سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ اسمبلی دستور ساز نہیں، بلکہ قانون ساز ادارہ ہے، اس لیے آئین میں ترامیم کے حوالے سے اسے دستور ساز اسمبلی جیسے اختیارات حاصل نہیں اور سپریم کورٹ اس کی طرف سے کی گئی کسی بھی ترمیم کا دستور کے بنیادی ڈھانچے کے دائرے میں جائزہ لے سکتی ہے۔ جناب سعید الزماں صدیقی کا کہنا ہے کہ دستور کے بنیادی ڈھانچے کا تحفظ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے اس ارشاد کی روشنی میں اس وقت نظر آنے والی یا پیدا کی جانے والی کشمکش کی اصل نوعیت کو کافی حد تک آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے، جو دستورِ پاکستان میں اٹھارہویں ترمیمی بل کی پارلیمنٹ سے منظوری اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے کے پس منظر میں قومی منظر پر نظر آ رہی ہے۔ اگرچہ جسٹس (ر) سعید الزمان صدیقی نے اپنے اس انٹرویو میں یہ اطمینان دلایا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جانے کے باوجود دیگر اداروں کے ساتھ اس کے تصادم کا کوئی امکان نہیں ہے اور ہماری بھی دعا اور خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک و قوم کو اس قسم کے کسی بھی تصادم، بلکہ کشمکش کے امکانات سے محفوظ رکھے، آمین یا رب العالمین! ۔۔۔ لیکن بیانات اور انٹرویوز کی حد تک کشمکش کی یہ فضا بہرحال موجود ہے اور ذرائع ابلاغ اس میں حتی الوسع اپنا اپنا کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
آئین کی تعبیر و تشریح میں حتمی اتھارٹی سپریم کورٹ ہے یا پارلیمنٹ؟ اور کیا سپریم کورٹ کو منتخب پارلیمنٹ کے کسی فیصلے کو دستور سے متصادم قرار دینے اور اسے مسترد کر دینے کا حق دینا پارلیمنٹ کی خود مختاری کے منافی تو نہیں ہے؟ اس نکتے پر خود امریکہ میں بھی مسلسل بحث ہو رہی ہے اور بہت سے امریکی دانشوروں کے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں ہے کہ عدالت عظمیٰ دستور کی پاسداری کے نام پر منتخب پارلیمنٹ کے کسی فیصلے کو مسترد کرے۔ ان کے خیال میں یہ بات پارلیمنٹ کی خود مختاری اور عوام کی طرف سے اسے دیے گئے مینڈیٹ سے مطابقت نہیں رکھتی، لیکن امریکہ میں سپریم کورٹ کو بہرحال یہ اختیار حاصل ہے اور اس اختیار کے لیے دلیل بھی یہی بیان کی جاتی ہے کہ دستور کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت عدالت عظمیٰ کی ذمہ داری ہے، اس لیے اسے یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے کسی ایسے فیصلے کا جائزہ لے جو اس کے خیال میں دستور کے بنیادی مقاصد کے خلاف ہو۔
ہماری معلومات کے مطابق اٹھارہویں آئینی ترمیم کی تیاری کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے جب یہ تجاویز رکھی گئیں کہ ملک کا نام تبدیل کر کے ”اسلامی“ کا لفظ حذف کر دیا جائے گا اور قرارداد مقاصد کو، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کا تحفظ کرتی ہے، دستور سے نکال دیا جائے تو یہی نکتہ زیرِ بحث آیا کہ ایسی پارلیمنٹ کو، جو اپنی ساخت کے اعتبار سے دستور ساز اسمبلی نہیں ہے، ایک منتخب دستور ساز اسمبلی کی طرف سے طے کردہ دستور کے بنیادی ڈھانچے میں رد و بدل کا اختیار حاصل ہے؟ تو پارلیمانی کمیٹی کے اربابِ دانش نے اس بات سے اتفاق کیا کہ قانون ساز اسمبلی کو دستور میں ترمیم لانے کا حق تو ہے، لیکن دستور کے بنیادی ڈھانچے میں رد و بدل کرنے کا اختیار اسے حاصل نہیں ہے۔ پھر یہی اصولی نکتہ دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات کے تحفظ کا ذریعہ بن گیا، ورنہ جس انداز سے یہ ترامیم پیش کی جا رہی تھیں، ترامیم پیش کرنے والی پارٹیوں کو پارلیمانی کمیٹی میں جو عددی تفوق حاصل تھا اور ان ترامیم کے حق میں میڈیا کے ذریعے جو عوامی فضا بنانے کی کوشش ہو رہی تھی، اسے دیکھ کر نفاذِ شریعت کے ہمارے جیسے شعوری کارکنوں کے دلوں کی دھڑکن پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی ہر خبر پر تیز ہو جاتی تھی اور دلوں کے اندر سے ”خدا خیر کرے“ کی صدائیں بلند ہونے لگتی تھیں۔
اس وقت بعض حلقوں میں یہ بحث جس رخ پر جاری ہے، اس میں اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ دستور کو بہرحال بالادستی حاصل ہے، لیکن دستور کی تعبیر و تشریح کا حق کس کو ہے؟ اس پر کچھ دوستوں میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ گزشتہ روز ایک محفل میں ہم سے سوال کیا گیا تو ہم نے عرض کیا کہ ہمارے خیال میں اس کا صحیح فورم عدالت عظمیٰ ہے، اس لیے کہ تعبیر و تشریح کے لیے دلیل اور استدلال درکار ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں بہرحال عدالت کے فورم پر ہی پائی جاتی ہیں، جبکہ ہاتھ اٹھانا اور سر گننا کتنا ہی بہتر عمل کیوں نہ ہو، وہ کسی صورت بھی دلیل اور استدلال کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
تعبیر و تشریح کے اختیار کے حوالے سے موجودہ بحث کو دیکھ کر ایک پرانی بحث ہمارے ذہن میں پھر سے تازہ ہو گئی ہے، جو اب سے کم و بیش ربع صدی قبل ہمارے قومی مباحثے کا اہم حصہ تھی اور اب بھی کبھی کبھی اس کی صدائے بازگشت سنائی دے جاتی ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب سینٹ آف پاکستان میں مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف کا پیش کردہ ”شریعت بل“ زیرِ بحث تھا اور اس کا اساسی نکتہ یہ تھا کہ قرآن و سنت ملک کا سپریم لاء ہوں گے اور ان سے متصادم تمام قوانین اس بل کے نفاذ کے ساتھ ہی تحلیل ہو جائیں گے۔ قرآن و سنت کی بالادستی سے انکار تو کسی کے بس میں نہیں تھا، اس لیے یہ کہا گیا کہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح میں پارلیمنٹ کو فائنل اتھارٹی تسلیم کر لیا جائے تو یہ بل منظور کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت بھی دلیل یہی تھی کہ قرآن و سنت کو غیر مشروط طور پر ملک کا سپریم لاء قرار دینے سے پارلیمنٹ کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے اور اس کے قانون سازی کے اختیارات محدود ہو جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک فورم میں ہم سے سوال کیا گیا تو ہم نے عرض کیا کہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اس کے ساتھ ساتھ اجتہاد کا حق پارلیمنٹ کو سونپنے سے پہلے اس بات کا تعین کر لیا جائے کہ اجتہاد اور قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح علم اور دلیل کی بنیاد پر ہو گی یا صرف ہاتھ اٹھا کر ووٹنگ کے ذریعے قرآن و سنت کے معنی و مفہوم کا تعین کیا جائے گا؟ اگر اجتہاد اور تعبیرِ شریعت کا تعلق علم اور دلیل سے ہے تو پارلیمنٹ کو اس کا حق دینے کے لیے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر کے اجتہاد اور تعبیرِ شریعت کی اہلیت کی شرائط عدالت عظمیٰ سے طے کرا لی جائیں اور سپریم کورٹ اس کے لیے جن شرائط کا تعین کرے، الیکشن رولز میں ترمیم کر کے ان شرائط کو پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے ضروری قرار دے دیا جائے۔ اس صورت میں پارلیمنٹ کو اجتہاد اور تعبیرِ شریعت کا حق دینے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
بہرحال یہ ایک پرانی بحث تھی جو ذہن میں ابھر آنے پر ہم نے اس کا تذکرہ کر دیا ہے۔ اس وقت ہمارے قومی حلقوں میں بحث دستور کی بالادستی اور اس کی تعبیر و تشریح کے اختیار پر ہو رہی ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ بات دلیل کی طرف لوٹ رہی ہے اور دلیل کی اہمیت اور بالادستی کو قومی حلقوں میں محسوس کیا جا رہا ہے۔ یہ اس سے اگلی بات ہے کہ جب دلیل ہی فیصلے کی اصل بنیاد ہے تو پھر انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین اور اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے احکام میں سے دلیل کی اصل قوت کس کے پاس ہے؟