امدادی سامان کی تقسیم: رابطے اور نظم کی ضرورت

   
۱۹ نومبر ۲۰۰۵ء

زلزلہ زدہ علاقوں کے چار روزہ دورے کے حوالے سے مختصر رپورٹ کچھ تاثرات کے ساتھ اس کالم میں اس سے قبل پیش کر چکا ہوں، اسی سلسلے میں کچھ مزید گزارشات پیش خدمت ہیں۔

عام لوگوں کی یہ شکایت اس سے قبل بار بار ریکارڈ پر آ چکی ہے کہ ان تک حکومتی اداروں کی رسائی بہت دیر سے ہوئی، جبکہ سب سے پہلے ان تک جہادی تنظیموں کے کارکن پہنچے۔ اس کی وجہ کچھ بھی ہو، مگر امر واقعہ یہ ہے کہ جہادی کارکنوں نے زلزلہ زدہ علاقوں تک سب سے پہلے رسائی حاصل کر کے اور مشکل ترین علاقوں تک پہنچ کر پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ اگرچہ امریکی نائب وزیر خارجہ محترمہ کرسٹینا روکا کو جہادی تنظیموں کی امدادی سرگرمیوں پر اعتراض ہے، مگر جو لوگ زلزلے کا شکار ہوئے، جن کے مکانات ملبے کے ڈھیر بن گئے، جن کے عزیزوں کی لاشیں ملبے کے نیچے دبی رہیں، جنہیں کئی راتیں کھلے آسمان کے نیچے شدید سردی میں گزارنا پڑیں اور جنہیں اپنی جانیں بچانے کے لیے دو وقت کی خوراک کے لالے پڑ گئے، ان کے لیے یہ بات ممکن نہیں تھی کہ وہ اس انتظار میں رہتے کہ کب محترمہ کرسٹینا روکا کو فرصت ملے، وہ اسلام آباد میں قدم رنجہ فرمائیں، زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کو این او سی جاری کریں اور پھر ملبے کے نیچے سے لاشیں نکالی جائیں، مریضوں کا علاج ہو، بھوکوں کو خوراک ملے، بے گھر لوگوں کے لیے چھت فراہم کی جائے اور بے سہارا لوگوں کو سنبھالنے کی کوئی صورت نکالی جائے۔ انہیں تو سہارا چاہیے تھا، امداد کی ضرورت تھی اور معاونت درکار تھی، اس لیے جو سب سے پہلے پہنچا، وہی ان کا سب سے زیادہ غمخوار تھا اور سب سے بڑا سہارا تھا۔

پھر یہ جہادی کارکن ان کے بچے بالے ہیں، ان کے عزیز و اقارب ہیں، ان کے درمیان رہنے والے ہیں، ان علاقوں سے واقف ہیں، ان پہاڑی سنگلاخ وادیوں کے شناسا ہیں، ان پتھریلے راستوں کے عادی ہیں، ان لوگوں کی ضروریات سے آگاہی رکھتے ہیں، ان کے مزاج کو جانتے ہیں، ان کے کلچر اور ثقافت سے باخبر ہیں، ان کے ساتھ عقیدے و مذہب ہی نہیں، جذبات و احساسات کی ہم آہنگی بھی رکھتے ہیں، اس لیے ان سے بہتر ان کا مددگار کون ہو سکتا تھا؟ چنانچہ وہ سب سے پہلے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے پاس پہنچے، ان کے زخموں پر مرہم رکھا اور ان کے دکھ درد میں شریک ہو گئے۔

محترمہ کرسٹینا روکا جہادی تنظیموں کے ان کارکنوں سے بے خبر نہیں ہیں، وہ انہیں جانتی ہیں، ان کی قوت کار سے واقف ہیں، ان کے ساتھ مل کر سوویت استعمار کے خلاف لڑ چکی ہیں، ان میں سے بہت سوں کو کرسٹینا روکا کے عسکری ماہرین نے ٹریننگ دی ہے، انہیں اسلحہ فراہم کرنے میں کرسٹینا روکا کا ملک سب سے پیش پیش تھا، انہیں مالی مدد اور میڈیا سپورٹ فراہم کرنے میں بھی کرسٹینا روکا کا ملک سرفہرست رہا ہے، اس لیے یہ لوگ کرسٹینا روکا کے لیے انجانے نہیں ہیں اور ان لوگوں کا مذہب و عقیدہ، جذبات و احساسات اور مقصد و مشن بھی محترمہ روکا کے لیے اجنبی چیز نہیں ہے۔

آج محترمہ کرسٹینا روکا کو ان لوگوں کے حوالے سے کوئی الجھن پیش آ رہی ہے اور مصیبت زدہ لوگوں کی امداد و بحالی کے لیے ان کی سرگرمیاں انہیں اچھی نہیں لگ رہیں تو اس کی وجہ یہ لوگ نہیں، خود کرسٹینا روکا کی قیادت ہے، جس نے غلط طور پر یہ تصور کر لیا کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں مالی مدد کر کے، اسلحہ فراہم کر کے اور اخلاقی و سیاسی سپورٹ مہیا کر کے انہوں نے جہادی تنظیموں کے کارکنوں کو خرید لیا ہے۔ اب یہ کرائے کے فوجی ہیں، جنہیں پیسے دے کر کسی کے خلاف بھی لڑایا جا سکتا ہے۔

محترمہ کرسٹینا روکا سمجھ رہی ہیں کہ ان کے ”کرائے کے سپاہیوں“ نے ان کے خلاف بغاوت کر رکھی ہے، اس لیے وہ انہیں جو سزا دینا چاہیں، یہ ان کا حق ہے۔ لیکن وہ یہ بات بھول رہی ہیں یا طاقت کے نشے نے ان کی نگاہوں سے اس حقیقت کو اوجھل کر رکھا ہے کہ جنہیں وہ ”کرائے کے سپاہی“ سمجھ رہی ہیں اور جن پر بغاوت کا ٹھپہ لگا کر انہیں ہر سزا کا مستحق قرار دے رہی ہیں، وہ کرائے کے فوجی نہیں، بلکہ آزاد اور آزادی پسند لوگ ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں روسی فوجوں کے تسلط کے خلاف جنگ لڑی تو اس لیے نہیں کہ امریکہ یوں چاہتا تھا، بلکہ یہ ان کی اپنی جنگ تھی، جس میں امریکہ نے اپنے مفاد کی خاطر ان سے تعاون کیا اور انہوں نے اپنی ضرورت کے تحت اس تعاون کو قبول کیا۔

خدا جانے محترمہ کرسٹینا روکا کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آ رہی کہ جن لوگوں کو افغانستان میں سوویت یونین کی فوجیں برداشت نہیں ہوئیں اور وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، انہیں بہت سے مسلم ملکوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں کی موجودگی کیسے برداشت ہو سکتی ہے؟ اگر وہ مسلم ممالک میں فوجوں کی موجودگی کے خلاف نبرد آزما ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ ان کے سابقہ کردار کا تسلسل ہے۔ البتہ امریکی قیادت کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ افغانستان میں روسی فوجوں کی موجودگی کے خلاف نبرد آزما لوگوں کو اسلحہ، دولت اور میڈیا کی سپورٹ مہیا کرنے والا امریکہ بہت سے مسلم ملکوں میں اپنی فوجوں کو براجمان کر دینے کا کیا جواز رکھتا ہے؟

محترمہ کرسٹینا روکا کا ملک دنیا کی قیادت کا دعویدار ہے، مگر قیادت کے لیے جو اخلاقی سطح اور اخلاقی جرأت درکار ہوتی ہے، کہیں بھی قیادت کے علمبرداروں کو اس کے اظہار کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ سارا کام ڈنڈے، طاقت اور دولت کے ذریعہ چلانا چاہ رہے ہیں، لیکن دنیا میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ صرف طاقت اور دولت کے نشے نے کسی کو قیادت کے منصب پر زیادہ دیر تک فائز رہنے دیا ہو۔ آخری فتح ہمیشہ اخلاق اور اصول کی ہوتی ہے اور فطرت کے اس قانون میں کسی تبدیلی کی آئندہ بھی کسی کو کسی درجہ میں توقع نہیں رکھنی چاہیے۔

خیر یہ سطور زلزلہ زدہ علاقوں میں جہادی تنظیموں کی امدادی سرگرمیوں پر امریکی نائب وزیر خارجہ محترمہ کرسٹینا روکا کے اعتراض کے حوالے سے قلم برداشتہ تحریر میں آ گئیں۔ بات دراصل اس پر ہو رہی ہے کہ زلزلے سے متاثر ہونے والے عام لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی امداد کے لیے سب سے پہلے جہادی تنظیموں کے کارکن پہنچے اور حکومتی مہربانوں نے آتے آتے بہت دیر کر دی۔

آزاد کشمیر میں تو سرکاری انتظامیہ بالکل مفلوج ہو کر رہ گئی تھی اور نہ صرف مظفر آباد اور باغ کی ضلعی انتظامیہ، بلکہ ریاستی انتظامی مشینری بھی فوری طور پر کسی حرکت کی پوزیشن میں نہیں تھی، اسی وجہ سے دو تین روز افراتفری کے عالم میں گزرے اور بدنظمی کے ہاتھوں لوٹ مار کے افسوسناک واقعات بھی سامنے آئے۔ اس خلا کو پاک فوج نے پُر کیا اور اس کے آنے کے بعد کسی درجے میں نظم و ضبط کی بحالی کی صورت پیدا ہوئی۔ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لیے جو محنت کی وہ اپنی جگہ، لیکن میرے نزدیک پاک فوج کا سب سے بڑا کریڈٹ آزاد کشمیر میں یہ ہے کہ اس نے مفلوج سول انتظامیہ کے خلا کو پر کیا اور بدنظمی اور افراتفری پر قابو پا کر معاملات کو آگے بڑھنے کے لیے صحیح رخ فراہم کر دیا۔

پاک فوج کا دوسرا بڑا کام میں نے یہ دیکھا ہے کہ اس کے ذمہ دار افسروں نے امدادی کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے درمیان رابطے کی ترتیب قائم کی ہے اور امدادی سرگرمیوں کو مربوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ باغ میں جماعۃ الدعوۃ کے سنٹر میں پاک فوج کے ایک بریگیڈیئر کو متاثرین کے لیے خیموں کے معیار پر مشاورت کرتے دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا کہ امدادی کام کرنے والی تنظیموں اور پاک فوج کے افسران کے درمیان رابطہ و مشاورت کا نظم موجود ہے، جو امدادی کاموں کے لیے انتہائی مفید اور ضروری ہے۔

البتہ امدادی سامان کی تقسیم کے حوالے سے عام لوگوں کی شکایات کا سلسلہ جاری ہے اور وہ شکایات پاک فوج کے جوانوں کے بارے میں بھی لوگوں کی زبانوں پر موجود ہیں، مثلاً:

  • یہ شکایت تین چار مختلف مقامات پر سامنے آئی کہ امدادی سنٹروں سے مستحقین و متاثرین کو ان کی ضرورت کے مطلوبہ سامان کی فہرست ایک چٹ پر لکھ کر دی جاتی ہے اور دوسرے روز اس چٹ کے ذریعے سامان لے جانے کے لیے کہا جاتا ہے، لیکن دوسرے روز آنے پر سامان نہیں ملتا، بلکہ دو تین چکر لگانے کے بعد اس چٹ میں درج سامان میں سے ایک دو آئٹمیں دے کر باقی کے لیے انکار کر دیا جاتا ہے۔
  • اسی طرح ایک شکایت یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ متاثرین میں جو کمبل تقسیم کیے گئے ان کا کور اور لفافہ تو کوریا کے نئے کمبل کا ہے، لیکن اندر سے پرانے اور استعمال شدہ فوجی کمبل نکلے ہیں۔
  • امدادی سامان کی تقسیم کے ضمن میں یہ شکایت عام طور پر پائی جاتی ہے کہ استعمال شدہ کپڑوں میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو اب استعمال کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ اس پر ہمارے ایک ساتھی نے یوں تبصرہ کیا کہ کچھ لوگوں نے متاثرین کے لیے کپڑے بھجوانے کے عنوان سے اپنے گھروں کی صفائی کی ہے۔ ایک سنٹر میں لوگوں کو کپڑوں کے ڈھیر سے اپنی ضرورت کے کپڑے چنتے ہم نے بھی دیکھا ہے اور سچی بات ہے کہ کوئی اچھا تاثر ذہن میں قائم نہیں ہوا۔
  • امدادی سامان کی تقسیم میں ایک اور شکایت یہ سننے، بلکہ دیکھنے میں آئی ہے کہ امدادی سامان لے جانے والے حضرات اس کی تقسیم میں اکثر اپنی پسند اور ناپسند کی ترجیحات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ ترجیحات طبقاتی بھی ہیں، مسلکی بھی ہیں، برادری اور خاندان کی بھی ہیں اور سیاسی بھی ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے زیادہ ضرورت مند افراد امداد سے محروم رہ جاتے ہیں۔

امدادی گروپوں کے باہمی عدم رابطے کی وجہ سے یہ تو اکثر ہوا ہے کہ ایک شخص یا خاندان نے چار چار کیمپوں سے امداد وصول کر لی اور بعض خاندانوں اور افراد کو کہیں سے بھی امداد نہیں مل سکی، حتیٰ کہ سوال سے گریز کرنے والے خوددار افراد اور خاندانوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی امداد سے محروم ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے مختلف امدادی سنٹروں میں حاضری کے موقع پر سب سے ایک بات مشترکہ طور پر عرض کی ہے کہ وہ اپنی اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے باہمی مشاورت و رابطے کا کوئی نظم ضرور بنا لیں، تاکہ وہ ایک دوسرے کے دائرہ کار سے واقف ہوں اور ضرورت کے مطابق تقسیم کار کر لیں، جس سے بہت سے مسائل اور شکایات خود بخود دور ہو جائیں گی۔

زلزلہ زدہ علاقے کے اس سفر کے دوران معروف کشمیری رہنما سردار محمد عبد القیوم خان اور ان کے فرزند و جانشین سردار عتیق احمد خان سے بھی ملاقات ہوئی اور مختلف مسائل پر باہمی گفتگو بھی ہوئی۔ اس کی تفصیلات اور اس کے حوالے سے اپنے تاثرات و احساسات اگلے کالم میں پیش کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter