سنی شیعہ کشیدگی کی آڑ میں!

   
۳۰ مارچ ۱۹۹۸ء

ہم ایک عرصہ سے اس بات پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے اسباب و عوامل، اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں اشتعال و خانہ جنگی کا عنصر شامل ہونے کے محرکات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے عدالت عظمیٰ کے کسی جج کی سربراہی میں عدالتی انکوائری کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیے جس میں فریقین اور حکومت کے ذمہ دار افراد بھی شامل ہوں، اور وہ کمیشن صورت حال کا جائزہ لے کر اسباب و عوامل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اصلاح احوال کے لیے اقدامات بھی تجویز کرے۔

اس دہشت گردی اور اشتعال انگیز فرقہ واریت کے ہاتھوں عبادت گاہوں کا امن تباہ ہوگیا ہے، سینکڑوں افراد جن میں اعلیٰ درجہ کی علمی شخصیات بھی شامل ہیں اس کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں، اور اس میں رکاوٹ کے سردست کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ یہ اشتعال انگیزی ابتدا میں سنی شیعہ حوالہ سے شروع ہوئی جس میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور سپاہ صحابہ پاکستان متحارب فریقوں کی صورت میں سامنے آئیں، پھر ان میں سپاہ محمد اور لشکر جھنگوی کے نام آئے، دونوں انتہا پسند گروپ نکلے اور مزید آگے بڑھتے چلے گئے۔ اس دوران اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ اور عناصر بھی متحرک ہوگئے ور باہم قتل و قتال کا معاملہ وسیع تر ہوتا گیا۔

ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سنی شیعہ کشمکش اور مسلح تصادم میں خارجی محرکات زیادہ دخل انداز اور حاوی ہوتے جا رہے ہیں۔ اب حالات اس نقطہ کے قریب پہنچ چکے ہیں جہاں دونوں اصل فریق ’’بے بس آلۂ کار‘‘ کے طور پر خارجی محرکات کے ہاتھوں استعمال ہونے کے سوا کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ ان خارجی عوامل میں بین الاقوامی ایجنسیوں کا حوالہ تو خود حکومت کے ذمہ دار حضرات بھی دے رہے ہیں، لیکن ان کے علاوہ کچھ مقامی نوعیت کے عوامل بھی ہیں جن کے شواہد دھیرے دھیرے سامنے آرہے ہیں۔

یہ امر واقعہ ہے کہ سوسائٹی کے ایسے غنڈہ عناصر کی اچھی خاصی تعداد نے، جن کا پیشہ ہی غنڈہ گردی ہے، ان دونوں کیمپوں کو پناہ گاہ بنا لیا ہے اور ان کی چھتریوں تلے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں انہیں بدستور آسانی محسوس ہو رہی ہے۔ ان کے علاوہ ذاتی انتقام اور خاندانی جھگڑوں کے لیے بھی اس ’’شیلٹر‘‘ کو استعمال کیا گیا ہے۔ ان سب عوامل نے مل کر فرقہ واریت کو ایک مہیب دیو کی شکل دے ڈالی ہے جسے قابو میں لانے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی۔ اس ضمن میں دو تین واقعات کا تذکرہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جن سے ان عناصر کا چہرہ پہچاننے میں مدد مل سکتی ہے جو سنی شیعہ کشیدگی کی آگ کو ایندھن فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔

ایک واقعہ تو ملک کے معروف عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مہتمم دارالعلوم کورنگی کراچی نے کچھ عرصہ قبل جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں ’’استحکام پاکستان کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے بیان کیا۔ واقعہ یوں ہے کہ رات کے گیارہ بجے کے لگ بھگ ایک گاڑی دارالعلوم کورنگی کراچی کے سامنے سے گزری اور گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے دارالعلوم کے مین گیٹ پر فائرنگ کر دی جس سے ایک طالب علم شدید زخمی ہوگیا۔ اس کے تقریباً نصف گھنٹہ بعد ایک امام بارگاہ پر فائرنگ ہوئی جس سے غالباً ایک شخص جاں بحق ہوا، یہ فائرنگ بھی ایک گزرتی ہوئی گاڑی سے ہوئی تھی۔ جب پولیس نے اس گاڑی کو ٹریس کیا تو وہ ایک ہی گاڑی تھی جس کے سواروں نے دونوں جگہ فائرنگ کی تھی۔

دوسرا واقعہ لاہور کا ہے اور اس سال عید الفطر کے دو تین روز بعد کا ہے۔ لاہور کینٹ کے علاقہ میں ’’کماہاں‘‘ نامی ایک گاؤں ہے جہاں ’’مدرسہ ختم نبوت‘‘ کے نام سے سنی دینی درسگاہ تعمیر ہو رہی ہے اور اس میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ مدرسہ کے بانی اور منتظم قاری غلام سرور رشیدی ایک باہمت اور مستعد نوجوان تھے جنہوں نے محنت کر کے اس درسگاہ کو آباد کیا اور اس کی تعمیر میں مصروف تھے۔ ان کا تعلق دیوبند مسلک سے تھا اور وہ عید الفطر کے دو روز بعد قتل ہوگئے۔ قریب میں ایک شیعہ کارخانہ دار سے ان کا کسی بات پر تنازعہ بھی تھا۔ اور اگر قاتل موقع پر نہ پکڑا جاتا اور جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ قتل اس شیعہ کارخانہ دار پر پڑنا لازمی تھا۔ اور پھر اس علاقہ میں سنی شیعہ تصادم کی جو لہر اٹھتی اس کے نتائج کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مگر خدا کی قدرت کہ قاتل موقع پر پکڑا گیا جو خود قاری غلام سرور رشیدی شہید کا اپنا نائب تھا اور مدرسہ کے انتظام میں ان کا معاون تھا۔ اس نے قاری صاحب کو جس وقت گولی ماری اس وقت عید کی چھٹیوں کی وجہ سے مدرسہ میں صرف تین افراد موجود تھے۔ ایک شہید قاری صاحب، دوسرا وہ قاتل نائب، اور تیسرا ایک نوجوان طالب علم۔ اس شخص نے قاری صاحب کو، جو چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی، اچانک گولی مار دی جو سیدھی دل پر لگی۔ آواز سن کر دوسرے کمرے سے نوجوان طالب علم آگیا۔ قاتل نے اس کو بھی گولی مارنا چاہی مگر فائر مس ہوگیا، وہ نوجوان ہوشیار اور باہمت تھا، اس نے چھلانگ لگا کر قاتل کو بازوؤں میں جکڑ لیا اور شور مچا دیا جس پر اردگرد سے لوگ جمع ہوئے اور قاتل کو پکڑ لیا۔ ورنہ ایک دینی درسگاہ کے منتظم اور طالب علم کا قتل قریب کے شیعہ کارخانہ دار پر پڑتا اور یہ نائب خود کسی مناسب طریقہ سے ظاہر ہو کر مدرسہ کا منتظم اور کیس کا مدعی بن جاتا۔

تیسرا واقعہ چنیوٹ کا ہے۔ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی آبائی رہائش گاہ والی گلی میں ان کے مکان کے بالکل قریب ’’دربار شاہ ملنگ‘‘ کے نام سے ایک چھوٹی سی امام بارگاہ ہے، جبکہ محلہ میں شیعہ آبادی صرف دو چار گھروں پر مشتمل ہے۔ اس امام بارگاہ کے ساتھ کچھ خالی جگہ بھی ہے جہاں ایک بہت بڑا شیعہ مرکز بنانے کے لیے کویت کے کسی شخص نے کروڑوں روپے کی رقم فراہم کر دی۔ مولانا چنیوٹی اس میں رکاوٹ بن گئے کہ محلہ میں ان کے گھر کے بالکل سامنے اور مسجد کے بالکل قریب اتنا بڑا شیعہ مرکز مستقل جھگڑے کا باعث ہوگا۔ اس لیے یہ مرکز اگر ضروری ہو تو باہر کسی کھلی جگہ بنایا جائے اور محلہ کے پر امن ماحول کو خراب نہ کیا جائے۔ اس پر تنازعہ ہوا، کشیدگی خاصی بڑھی، ضلعی انتظامیہ کو درمیان میں آنا پڑا، اور بالآخر مولانا چنیوٹی اپنا موقف منوانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس پس منظر میں ۲۲ فروری کو ’’دربار شاہ ملنگ‘‘ کا متولی قتل ہوگیا۔ اب ظاہر بات ہے کہ یہ قتل مولانا منظور احمد چنیوٹی کے کھاتے میں پڑنا تھا، اور سچی بات ہے کہ جب مجھے اس واقعہ کا علم ہوا تو بے حد پریشانی ہوئی کہ مولانا چنیوٹی بہت بڑی آزمائش میں آگئے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض شیعہ لیڈروں نے پریس کانفرنس کر کے مولانا منظور احمد چنیوٹی، ان کے بیٹے مولانا الیاس چنیوٹی، اور رفیق کار مولانا عبد الوارث کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کر دیا۔ مگر مولانا منظور احمد چنیوٹی کی کوئی نیکی کام آگئی اور قاتل موقع پر پکڑا گیا جو خود شیعہ ہے اور اس کا مقتول کے ساتھ اسی دربار کی تولیت کا جھگڑا چل رہا تھا۔ اس نے متولی کو قتل کر کے بھاگنے کی کوشش کی مگر محلہ داروں نے گھیر لیا اور اسے پکڑ کر ہتھیار سمیت پولیس کے حوالے کر دیا۔ پنجاب کے ایک بڑے انتظامی افسر نے خود مولانا چنیوٹی سے کہا کہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ قاتل موقع پر پکڑا گیا ہے ورنہ یہ پھندا آپ کے گلے میں فٹ ہونا تھا۔

ان واقعات سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سنی شیعہ کشیدگی کی آڑ میں ملک میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ اس لیے ہم ایک بار پھر وزیراعظم پاکستان سے گزارش کریں گے کہ ان حالات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کے لیے ’’اعلیٰ سطحی عدالتی انکوائری کمیشن‘‘ کے قیام میں تاخیر نہ کی جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter