ء

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ تبارک و تعالیٰ و نصلی و نسلم علیٰ رسولہ الکریم و علیٰ آلہ و اصحابہ و اتباعہ اجمعین۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر اور اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدے پر عمل میں آیا تھا اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے، جن میں یو پی، مشرقی پنجاب، آسام، بہار اور مغربی بنگال کے مسلمان بطور خاص قابل ذکر ہیں، ایک نظریاتی اسلامی ریاست کی تشکیل کے جذبہ کے ساتھ اس کے لیے بے پناہ قربانیاں دی تھیں، مگر قیام پاکستان کے بعد سے اس مملکت خداداد میں اسلامی نظام کے نفاذ اور قرآن و سنت کے احکام کی عملداری کا مسئلہ ابھی تک مسلسل سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔

ملک کی متعدد دینی و سیاسی جماعتیں اس سلسلے میں انفرادی اور اجتماعی طور پر سرگرم عمل چلی آرہی ہیں جن میں جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان سر فہرست ہے جس نے شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی قیادت میں تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور پھر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں پاکستان کو ایک اسلامی دستور فراہم کرنے اور ملک میں نفاذ اسلام کے لیے مسلسل جدوجہد کی جو اب بھی جاری ہے۔

۲۰۰۲ء کے عام انتخابات کے بعد صوبہ سرحد میں دینی سیاسی جماعتوں کے مشترکہ محاذ ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی حکومت قائم ہوئی تو نہ صرف ملک بھر کے دینی حلقوں بلکہ پوری دنیا کے خیر خواہ احباب نے اس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی تھیں جن کا پورا ہونا زمینی حقائق اور ملکی حالات کے معروضی تناظر میں ممکن ہی نہیں تھا۔ چنانچہ اس حوالے سے ایم ایم اے اور اس کی صوبائی حکومت کی کارکردگی قومی و صحافتی حلقوں میں مسلسل زیر بحث رہی اور راقم الحروف بھی وقتاً فوقتاً روزنامہ اسلام اور روزنامہ پاکستان میں اپنے مستقل کالموں اور ماہنامہ الشریعہ اور ماہنامہ نصرۃ العلوم کے ادارتی صفحات میں ان مسائل پر اظہار خیال کرتا رہا۔

عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے ان تحریروں کا زیر نظر مجموعہ ترتیب دیا ہے جسے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی طرف سے شائع کیا جا رہا ہے، فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔ اس سے جہاں اس امر کا اندازہ کرنا آسان ہوگا کہ ایم ایم اے کی سرحد حکومت لوگوں کی توقعات کے مطابق نفاذ اسلام کی طرف مؤثر پیشرفت کیوں نہیں کر سکی، وہاں مستقبل کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی راہیں بھی تلاش کی جا سکیں گی۔ میں دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت اسے نفاذ اسلام کی جدوجہد میں ایک خدمت کے طور پر قبول فرمائیں اور ہمارے لیے ذخیرۂ آخرت بنا دیں۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter