(۹ صفر ۱۴۴۵ہجری کا خطبہ جمعۃ المبارک)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اللہ رب العزت نے انسانی سوسائٹی اور ماحول میں جو مصیبتیں اور آزمائشیں آتی ہیں ان کے حوالے سے اپنا ایک ضابطہ بیان فرمایا ہے۔ مصیبتیں آتی رہتی ہیں، شخصی طور پر بھی، اجتماعی، علاقائی اور قومی طور پر بھی۔ اور دنیا بھر کے حوالے سے بھی وقتاً فوقتاً مصیبتیں آتی ہیں جو انسانوں کو بھگتنا پڑتی ہیں۔ کائنات کا کنٹرول اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ جو کچھ ہوتا ہے اللہ رب العزت کی مرضی سے ہوتا ہے، اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا۔ زمینوں آسمانوں کا کنٹرول اس کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہیں کرتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں وہی رونما ہوتا ہے۔
اللہ رب العزت کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن اللہ نے ہر چیز کا ایک ضابطہ بنایا ہے، جو کچھ ہوتا ہے اس کے مطابق ہی ہوتا ہے، اس ضابطے کے خلاف کچھ نہیں ہوتا۔ میں اس کی مثال کے طور پر یہ ذکر کرنا چاہوں گا کہ قیامت کے دن حساب کتاب ہو گا۔ انسان پیش ہوں گے، اللہ رب العزت کو تو ہر چیز کا علم ہے کہ کس انسان نے کیا کیا ہے؟ اس کے علم اور قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ لیکن اللہ پاک وہاں صرف اپنے علم پر فیصلہ نہیں کریں گے۔ وہاں دعویٰ بھی ہو گا، انکار بھی ہو گا، گواہ بھی ہوں گے، جرح بھی ہو گی، سب کچھ ہو گا۔ کیونکہ ضابطہ یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر فیصلہ نہیں کریں گے کہ مجھے پتا ہے کہ تم نے کیا کیا ہے۔ بلکہ فیصلہ رپورٹوں پر، گواہیوں، سفارشوں اور شفاعتوں پر ہو گا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ’’لن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا‘‘ (الاحزاب ۶۲) کہ اللہ تعالیٰ کے قانون اور ضابطے میں تمہیں کوئی تبدیلی نہیں ملے گی اور کوئی لچک بھی نہیں ملے گی۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن اپنے ضابطے کے خلاف نہیں کرتے۔ اللہ رب العزت نے انسانی معاشرے اور سماج میں آنے والی مصیبتوں کے بارے میں اپنا ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ مصیبتیں کیوں آتی ہیں، اس کے پیچھے کیا عامِل کارفرما ہوتا ہے اور اس میں میرا ضابطہ کیا ہے۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے چار باتیں ارشاد فرمائی ہیں:
❶ پہلی بات یہ فرمائی ’’ما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم‘‘ (الشوریٰ ۳۰) تمہیں جو مصیبت بھی آتی ہے تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ کوئی مصیبت میری طرف سے نہیں آتی، ہر مصیبت تمہاری کسی حرکت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جس کو ہمارے ہاں مکافاتِ عمل کہا جاتا ہے۔ آدمی جو کام کرتا ہے اس کا کوئی نتیجہ اور کوئی ری ایکشن ضرور ہو گا۔ کوئی عمل بھی ردعمل سے خالی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے مصیبتوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ تمہارے اعمال کا ردعمل اور تمہاری حرکتوں کا نتیجہ ہیں۔
میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں۔ ایک آدمی جب بیمار ہوتا ہے، ڈاکٹر یا حکیم اس کی تشخیص کرتے ہیں تو اس کے پیچھے مریض کی اپنی کوئی غلطی ہوتی ہے۔ عام مشاہدے اور تجربے کی چیز ہے کہ کوئی بھی بیماری ہے، سر کی بیماری ہو، پیٹ کی، جگر یا دل کی بیماری ہو، سینکڑوں بیماریاں ہیں۔ جب یہ تشخیص کی جائے کہ بیماری کیوں لگی تو اس کے پیچھے مریض کی اپنی کوئی نہ کوئی غلطی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبان پہلے اس غلطی کی تلافی کرتے ہیں پھر علاج کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح معاشرے کی صورتحال ہے کیونکہ سماج بھی ایک جسم کی مانند ہے۔ یہی بات اللہ رب العزت نے اجتماعی مصیبتوں کے بارے میں فرمائی ہے کہ معاشرے میں کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ بلاوجہ کوئی مصیبت نہیں آتی، وہ ری ایکشن ہوتا ہے ، تمہارے ہی اعمال کو اللہ تعالیٰ تم پر پلٹا دیتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ کوئی مصیبت میری طرف سے نہیں آتی۔
❷ اس کے بعد دوسری بات یہ فرمائی ’’یعفوا عن کثیر‘‘ (الشوریٰ ۳۰) اللہ تعالیٰ بہت سی چیزیں تو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ تمہاری کچھ حرکتیں تمہارے لیے مصیبتوں کا باعث بنتی ہیں۔ اور بہت سی حرکتیں اللہ تعالیٰ ویسے ہی معاف فرما دیتے ہیں۔ اگر ساری حرکتیں دنیا میں ہماری مصیبتوں کا باعث بننے لگ جائیں تو کیا حشر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہاری اکثر خطائیں تو میں معاف کر دیتا ہوں۔
❸ تیسری بات یہ فرمائی ’’ما انتم بمعجزین فی الارض‘‘ (الشوریٰ ۳۱) زمین اور کائنات کے نظام میں تم اللہ پاک کو کسی چیز میں عاجز نہیں کر سکتے۔ وہ جو چاہے گا کرے گا تم اسے کسی کام سے روک نہیں سکتے۔
❹ چوتھی بات یہ فرمائی ’’ما لکم من دون اللہ من ولی ولا نصیر‘‘ (الشوریٰ ۳۱) کہ اللہ کے سوا تمہیں کہیں اور سے مدد بھی نہیں ملے گی۔ اگر تم پر کوئی مصیبت آ جائے تو میرے سوا اسے ٹالنے والا کوئی نہیں ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے چار بنیادی باتیں ذکر فرمائیں اور ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ دنیا میں تمہیں جو مصیبتیں بھی آتی ہیں وہ تمہاری حرکتوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اس لیے جب بھی کوئی مصیبت آئے تو اس کے پیچھے اپنی غلطی دیکھو کہ ہماری غلطی کیا ہے۔ اس کی وضاحت خود اللہ رب العزت نے حدیث قدسی میں فرمائی ہے۔ حدیث قدسی وہ ہوتی ہے جو قرآن مجید کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے روایت کریں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جو فرامین قرآن مجید میں ہیں وہ قرآن ہے۔ اور جو اس کے علاوہ ہیں وہ حدیث قدسی کہلاتے ہیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے، اور وہ بات قرآن مجید میں نہیں ہے تو وہ حدیث قدسی ہے۔
مسلم شریف کی روایت ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قانون کی خود وضاحت فرمائی ’’انما ہی اعمالکم احصیہا علیکم‘‘ یہ تمہارے اعمال اور حرکتیں ہیں جنہیں میں شمار کرتا رہتا ہوں، جو میرے ریکارڈ میں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ریکارڈ کیسا ہے۔
قرآن مجید میں ہے کہ قیامت کے دن جب انسان اپنا ریکارڈ اور ڈیٹا دیکھے گا تو چیخ اٹھے گا ’’مال ھذا الکتاب لا یغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا احصاہا‘‘ (الکہف ۴۹) یہ کیسا ریکارڈ اور کیسی فائل ہے، اس نے کوئی چھوٹی موٹی بات چھوڑی ہی نہیں۔ ’’ووجدوا ما عملوا حاضرا‘‘ (الکہف ۴۹) دنیا میں جو کچھ کیا سب سامنے موجود ہو گا۔
حدیث قدسی میں فرمایا ’’ثم اوفیھا لکم‘‘۔ پھر وہی اعمال تمہیں پورے پورے واپس کرتا ہوں، یعنی ان پر ایکشن بھی لیتا ہوں۔ ’’من وجد خیرا فلیحمد اللہ ومن وجد غیر ذلک فلا یلومن الا نفسہ‘‘۔ جس کو اپنی حرکتوں اور بداعمالیوں کے باوجود دنیا میں خیر ملے وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ اور اگر خیر کے علاوہ کچھ اور سامنے آیا ہے، کوئی مصیبت، کوئی مشکل سامنے آئے تو اپنے سوا کسی کو ملامت نہ کرے، وہ اس کی اپنی کسی حرکت کا نتیجہ ہے۔ اگر شر دیکھے تو اللہ سے گلہ نہ کرے، اپنے آپ کو ملامت کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں تمہارے اعمال واپس لوٹاتا ہوں، یہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اس لیے کوئی بھی مصیبت آنے پر اپنی حرکتیں تلاش کرو کہ تم نے کہاں غلطی کی تھی، کہاں پھسلے تھے، کہاں سے لڑھکے تھے جس کا یہ نتیجہ سامنے آیا ہے۔
اس اصول کے دائرے میں آج ہم جن مصیبتوں میں پھنسے ہوئے ہیں، ہمیں ان کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہم قومی سطح پر اس صورتحال سے دوچار ہیں کہ ایک عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ غریب طبقہ بلکہ اب تو متوسط اور مڈل کلاس بھی مصیبت میں پھنسی ہوئی ہے۔ کسی غریب کے لیے اپنے بچوں کا علاج کرانا ممکن نہیں ہے، بجلی کا بل دینا ممکن نہیں ہے، دال روٹی کا خرچہ چلانا ممکن نہیں رہا۔ آج ہم قومی سطح پر جس سب سے بڑی مصیبت کا شکار ہیں وہ یہ ہے کہ ہم پھر سے غلام ہو گئے ہیں۔ آج ہماری معیشت کا کنٹرول ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے۔ ہم اپنے بھاؤ اور اپنی تنخواہیں خود طے نہیں کر سکتے۔ ہماری چیزوں کے ریٹ کون طے کرتا ہے؟ ہمارے بجلی کے بلوں کا ریٹ کون طے کرتا ہے؟ ہمارا کنٹرول ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، بین الاقوامی اداروں کے ہاتھ میں ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ اس وجہ سے ہے کہ ہم نے قرضے لے لے کر خود کو اتنا مقروض اور بے بس کر لیا ہے کہ ہم اپنی جیب سے ایک نوٹ بھی اپنی مرضی سے نہیں نکال سکتے۔ بین الاقوامی ادارے ہم پر اس لیے سوار ہیں کہ ہم نے ان سے بے انتہا قرضے لے رکھے ہیں۔ اگلا سوال یہ ہے کہ وہ قرضے کہاں ہیں؟ ہم نے جو اربوں ڈالر کے قرضے اپنے اوپر چڑھا رکھے ہیں وہ کس کس کی جیب میں گئے ہیں؟ اگر ہم امتیازات ختم کر کے تجزیہ کریں کہ یہ جو لوگوں کے نام پر قرضے لیے گئے ہیں اور جس کا سود عام لوگوں کو اپنی جیب کاٹ کر، اپنا پیٹ کاٹ کر اور اپنی بیماری کاٹ کر ادا کرنا پڑ رہا ہے، وہ قرضے کہاں ہیں؟ غریب آدمی ، عام آدمی کو کیا ملا ہے؟ یہاں تو مڈل کلاس کو بھی کچھ نہیں ملا۔ وہ لوگ جنہوں نے قرض ہڑپ کیے ہیں، جن کے بینک اکاؤنٹ میں وہ قرضے پڑے ہوئے ہیں، جن کی جائیدادوں میں وہ قرضے سمٹے ہوئے ہیں، وہ آج بھی عیاشیاں کر رہے ہیں۔ ان کو کیا فکر ہے کہ آپ کا بجلی کا بل دو لاکھ ہو جائے۔ ان کو کیا فرق پڑتا ہے۔ فکر تو عام آدمی کو ہے کہ پندرہ ہزار تنخواہ ہے اور سولہ ہزار کے بل ہیں تو وہ کہاں سے ادا کرے۔ فرق تو اسے پڑے گا جو تیس پینتیس ہزار کماتا ہے اور خود یا اس کا بچہ بیمار ہے اور چالیس ہزار کا ڈاکٹر کا بل ہے۔ وہ غریب کیا کرے، کس دیوار سے سر ٹکرائے؟ یہی صورتحال سب کے سامنے ہے۔
یہ سب کیوں ہے؟ اس کے اسباب پر نظر کرنی چاہیے۔ پاکستان بننے سے پہلے کی باتیں چھوڑیں، پاکستان بننے کے بعد ہم نے یہ طے کیا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے سٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم معیشت اسلامی اصولوں کے مطابق چلائیں گے، مغرب کے اصولوں پر نہیں چلیں گے۔ قائد اعظم کا یہ اعلان ان کی وفات کے بعد کہاں گیا؟ قائد اعظم کا وہ اعلان اور تقریر آج بھی ریکارڈ پر ہے جو انہوں نے اپنی وفات سے ایک مہینہ پہلے کیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد ہم نے کیا کیا؟ ہم آج تک سود سے نجات حاصل نہیں کر سکے۔ کیا ہم نے سود سے نجات حاصل کرنے کے لیے کبھی سنجیدہ کوشش بھی کی ہے؟ دستور کہتا ہے سود ختم کریں گے، قائد اعظمؒ کہہ گئے کہ ہم مغربی معیشت کے اصولوں پر نہیں چلیں گے، عدالت کہتی ہے کہ سود پر نہیں چلنا۔ لیکن سب اسی ڈگر پر چل رہے ہیں، کون نہیں چل رہا؟
چند روز قبل سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس صلاح الدین صاحب نے صوبائی محکمہ داخلہ کو آرڈر جاری کیا کہ پرائیویٹ سطح پر جو سود کا کاروبار کرتے ہیں ان کے خلاف کریک ڈاؤن کرو، ان کو پکڑو، ان پر مقدمہ چلاؤ اور سزا دو۔ میں کہتا ہوں کہ ٹھیک ہے۔ لیکن کیا جو سود پرائیویٹ ہو وہ لعنت ہے اور جو سرکاری ہو وہ رحمت والا ہے؟ میں تلخ باتیں کر رہا ہوں لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ ایک عام آدمی سود کا کاروبار کرے تو اس کے خلاف قانون ہے کہ یہ ظلم ہے، زیادتی، لعنت اور نحوست ہے۔ اور بینک سود کا کاروبار کرے تو وہ عدل اور رحمت ہے؟ نہیں بلکہ وہ دستور کے خلاف، عدالت کے فیصلے کے خلاف، پاکستان کے قیام کے مقصد کے خلاف ہے۔ میں اپنے گھر میں سارے محلے کا گند اکٹھا کر لوں اور پھر کہوں کہ بدبو کیوں آتی ہے؟ اور پبلک میں اگر کسی نے سود کا معاملہ کیا، اسے جیل میں ڈال دیں گے اور وہ جا کر صلح کر لیں گے۔ آج کل تھانے میں صلح کرنا کونسا مشکل کام ہے؟ لیکن بینک کیا کریں گے؟ اسٹیٹ بینک کیا کرے گا، جس کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظمؒ نے اس میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ہم پاکستان میں معیشت اسلامی اصولوں کے مطابق چلائیں گے۔ وہ اسٹیٹ بینک ہم نے آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا ہے۔ تالا ہمارا ہے لیکن چابی ان کے پاس ہے۔ ہم عملی طور پر غلام قوم ہو کر رہ گئے ہیں۔
میں نے ایک سبب ذکر کیا ہے۔ جب تک ہم سود کی لعنت سے نجات حاصل نہیں کریں گے، بہتری نہیں آئے گی۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے دوٹوک اعلان کیا ہے ’’یمحق اللہ الربا ویربی الصدقات‘‘ (البقرہ ۲۷۶) سود ہمیشہ نحوست اور بربادی پھیلائے گا۔ سود کی وجہ سے کبھی تمہیں ترقی نہیں ملے گی۔ اس لیے ہمیں اپنی مصیبتوں کے پیچھے اپنی حرکتیں بھی دیکھنی چاہئیں۔ میں تیراکی سیکھے بغیر سمندر میں چھلانگ لگا دوں اور پھر کہوں کہ سمندر نے مجھے ڈبو دیا ہے۔ میں کشتی سیکھے بغیر کسی پہلوان کے سامنے جا کر کھڑا ہو جاؤں اور پھر روتا رہوں کہ پہلوان نے مجھے مارا ہے۔ پہلوان نے تو مارنا ہی ہے، اپنی حرکتیں بھی تو ہم دیکھیں۔
ہم نے پاکستان کے نام پر الگ ملک کیوں حاصل کیا تھا؟ یہ کہہ کر کیا تھا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے ہمیں الگ ملک چاہیے۔ ہم ہندوؤں کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے؟ اس لیے کہ ان کی تہذیب الگ ہے، ہماری تہذیب الگ ہے، ان کا کلچر اور ثقافت الگ ہے ہمارا الگ ہے، ان کا دین الگ ہے ہمارا دین الگ ہے۔ اس بنیاد پر قوم اکٹھی ہوئی اور اس بنیاد پر ہم ہندوستان سے الگ ہوئے۔ لیکن الگ ہو کر ہم نے کیا کیا؟ ہم ہندوانہ تہذیب سے بچ کر اپنی تہذیب اپنانے کے لیے الگ ہوئے تھے یا ان سے الگ ہو کر مغربی تہذیب میں ضم ہونے کے لیے الگ ہوئے تھے؟ ہم ایک تہذیب کے دائرے سے الگ ہو کر دوسری تہذیب میں گھسے ہیں۔ آج ہم پر کون سی تہذیب اور کس کی ثقافت مسلط ہے؟ کیا ہم اپنے آقا کو تبدیل کرنے کے لیے الگ ہوئے تھے کہ ہمیں یہ مالک نہیں یہ مالک چاہیے۔
ہم نے پاکستان بنتے ہی ’’قرارداد مقاصد‘‘ میں یہ طے کیا تھا جس پر پوری قوم متفق تھی کہ ہم یہاں قرآن و سنت کی بالادستی قائم کریں گے۔ یہاں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہو گی اور بالادستی قرآن و سنت کی ہو گی۔ ہم میں سے کس نے اس معاملے میں سنجیدگی دکھائی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلیں گے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کا کون سا حکم مانا ہے؟ میں قومی سطح پر بات کر رہا ہوں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور قرآن و سنت کی بالادستی کا کون سا کام کیا ہے؟ ہم نے اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ زبانی نہیں بلکہ لکھ کر کیا ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہو گی اور بالادستی قرآن و سنت کی ہو گی۔ لیکن ہم پچھتر سال سے کیا جھک مار رہے ہیں۔
۱۹۷۳ء میں ہم نے دستور بنا کر نافذ کیا اس میں صراحتاً لکھا ہوا ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں ہو گا۔ لیکن قرآن و سنت کے مطابق ہم نے کون سا قانون نافذ کیا ہے؟ ہمارا کون سا قانون شریعت کے مطابق ہے؟ ہمارا کون سا محکمہ اور کون سا ادارہ شریعت کے مطابق ہے؟ خدا سے ہم یہ وعدے کر رہے ہیں اور حال ہمارا یہ ہے؟
ہم آج پریشان ہیں کہ ہم مصیبت میں ہیں۔ یہ مصیبتیں دراصل ہماری حرکتوں کا ردعمل ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں ’’بما کسبت ایدیکم‘‘ (الشوریٰ ۳۰) تمہاری مصیبتیں تمہارے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اپنی حرکتوں پر غور کرو، جب تک خود نہیں بدلو گے نظام ٹھیک نہیں ہو گا۔ اس لیے ہمیں اپنی حرکتیں بدلنی ہوں گی، اپنے اعمال پر نظرثانی کرنا ہو گی، اللہ اور رسول کے ساتھ کمٹمنٹ کی پاسداری کرنی ہو گی۔ ہم اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ بدعہدی کر رہے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں، نہ عدلیہ، نہ انتظامیہ، نہ اسمبلی اور نہ معاشرہ کے مختلف طبقات۔ ہمارا آخری جملہ یہ ہوتا ہے کہ یا اللہ تو مہربانی کر دے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ازخود نہیں کروں گا۔ یہ بات بھی قرآن مجید میں ارشاد فرما دی، اللہ تعالیٰ نے کوئی بات ابہام میں نہیں چھوڑی ’’ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتٰی یغیروا ما بانفسہم‘‘ (الرعد ۱۱) اللہ پاک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک قوم اپنی حالت بدلنے کا خود فیصلہ نہ کر لے۔ صاف اعلان کر دیا کہ بدلنے کا فیصلہ تم نے کرنا ہے اور اس کی توفیق میں نے دینی ہے۔
آج ہم بے شمار مصائب کا شکار ہیں جن کی فہرست گننا بھی مشکل ہو گئی ہے کہ ہم ملکی اور قومی سطح پر کن مسائل کا شکار ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہم ایک دفعہ پھر غلامی میں چلے گئے ہیں۔ کل کچھ دوست آئے کہ ہم نے بجلی کے بلوں کے خلاف مظاہرہ کرنا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ہم حمایت کریں گے۔ بجلی کے بلوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، آپ احتجاج کریں یہ آپ کا حق ہے، میں حمایت کا اعلان کروں گا۔ لیکن یہ مظاہرہ ہم نے کس کے خلاف کرنا ہے؟
بنیادی سوال یہ ہے کہ پالیسی کون بناتا ہے؟ اس کے لیے آپ کو آئی ایم ایف اور بین الاقوامی اداروں کے خلاف کھڑا ہونا ہو گا۔ میں حکمرانوں سے بھی یہ عرض کر رہا ہوں اور آپ سے بھی کہ جب تک ہم آئی ایم ایف کے خلاف دوٹوک موقف اختیار نہیں کریں گے، حالات بہتر نہیں ہوں گے، چاہے ہم ہزاروں جلوس نکال لیں۔ کیونکہ چابی ان کے ہاتھ میں ہے اور فیصلے وہ کرتے ہیں۔ اور یہ کسی سے مخفی نہیں ہے سب کو پتہ ہے کہ ہم میں سے کس کس کو باہر کے بینکوں میں کتنے کتنے ڈالر چاہئیں اور ملکی بینکوں میں کتنے ڈالر چاہئیں۔ کس کس کو ریلیف، سہولت اور کس کس کو کرسی چاہیے۔ جن کے ہاتھ میں باگ ڈور ہے وہ اسی کھیل میں لگے ہوئے ہیں باقی پوری قوم جکڑی ہوئی ہے۔
ان مصائب کا ایک ہی حل ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے ساتھ وفاداری کی طرف واپس آئیں، ورنہ ہم یہی کچھ بھگتتے رہیں گے۔ جو وعدے ہم نے خدا اور رسول سے اپنے دستور میں کر رکھے ہیں، وہ پورے کریں ورنہ خالی دعوے کچھ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح اعلان کر دیا ہے کہ تم میرے ساتھ جیسے رہو گے میں ویسے ہی رہوں گا، تم اپنا کام کرو، میں اپنا کروں گا۔
حضرات! آج میں نے کچھ تلخ باتیں اس لیے کی ہیں کہ ہم پتوں اور ٹہنیوں پر لڑ رہے ہیں۔ اصل چیز ملک کی آزادی اور دین کے ساتھ وفاداری ہے۔ جب تک ہم قومی خودمختاری، دین کے ساتھ وفاداری اور دستور پر عملداری کے لیے اکٹھے نہیں ہوں گے اور آواز نہیں اٹھائیں گے ، بات نہیں بنے گی، اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں، آمین۔