پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ روز بلوچستان سے منتخب ہونے والے ضلعی ناظمین سے بات چیت کے دوران میں کہا ہے کہ انتہا پسندوں کے خلاف ایکشن کا اعلان چند روز تک کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چند مذہبی انتہا پسندوں کو ۱۴ کروڑ عوام کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتہا پسندی جس معاشرے میں جڑ پکڑ لے، وہ معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ کون تنگ نظر ہے اور کون نہیں، آسان نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی تنگ نظر کے نقطہ نظر کو دوسرا شخص تسلیم نہ کرے تو وہ اس پر انتہا پسندی کی تہمت لگا کر اسے قومی مجرم قرار دے دیتا ہے۔
صدر جنرل پرویز مشرف اس وقت حکمران وقت ہیں اور ایسے حکمران ہیں جو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں، اختیارات کے سرچشمے ان کی ذات گرامی سے پھوٹتے ہیں۔ اس سب کے باوجود ان کا ایک عوامی چہرہ بھی ہے جسے ایک سیاست دان کا چہرہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اپنے اس روپ میں انہیں سیاست دانوں اور بالخصو ص مذہبی راہنماؤں کے بارے میں رائے دیتے وقت بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں مذہبی راہنماؤں کا اپنا ایک مخصوص کردار ہے اور عوام انہیں عقیدت واحترام سے دیکھتے ہیں۔ عقیدت کے ان آبگینوں کی شکستگی ان کے لیے سوہانِ روح ہوتی ہے خصوصاً اس صورت میں جب ان کی حب الوطنی شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق کی نظر بندی سیاسی وجوہ کی بنا پر ہے۔ ان کے سیاسی بیانات ان کی اپنی جماعت اور سیاسی نظریات کے نقیب ہیں اور انہیں انتہا پسندی شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ افغانستان پر امریکہ کی بے تحاشا بمباری اور معصوم مردوں، عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کے قتل عام نے پاکستان کے مسلمانوں میں انسانی ہمدردی کے جذبات پیدا کیے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ آرا جنرل مشرف کی حکمت خارجہ اور امریکہ دوستی کے مطابق نہ ہوں لیکن اس اختلاف رائے کے تحت معاشرے کے کسی طبقے پر کریک ڈاؤن کرنا قرین مصلحت نہیں۔ پاکستان کو اس وقت انتشار کے بجائے قومی یک جہتی، تنگ نظری کے بجائے کشادہ نظری اور انتہا پسندی کے بجائے عالی ظرفی کی ضرورت ہے لیکن اس کا مظاہرہ بالائی سطح سے حکومت کی طرف سے ہونا چاہیے۔ حکومت نے جس طرح کریک ڈاؤن کا ارادہ ظاہر کیا ہے، وہ موجودہ حالات میں ہمارے داخلی مفادات کے مطابق نہیں ہے۔ بنیادی جمہوریتوں کے تحت جو ضلعی ناظمین منتخب ہو کر برسر اقتدار آئے ہیں، انہوں نے ابھی تک کسی قسم کے سیاسی شعور اور سماجی آگہی کا ثبوت نہیں دیا۔ انہیں اس مشکل میں الجھانا ہرگز مناسب نظر نہیں آتا۔