بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میرا برطانیہ کا پہلا سفر قادیانیت کے حوالے سے تھا اور امریکہ کا پہلا سفر بھی قادیانیت کے حوالے سے تھا۔ اس نشست میں لندن کے پہلے سفر کا پس منظر عرض کر دیتا ہوں۔ پاکستان میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چنیوٹ میں ہوا کرتی تھی، سالہا سال سے معمول تھا۔ قادیانی ربوہ (چناب نگر) میں کانفرنس کرتے تھے، اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی کانفرنس چنیوٹ میں ہوتی تھی۔ ۱۹۸۴ء میں جب تحریک ختم نبوت کے نتیجے میں امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا اور قادیانیوں کو اسلام کا نام اور مسلمانوں کے شعائر اور اصلاحات کے استعمال سے روک دیا گیا تو قادیانیوں کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے لندن میں اپنا مرکز بنا لیا، وہی ان کا عالمی ہیڈ کوارٹر ہے۔ اور جو اُن کی چناب نگر میں سالانہ کانفرنس ہوتی تھی اسے لندن میں منتقل کر دیا گیا، جو اَب بھی ہوتی ہے۔ اس پر ہمارے کچھ حضرات کو خیال ہوا کہ قادیانی لندن میں کانفرنس کرتے ہیں تو ہمیں بھی لندن میں ختم نبوت کانفرنس کرنی چاہیے۔ مقابلہ تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ جو اس تحریک کے بڑے قائدین میں سے ہے یہ جملہ فرمایا کرتے تھے کہ قادیانی چاند پر بھی جائیں گے تو ہم ان کے پیچھے جائیں گے اور ان کا تعاقب کریں گے۔ چنانچہ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی ؒ، حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ نے طے کیا کہ ہم لندن میں ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کریں گے۔ انہوں نے اس کے لیے انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے نام سے فورم بنایا جو اب انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے نام سے کام کر رہی ہے۔
ان حضرات نے لاہور شیرانوالہ کی ایک نشست میں یہ طے کیا۔ میرا شیرانوالہ آنا جانا مستقل رہتا تھا۔ وہی ہمارا جماعتی ہیڈ کوارٹر تھا اور سلسلہ راشدیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی وہی ہے۔ میرا اس دن وہاں اتفاقاً جانا ہوا جس دن یہ حضرات یہ مشورہ کر رہے تھے۔ مولانا ضیاء القاسمیؒ نے مجھے دیکھ کر فرمایا آپ نے بہت اچھا کیا کہ آپ آ گئے۔ ہم لندن میں بہت بڑی ختم نبوت کانفرنس کرنا چاہتے ہیں، ہم اس کی تیاری کر رہے ہیں۔ آپ رپورٹنگ وغیرہ اچھی کر لیتے ہیں، آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ یہ اپریل ۱۹۸۵ء کی بات ہے۔ اس زمانے میں برطانیہ کا ویزہ نہیں ہوتا تھا، پاسپورٹ کافی تھا۔ لندن ایئرپورٹ پر انٹرویو ہوتا تھا اور وہیں انٹری لگتی تھی، پاکستانیوں کو برطانیہ جانے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ مگر اب وہاں کا ویزہ ملتا نہیں ہے، اس وقت ہوتا نہیں تھا۔ مجھ سے انہوں نے پوچھا پاسپورٹ ہے؟ میں نے کہا ہے۔ ان کا پروگرام یہ تھا کہ اگست ۱۹۸۵ء میں لندن ویمبلے ہال میں انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے تحت کانفرنس کریں گے اور واپسی پر حج کریں گے۔ میں نے کہا اگر واپسی پر حج کے سفر میں مجھے شامل کریں تو میں بھی ساتھ جانے کو تیار ہوں۔ انہوں نے کہا حج میں شامل کریں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے چلتے ہیں۔
میں نے دسمبر ۱۹۸۴ء میں عمرہ کیا تھا۔ میرے بڑے بہنوئی حاجی سلطان محمود خان صاحب اس زمانے میں ریاض میں ہوتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ آپ کو حج کروانا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے ٹکٹ ہی دینا ہے تو خالی موسم میں جب رش نہیں ہوتا عمرہ کروا دیں۔ بھائی جان نے ٹکٹ بھیج دیا اور میں نے عمرہ کر لیا۔ اب مجھے یہ لالچ تھی کہ عمرہ کرنے کی وجہ سے جو مجھ پر حج فرض ہو گیا ہے وہ ادا کر لوں گا۔ عمرہ بھائی جان کے خرچے پر کیا تھا، حج ان حضرات کے خرچے پر ہو جائے گا۔ چنانچہ ہم پروگرام کے مطابق لندن گئے۔ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی ؒ، اور میں نے اکٹھے سفر کیا، حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ وہیں رہتے تھے، وہ ہم سے پہلے وہاں چلے گئے تھے۔ ہم تینوں یہاں سے پہنچے۔
سفر کی اپنی ایک داستان ہے۔ اللہ پاک کی قدرت دیکھیں کہ ہم نے اس سفر میں حج کیا، ایک مہینہ لندن میں گھومے پھرے، ترکی گئے، واپسی پر قاہرہ میں بھی ایک دن رہے ، مگر لاہور سے واپس لاہور تک آنے جانے کا ٹوٹل پندرہ ہزار خرچہ ہوا تھا۔
راستے میں ایک لطیفہ ہوا۔ ہماری ترکش ایئر لائن تھی، لاہور سے کراچی پی آئی اے تھی، اسی ٹکٹ میں۔ کراچی سے اس کا روٹ یہ تھا کراچی، دبئی، استنبول، لندن۔ ہم نے استنبول دو دن رہنا تھا۔ ہماری خواہش تھی کہ استنبول میں توپ کاپی میوزیم میں موجود مصحف عثمانی ،وہ نسخہ جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمانؓ شہید ہوئے تھے اور جس پر ان کے خون کے نشانات ہیں، اس کی زیارت کرنا چاہتے تھے اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مزار استنبول میں ہے، اس پر حاضری دینا چاہتے تھے۔ ہم کراچی سے ڈیڑھ دو گھنٹے میں دوبئی پہنچ گئے، دبئی میں جہاز اترا اور گھنٹہ سوا گھنٹہ کھڑا رہا، دوبئی سواریاں حسبِ معمول اتریں چڑھیں جبکہ اگلی منزل کے مسافر جہاز میں ہی رہے۔ پھر جہاز استنبول کے لیے روانہ ہو گیا۔ جب جہاز کو روانہ ہوئے پندرہ بیس منٹ گزر گئے تو میرے آگے کی سیٹ پر ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا کہنے لگا مولوی صاحب! دبئی کب آئے گا؟ میں نے کہا کیوں؟ اس نے کہا میں نے وہاں اترنا ہے۔ میں نے کہا خدا کے بندے! دبئی میں تو جہاز کافی دیر کھڑا رہا ہے، آپ کیوں نہیں اترے۔ کہنے لگا اب کدھر جا رہے ہیں؟ میں نے کہا استنبول جا رہے ہیں۔ پوچھا استنبول کدھر ہے؟ میں نے کہا ترکی میں ہے۔ اس نے شور مچا دیا کہ اسے روکو ، میں نے اترنا ہے۔ میں نے کہا بھئی! یہ ٹرک نہیں ہے، جہاز ہے، یہ استنبول جا کر رکے گا۔ اس نے شور مچایا تو عملہ اکٹھا ہو گیا۔ عملہ پریشان تھا کہ اس نے کیا شور مچا رکھا ہے؟ عملہ ترکی تھا، اردو اور پشتو نہیں جانتے تھے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ اس نے دبئی میں اترنا تھا، آپ نے اسے اتارا نہیں ، اس لیے شور مچا رہا ہے۔ جہاز میں ترکش یا انگریزی میں اعلان ہوتا تھا اس بیچارے کو سمجھ نہیں آئی کہ دبئی آ گیا ہے میں نے اترنا ہے۔ ہمیں پریشانی تھی کہ ہمارا پاکستانی بھائی ہے، اب اس کا کیا ہو گا۔ ہم نے عملہ کو سمجھایا بجھایا کہ آپ سے یا ان سے غلطی ہو گئی ہے بہرحال ٹھیک ہے آپ جائیں، اپنا کام کریں۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم سنبھال لیں گے۔ دراصل غلطی عملہ کی بنتی تھی کہ انہیں چیک کرنا چاہیے تھا۔
اس کے بعد میں نے اس سے انٹرویو شروع کیا۔ اس نے بتایا کہ میرا بھائی بھی میرے ساتھ ہے ہم نے دبئی اترنا تھا۔ میں نے پوچھا کہاں سے تعلق ہے؟ اس نے کہا وزیرستان سے۔ میں نے کہا شمالی وزیرستان یا جنوبی؟ اس نے کہا شمالی ، ”میر علی“ کا ہوں۔ میر علی میں ہمارے دوست مولانا حبیب الرحمٰن صاحب ہوتے تھے۔ میں نے کہا مولانا حبیب الرحمٰن کو جانتے ہو؟ اس نے کہا وہ میرے ماموں ہیں۔ میں نے اس سے کہا جہاز دبئی میں کافی دیر کھڑا رہا ہے، لوگ اترے چڑھے ہیں، تمہیں پتہ نہیں چلا؟ آخر آدمی اندازہ کر لیتا ہے کہ لوگ آ جا رہے ہیں اور جہاز کھڑا ہے، چل نہیں رہا ، آپ کو کوئی اندازہ نہیں ہوا؟ اس نے کہا میں نے سمجھا کہ جہاز اوپر ہی کھڑا ہے۔ خراب ہو گیا ہے، اسے ٹھیک کر رہے ہیں۔ میں نے کہا خان صاحب! اسے اوپر نہ کھڑا کرنا۔ میرا ہلکا پھلکا مزاح کا مزاج ہے لیکن مولانا ضیاء القاسمی ؒ زیادہ مزاح کر لیتے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد اسے کہتے خان صاحب! جہاز اوپر ہی کھڑا ہے؟ جب کئی بار انہوں نے اس سے یہ کہا تو وہ لڑ پڑا۔ اور کہنے لگا آپ کیسے مولوی ہیں، میری جان کو مصیبت پڑی ہوئی ہے اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے۔ ہم نے بڑی مشکل سے معاملہ سلجھایا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ استنبول پہنچتے ہی ان دونوں بھائیوں نے گرفتار ہو جانا تھا۔ ان کے پاس ترکی کا ٹکٹ اور ویزہ تو تھا نہیں۔ ہم نے سوچا کہ یہ ہمارے پاکستانی بھائی ہیں ،انہیں بچانے کی کوئی صورت کرنی چاہیے۔ ہم نے اترنا تھا ، اور ہم ان کے ساتھ نہیں جا سکتے تھے، نہ وہ ہمارے ساتھ جا سکتے تھے۔ ہم نے اتر کر پہلے ان کا مسئلہ حل کرنا چاہا۔ چنانچہ ہم پاکستانی کونسل خانہ میں گئے اور اپنا تعارف کرایا۔ وہاں لاہور کے کوئی افسر تھے جو ہمیں پہچان گئے۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہمارے دو پاکستانی بھائی پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ ہوا ہے، اگر آپ کچھ کر سکتے ہیں تو کریں، آپ کی مہربانی ہوگی۔ ہم یہی کر سکتے تھے ، اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے معاملہ ان کے حوالے کیا اور چلے آئے، پھر پتہ نہیں ان بیچاروں کا کیا بنا۔
خیر ہم استنبول میں دو دن رہے۔ استنبول میں اتر کر ہم نے کرنسی تبدیل کروائی۔ میں نے پانچ ہزار کا نوٹ زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ میرے پاس پچاس پاؤنڈ تھے، میں نے پچاس پاؤنڈ دیے تو کرنسی چینجر نے مجھے چھیالیس ہزار ترکی لیرے دے دیے۔ میں سوچ رہا تھا کہ بڑی رقم مل گئی ہے۔ میں سفر پر جاتے ہوئے احتیاطاً پچاس پاؤنڈ لے گیا تھا۔ اس زمانے میں پاؤنڈ بائیس روپے کا تھا، یعنی میں نے گیارہ سو روپے دیے اور چھیالیس ہزار لیرے مل گئے۔ ہم بہت خوش ہوئے کہ بڑے مزے سے دو دن گزریں گے، لیکن وہ لیرے ہی تھے۔ وہاں سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستانی کونسل خانہ تھا، ٹیکسی لے کر وہاں پہنچے تو ٹیکسی ڈرائیور نے کہا تین ہزار لیرے کرایہ ہے۔ ہم نے تین ہزار لیرے اسے دیے۔ اسی ڈائیور سے پوچھا کوئی مناسب سا پاکستانی ہوٹل بتا دیں۔ اس نے بتایا ، ہم وہاں ایک دن رہے ، پندرہ ہزار لیرے انہوں نے لے لیے۔ شام کو ہم سمندر کے کنارے تھوڑی دیر سیر کے لیے گئے، وہاں ابلی ہوئی مکئی کی چھلیاں دیکھیں، پانچ سو لیرے کی چھلی لی۔ رات کو ایک ہوٹل میں ہم پانچ آدمیوں نے کھانا کھایا تو دس ہزار لیرے انہوں نے لے لیے۔ اگلے دن جب ایئر پورٹ پر واپس پہنچے تو ہمارے پاس لیرا کوئی نہیں تھا، دوچار ڈالر پاس تھے ان سے ہم نے کام چلایا۔ اب تو خیر ان کی کرنسی ٹھیک ہو گئی ہے، لیکن میں نے اتنی ہلکی کرنسی زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔ وہاں یہ ہوا کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار پر تو حاضری ہو گئی، لیکن مصحف عثمانی کی زیارت نہیں کر سکے، کیونکہ توپ کاپی میوزیم مرمت کے لیے ایک ہفتہ کیلئے بند تھا۔ ہماری ایک غرض پوری ہو گئی اور دوسری پوری نہ ہو سکی۔
اس کے بعد ہم لندن پہنچے، ایئر پورٹ پر انٹرویو ہوا، انٹری ہوئی۔ وہاں سے باہر نکلے تو ایک لطیفہ ہوا۔ آپ کو پتہ ہے کہ میں نے انگریزی پڑھی ہے نہ جانتا ہوں۔ پڑھ سکتا ہوں، نہ بول سکتا ہوں اور نہ سمجھ سکتا ہوں۔ چھوٹے چھوٹے لفظ جوڑ کر کوئی مطلب نکالتا ہوں۔ ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو وہاں جگہ جگہ ٹولیٹ (to-let) لکھا ہوا نظر آیا۔ میں اسے اپنے جوڑ کر کے ٹوائلٹ پڑھ رہا تھا۔ میں حیران تھا کہ یہاں اتنے زیادہ ٹوائلٹ ہیں، یہ اتنا کھاتے ہیں۔ میں نہ رہ سکا اور پوچھا کہ یہاں جگہ جگہ ٹوائلٹ بنے ہوئے ہیں؟ ہر دکان پر لکھا ہوا ہے ٹوائلٹ۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ ٹوائلٹ نہیں ہے، ٹولیٹ ہے۔ یہ کرائے کیلئے بورڈ لگے ہوئے ہیں۔
ہم کانفرنس سے ایک مہینہ پہلے پہنچے تھے۔ الحمد للہ ہم نے کانفرنس کے لیے محنت کی، پورا برطانیہ گھوما، چھوٹے چھوٹے جلسے کیے۔ جمعیت علمائے برطانیہ کے مولانا قاری تصور الحق اور مولانا عبد الرشید ربانی ہمارے ساتھ تھے۔ الحمد للہ ہم نے ویمبلے ہال میں اگست کے دوران کانفرنس کی۔ وہاں دو چار ہزار کا اجتماع بہت بڑا جلسہ شمار ہوتا ہے۔ اس کانفرنس میں پورے برطانیہ سے پانچ ہزار علماء اکٹھے ہوئے اور ہم نے کانفرنس کا آغاز کیا۔ ویمبلے کانفرنس سینٹر لندن میں یہ پہلی کانفرنس انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے حوالے سے ہوئی۔ اس سے اگلے سال دوسری کانفرنس ہوئی۔ اس میں بھی میں گیا تھا۔ میں دو سال لندن میں بغیر ویزے کے گیا ہوں، تیسرے سال ویزہ کی پابندی ہو گئی تھی۔
میں تو فقیر آدمی ہوں، مجھے راولپنڈی جانا ہو تو سوچتا ہوں کہ کیا کرنا ہے تو لندن اور امریکہ کا سفر کا کیا حال ہو گا؟ ابتدائی آٹھ دس سال جب تک میں عادی نہیں ہو گیا میرے ٹکٹ وغیرہ کا سارا خرچہ حضرت مولانا میاں اجمل قادری صاحب دامت برکاتہم برداشت کرتے تھے۔ پہلی کانفرنس تو مذکورہ بالا بزرگوں کے کھاتے میں تھی۔ اب بھی جو کام کرتا ہوں بحمد اللہ کسی نہ کسی کھاتے میں ہی کرتا ہوں۔ اس سے اگلے سال ۱۹۸۶ء میں جب دوسری دفعہ گیا ہوں تو پروگرام اتنا ہی تھا کہ کانفرنس میں شریک ہو کر واپس آ جانا ہے۔ میں جمعہ پڑھا کر گیا اور اگلا جمعہ واپس آ کر پڑھایا۔ دو تین دن وہاں رہا اور واپس آ گیا۔ میرا معمول تھا کہ بیرون ملک جہاں کہیں جاتا ، حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو مل کر جاتا تھا۔ اس موقع پر لطیفہ یہ ہوا کہ میں نے سوچا چار پانچ روز میں واپس آ جانا ہے تو والد صاحب کو نہیں ملا۔ جب واپس آیا تو حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو پتہ چل چکا تھا کہ لندن گیا ہوا ہے۔ جب ملا تو فرمانے لگے تم کہیں گئے ہوئے تھے؟ میں شرمندہ تھا کہ مل کر اور بتا کر نہیں گیا تھا، اس لیے میں نے کہا بس ادھر ذرا لندن تک گیا تھا۔ والد صاحبؒ نے کہا بڑے بیوقوف ہو، لندن گئے تھے یا کھوکھرکی گئے تھے۔ میں نے کہا گیا تو لندن ہی تھا۔
واپسی پر ایک اور لطیفہ ہوا۔ میرا بیگ ہلکا سا ہوتا ہے جس میں دو چار جوڑے کپڑے ، ایک آدھ فائل اور ایک دو کتابیں ہوتی ہیں۔ بیرون ملک جاؤں تب بھی یہی کچھ سامان ہوتا ہے۔ اس زمانے میں گرین چینل اور ریڈ چینل ہوتا تھا۔ بیرون ملک سفر سے واپسی پر سامان چیک ہوتا تھا، جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا وہ گرین چینل سے بغیر چیکنگ آ جاتا تھا۔ میرے پاس ہلکا سا بیگ ہی تھا۔ میں کراچی میں جہاز سے اترا، انٹری لگوائی اور گرین چینل سے باہر آنے لگا۔ ایک افسر مجھے دیکھ کر کہنے لگا مولوی صاحب! کہاں سے آ رہے ہیں؟ میں نے کہا لندن سے آ رہا ہوں۔ اس نے پوچھا سامان کدھر ہے؟ میں نے کہا یہی سامان ہے ایک بیگ میں۔ اس نے پھر پوچھا سامان ؟ میں نے کہا یہی ہے۔ اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ لندن سے آ رہا ہے اور اس کے پاس سامان نہیں ہے۔ کہنے لگا لندن کیا لینے گئے تھے؟ میں نے کہا میں شاپنگ کرنے نہیں گیا تھا، کانفرنس میں گیا تھا۔ وہاں چند دن رہ کر واپس آ گیا ہوں۔
اسی ۱۹۷۶ء کے سفر کا ایک اور لطیفہ ذکر کرتا ہوں۔ اس کے بعد میں پچیس سال مسلسل برطانیہ جاتا رہا ہوں۔ میری ہیتھرو کی انٹریاں پچیس کے لگ بھگ ہیں، لیکن اب وہ مجھے ویزہ نہیں دے رہے۔ اب تو ویزا ہوتا ہے، شروع میں ویزہ نہیں ہوتا تھا، صرف انٹرویو ہوتا تھا۔ ہم نے دو چار جملے رٹے ہوئے تھے کہ وہ یہ سوال کریں تو ہم نے یہ جواب دینا ہے۔ مثلاً ”آئی ایم پریسٹ فار ریلیجس کانفرنس “ میں مذہبی رہنما ہوں، مذہبی کانفرنس کیلئے آیا ہوں۔ یہ سبق یاد کرتے ہوئے کاؤنٹر پر پہنچا، تو وہاں لمبا تڑنگا انگریز افسر کھڑا تھا۔ میں جا کر اس کے سامنے کھڑا ہوا۔ اس نے میرا پاسپورٹ دیکھا اور ٹھیٹھ پنجابی میں کہنے لگا ”تسی کتھوں آئے او؟ “ گویا میرے سر پر بم پھٹ گیا۔ میں نے کہا پاکستان سے۔ اس نے کہا کونسے شہر سے؟ میں نے کہا گوجرانوالہ۔ کہنے لگا وہ جو لاہور کے قریب ہے؟ میں نے کہا ہاں جی۔ (سب باتیں پنجابی میں ہوئیں) میں نے کہا آپ پنجابی بڑی اچھی بولتے ہیں۔ اس نے کہا تھینک یو، تھینک یو، میں نے پنجاب یونیورسٹی میں پنجابی میں ایم اے کیا ہے۔ میں لاہور تین سال رہا ہوں، اور گوجرانوالہ بھی دیکھا ہے۔ اس نے پوچھا یہاں کتنے دن رہنا ہے؟ میں نے کہا دو ہفتے۔ کہنے لگا مہینے کا ٹھپہ لگا دوں میں نے کہا لگا دیں۔ اس پنجابی مکالمہ کے بعد تین چار گھنٹے تک میرا دماغ گھومتا رہا کہ یہ آج کیا ہوا، میرا یاد کیا ہوا سارا ہی سبق ختم ہو گیا۔
میں آپ حضرات کو ایک بات بتاتا ہوں کہ اگر ٹریول ایجنٹ واقف ہو تو بڑے راستے نکال لیتا ہے۔ مولانا چنیوٹیؒ کا ایک عقیدت مند فیصل آباد میں ٹریول ایجنٹ تھا۔ اس نے ہمیں کہا کہ ویسے تو آپ کا خرچہ ہو گا، اس لیے میں آپ کو ایک طریقہ بتاتا ہوں کہ میں آپ حضرات کو جانے کے لیے ٹکٹ دے دیتا ہوں، واپسی کا ترکش ایئر لائن کا لاہور سے لاہور واپسی کا گیارہ ہزار کا ٹکٹ ہے۔ اگر آپ جا کر مجھے واپس کر دیں بشرطیکہ بیس دن کے اندر اندر مجھے واپس مل جائے تو آپ کی آدھی رقم واپس دلوا دوں گا۔ آپ کو ٹکٹ ساڑھے پانچ ہزار روپے کا پڑ جائے گا، میں رقم ریٹرن کر دوں گا۔ واپسی پر آپ نے حج بھی کرنا ہے، اوپن مارکیٹ میں جو ٹکٹ سستا ملا، لے لینا۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ ہم نے جاتے ہی ٹکٹ واپس کر دیا اور ہمیں واپسی پر ساڑھے پانچ ہزار روپے واپس مل گئے ، یوں وہ ٹکٹ ہمیں ساڑھے پانچ ہزار روپے میں پڑا۔
واپسی پر ہم نے حج کیا، ہمیں مصری ایئرلائن سستی ملی۔ لندن سے قاہرہ، قاہرہ سے جدہ، جدہ سے کراچی، کراچی سے لاہور، ہمیں ساڑھے آٹھ ہزار میں پڑی۔ ٹوٹل چودہ ہزار خرچ ہوئے۔ شاید کچھ تھوڑا بہت ہم نے خرچہ کیا ہو، لیکن الحمد للہ ہم ہر جگہ مہمان ہوتے ہیں اور باوقار مہمان ہوتے ہیں۔ نہ حج پر کچھ خرچ ہوا، اور نہ برطانیہ میں کچھ خرچ ہوا۔ اس پر بھی ایک لطیفہ ذکر کرتا ہوں۔
میرا بار بار امریکہ برطانیہ آنا جانا رہتا تھا۔ ساتھی سوچتے کہ یہ درویش، فقیر آدمی ہے۔ یہ امریکہ جاتا کیسے ہے، وہاں ٹھہرتا کیسے ہے۔ وہاں قیام، طعام اور ٹرانسپورٹ کا بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ ہمارے دو دوست میاں محمد رفیق صاحب اور شیخ محمد اشرف صاحب ( دونوں وفات پا چکے ہیں) مجھے کہنے لگے مولوی صاحب! آپ کیا کرتے ہیں؟ کیسے اتنے اخراجات برداشت کر لیتے ہیں؟ میں نے کہا کبھی ساتھ چل کر دیکھ لیں کہ کیا ہوتا ہے۔ دونوں شہر کے بڑے صنعت کار تھے، دونوں تیار ہو گئے کہ ہم آپ کے ساتھ چلیں گے۔ میں ایک بات اور سمجھا کہ شاید ان کے دل میں یہ شک ہے کہ یہ وہاں چندے کرتا ہے۔ میں نے کہا چلیں ان کا یہ شک بھی دور ہو جائے گا۔ الحمد للہ میں نے امریکہ، برطانیہ، ہانگ کانگ، جنوبی افریقہ، کینیا سمیت آٹھ دس ممالک کے تیس سے زیادہ سفر کیے ہیں، مگر کبھی بھی میرے بیگ میں رسید بک نہیں رہی۔ ان ممالک کا کوئی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے انہیں کسی چندے کے لیے کہا ہو۔ البتہ میں اپنے بے تکلف دوستوں سے چندہ کر لیتا ہوں ،گوجرانوالہ کا کوئی ساتھی مل جائے تو اسے نہیں چھوڑتا۔ یہاں کے بے شمار لوگ وہاں رہتے ہیں کوئی بے تکلف دوست جہاں مل جائے میں کہتا ہوں فلاں کام ہے پیسے نکالیں، ان سے اپنی مرضی کے پیسے لیتا ہوں لیکن الحمد للہ آج تک کبھی میرے پاس رسید بک نہیں ہوئی۔ وہاں کے لوگوں کو ڈر ہوتا ہے کہ مولوی صاحب آئے ہیں، چندہ کریں گے، لیکن میرا نام سن کر بڑے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں حضرت! آپ یہاں دس دن رہیں۔ میرے لیے مہمان خانہ بھی حاضر ہوتا ہے، گاڑی بھی حاضر ہوتی ہے اور کھانا بھی حاضر ہوتا ہے۔ انہیں تسلی ہوتی ہے کہ اس نے ہمیں تنگ نہیں کرنا۔ میں نے دونوں دوستوں سے کہا ٹھیک ہے، ساتھ چلیں، اور جا دیکھ لینا۔ اگر کوئی شک ہے تو اسے دور کر لینا۔ ہم یہاں سے برطانیہ گئے ،ایک ہفتہ برطانیہ رہے اس کے بعد دو ہفتے امریکہ رہے۔ الحمد للہ ایئر پورٹ پر ساتھی آ جاتے ہیں، ساتھ لے جاتے ہیں، ٹھکانہ مل جاتا ہے۔ ٹرانسپورٹ، کھانا اور رہائش سب کچھ مفت کا ہوتا ہے۔
اس زمانے میں یہاں سے سفر کے لیے جاتے ہوئے ٹریول چیک لینے پڑتے تھے، پابندی ہوتی تھی کہ تمہارے پاس ڈالر ہونے چاہئیں۔ میں نے میاں محمد رفیق صاحب کے ذریعے ہی ڈیڑھ دو سو ڈالر کا ٹریولر چیک نکلوایا کہ ضرورت پڑی تو استعمال کر لیں گے۔ ہم ہفتہ دس دن برطانیہ اور دو ہفتے امریکہ میں رہ کر واپس آئے۔ دونوں دوست ساتھ ساتھ دیکھ رہے تھے کہ کیا کرتا ہے؟ میں نے کیا کرنا تھا، وہاں تو سب کچھ ہو رہا تھا۔
تیس پینتیس سال کے سفروں میں ایک موقع ایسا آیا ہے کہ مجھے اٹلانٹا میں ایک رات ہوٹل میں رہنا پڑی، وہ بھی میری غلطی کی وجہ سے کہ جس دوست نے مجھے لینے آنا تھا میں اسے فلائٹ کا نمبر صحیح نہیں بتا سکا تھا۔ جو نمبر بتایا تھا وہ فلائٹ صبح آنی تھی، وہ ساتھی دیکھتا رہا اور کئی گھنٹے تلاش کر کے مایوس ہو کر واپس چلا گیا، میری فلائٹ شام کو پہنچی، اس وقت وہ گھر چلا گیا تھا، اور وہ وہاں سے چار سو میل دور رہتا تھا۔ وہ رات مجھے ایک ہوٹل میں رہنا پڑی۔ یہ میرا زندگی میں پہلا تجربہ تھا کہ میں نے کسی ہوٹل میں رات گزاری ہے ، ورنہ الحمد للہ زندگی بھر کبھی ہوٹل کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
جب ہم واپس آئے تو میاں محمد رفیق صاحب سے میں نے کہا کہ یہ ٹریول چیک واپس کر دیں۔ کہنے لگے خرچ نہیں ہوئے؟ میں نے کہا نہیں، میرے کہاں خرچ ہونے تھے۔ یہ واپس کر دیں اور میرے پیسے مجھے دلوائیں، میں یہ قرضہ لے کر گیا تھا۔ اس پر میاں صاحب نے کہا کہ زاہد صاحب! آپ جہاں جاتے ہیں آپ کو تو صرف ٹکٹ ہی پڑتا ہو گا؟ میں نے کہا ”بھلیکا ہی رہن دیو“ (مغالطہ ہی رہنے دو)۔
یہ سب دین کی برکات ہیں۔ میں نے دین کی برکات وہاں وہاں اور ایسی ایسی دیکھی ہیں کہ ہم تصور نہیں کر سکتے۔ یہ میرے برطانیہ کے پہلے سفر کی تھوڑی سی روداد ہے۔ امریکہ کا پہلا سفر بھی ختم نبوت کے حوالے سے تھا، اور بڑا دلچسپ سفر تھا۔ اس کی روداد اگلی نشست میں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔