’’ابراہیمیّت‘‘ کی دعوت اور اسلامی تعلیمات

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۱۶ مئی ۲۰۲۵ء

(۱۸ ذوالقعدہ ۱۴۴۶ھ کا خطبہ جمعۃ المبارک)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بزرگانِ محترم، برادرانِ اسلام، قرآنِ مقدس کی ایک آیت کریمہ تلاوت کی ہے، مختصر وقت کے اندر اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں کچھ ضروری باتیں عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ اللہ جل جلالہ و عم نوالہٗ کی بارگاہ میں دعا فرمائیں کہ اللہ رب العزت مجھے صحیح صحیح سے عرض کرنے کی، آپ حضرات کو صحیح صحیح سننے کی، مجھے آپ کو، سب مسلمان بلکہ انسانوں کو صحیح بات سمجھنے، قبول کر لیں اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں (آمین)۔

ہمارے ملک اور خطے کے علاقے کے حالات جیسے ہیں وہ آپ سب کے سامنے ہیں۔ لیکن اس دوران ایک اہم واقعہ ہوا ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کیا ہے اور اس سے صورتحال میں جو تبدیلی آ رہی ہے اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ہم تو کافی عرصہ سے پڑھ رہے ہیں لیکن یہ بات اب منظر عام پر آ رہی ہے جسے ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کہتے ہیں اور اس پر امریکہ کا صدر سعودی عرب کو دعوت دے رہا ہے کہ تم بھی اس میں شامل ہو۔ یہ کیا ہے؟

قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تذکرے میں تفصیل سے یہ بات ذکر کی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کیونکہ بنی اسرائیل کے بھی باپ بھی ہیں، بنی اسماعیل کے باپ بھی ہیں، اللہ پاک نے ان کو یہ اعزاز بخشا تھا، قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے ’’واذ ابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمات فاتمہن قال انی جاعلک للناس اماما‘‘ (البقرۃ ۱۲۴) ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو بہت سی آزمائشوں میں ڈالا، وہ پورے اترے، ہم نے ان سے کہا کہ ہم آپ کو نسلِ انسانی کی امامت عطا فرمائیں گے۔

یہ نسلِ انسانی کی امامت کیا ہے؟ تمام مذاہب کا سر چشمہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات ہے۔ بیت اللہ بھی ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی دعا ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے کی تھی کہ ’’ربنا وابعث فیہم رسولاً‌‘‘ (البقرۃ ۱۲۹) یا اللہ! ہماری اولاد میں ایک رسول پیدا کر۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں ’’انا دعوۃ ابی ابراہیم و بشریٰ عیسیٰ‘‘ میں اپنے دادا جی ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ ہوں اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا نتیجہ ہوں۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام، جن کا لقب اسرائیل ہے، وہ ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ ان سے بنی اسرائیل پھر آگے چلی، تورات، انجیل، زبور، موسیٰ علیہ السلام، داؤد علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام، یہ سارے نبی انہی میں آئے ہیں۔ یہ دونوں خاندان جو دنیا کے بڑے مذہبی خاندان تھے ان دونوں کے دادا جی ابراہیم علیہ السلام تھے۔ ایک پہلو تو یہ ہے۔

اللہ رب العزت نے ابراہیم علیہ السلام کو جو عظمت عطا فرمائی ہے قربانیوں پر پورا اترنے کے نتیجے میں، اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ میں مبعوث ہوئے اور آپ کو نبوت ملی تو نبی کریمؐ کو اپنے پہلے دائرہ جزیرۃ العرب میں جن مذاہب سے سامنا تھا، وہ سارے خود کو ابراہیمی کہتے تھے ۔ سب سے پہلا سامنا مکہ کے مشرکین سے ہوا، وہ کہتے تھے ہمیں ابراہیمی ہیں۔ نجران میں عیسائی تھے، وہ کہتے تھے ہم ابراہیمی ہیں۔ مدینہ منورہ میں اور خیبر میں یہودی تھے، وہ کہتے تھے ہم ابراہیمی ہیں۔ اور کچھ صابئین بھی تھے، وہ بھی کہتے تھے کہ ہم ابراہیمی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تئیس سالہ نبوی زندگی میں جن قوموں کا سامنا کرنا پڑا وہ خود کو ابراہیمی کہتے تھے۔

اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں دو ٹوک الفاظ میں تینوں کے دعوے کی تردید کی، فرمایا ’’ماکان ابراہیم یہودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلماً‌ و ماکان من المشرکین‘‘ (اٰل عمران ۶۷) ابراہیم علیہ السلام یہودی بھی نہیں تھے، عیسائی بھی نہیں تھے، مشرک بھی نہیں تھے، موحد مسلمان تھے۔ قرآن مجید نے اس کی ایک واقعاتی ترتیب بھی بیان کی ہے تمہارے مذہب تو بعد میں آئے ہیں۔ یہودی مذہب کا آغاز کہاں سے ہوا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تورات سے۔ عیسائی مذہب کا آغاز کہاں سے ہوا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل سے۔ فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام تو دو ہزار سال پہلے گزرے ہیں، ان کو یہودی کیسے بنا دیا تم لوگوں نے؟ اور عیسائی تو اس سے بھی دو ہزار سال بعد میں آئے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ تم نے پہلے آنے والی شخصیت کو بعد والے مذاہب کے ساتھ کیسے نتھی کر دیا۔

اللہ رب العزت نے ایک اور انداز میں یہ بات فرمائی ’’ان اولی الناس بابراہیم للذین اتبعوہ وہذا النبی والذین اٰمنوا‘‘ (اٰل عمران ۶۸) ابراہیم علیہ السلام کے ساتھی وہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ان کے زمانے میں ان کی پیروی کی تھی۔ نمرود نے انکار کر دیا تھا، خاندان نے انکار کر دیا تھا، آگ میں ڈالے گئے تھے، ہجرت کرنی پڑی تھی۔ قرآن مجید نے صاف کہا کہ ابراہیم علیہ السلام کے اپنے پیروکار اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ابراہیمی ہے۔ تو قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ آیا ہے اور اس میں کوئی ابہام کوئی اشکال نہیں ہے کہ کوئی تاویل کیا جا سکے۔

جو دعوت اب دی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں جو پیغمبر اور مذاہب ہیں وہ سب ٹھیک ہیں، سب ابراہیمی ہیں۔ ۱۹۷۰ء میں ایک بڑی بین الاقوامی کانفرنس طرابلس میں ہوئی تھی، اس میں یہ نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت کہتے ہیں ’’ہو سماکم المسلمین‘‘ (الحج ۷۸) تمہارا نام مسلمان ابراہیم علیہ السلام نے رکھا تھا۔ اس آیت کو بنیاد بنا کے ایک دعویٰ کھڑا کیا گیا کہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں جتنے مذاہب ہیں سارے مسلمان ہیں۔ یہودی بھی مسلمان ہیں، عیسائی بھی مسلمان ہیں، مکہ کے مشرک بھی مسلمان ہیں۔ اسی کانفرنس میں یہ جواب آیا کہ نہیں جناب یہ بات غلط ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔

اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کو بھی قرآن مجید میں یہی کہا ہے ’’یا بنی اسرآئیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم واوفوا بعہدی اوف بعہدکم وایای فرہبون‘‘ (البقرۃ ۴۰) اے بنی اسرائیل! میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کرو۔ ’’واٰمنوا بمآ انزلت مصدقاً‌ لما معکم‘‘ یہ جو قرآن مجید آیا ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں، یہ تمہاری پہلی باتوں کی اور پہلے انبیاء کی تصدیق کرتے ہیں، ان پر ایمان لاؤ۔ یہ قرآن کریم نے یہودیوں اور عیسائیوں کو دعوت دی ہے۔ ’’ولا تکونوا اول کافر بہ‘‘ (البقرۃ ۴۱) اس پیغمبر کا انکار کر کے کافر نہ بنو۔ اس کا کیا مطلب ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لایا، وہ مسلمان ہے یا کافر؟

اس پر اپنا ایک واقعہ عرض کرتا ہوں، امریکہ بہت دفعہ گیا ہوں میں، امریکہ کے شہر شکاگو میں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ اور میں ایک مرتبہ اکٹھے تھے۔ جس طرح ہمارے ہاں قادیانی نئی نبوت کے دعویدار ہیں، اس طرح ایران میں بہائی ہیں جو بہاء اللہ شیرازی کو خدا کا نبی مانتے ہیں۔ شکاگو میں بہائیوں کا ایک بڑا مرکز ہے۔ جس طرح قادیانی ہر جگہ موجود ہیں اسی طرح بہائی بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ مجھے جہاں جانے کا موقع ملتا ہے، جہاں میں پہنچ سکوں وہاں میں ضرور جاتا ہوں۔ میں نے مختلف مذاہب کے عبادت خانوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ شکاگو میں جب ہمیں پتہ چلا کہ یہاں بہائیوں کا ایک بڑا مرکز ہے تو ہم نے اپنے میزبان ریاض وڑائچ صاحب سے کہا کہ یار وہ مرکز تو دکھا دو۔ ہم تین آدمی گئے، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، ریاض وڑائچ صاحب اور میں۔ جب پہنچے اور ریسپشن پہ جب ہمارے نام آئے تو انہوں نے ہمیں پہچان لیا کہ ہم کون لوگ ہیں۔ پھر پورے پروٹوکول کے ساتھ ہمیں وزٹ کرایا، بہرحال یہ مہمان داری تو ہوتی ہے۔

جو منظر بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑا ہال تھا، یوں سمجھ لیں کہ ہمارے جامعہ انوار العلوم اور جامع مسجد کو ملا کر اتنا بڑا ہال تھا جس میں کوئی ستون یا دیوار نہیں تھی۔ اس ہال کے اندر چھ عبادت خانے انہوں نے بنا رکھے تھے۔ مکے کی جانب ایک مسجد ہے، چٹائیاں بچھی ہوئی ہیں، منبر پڑا ہوا ہے، الماریاں ہیں، قرآن مجید ہیں، پورے مسجد کے ماحول کے ساتھ۔ ایک کونے میں چرچ ہے، ایک کونے میں یہودیوں کو سینیگال ہے، ایک طرف مندر ہے اور درمیان میں سکھوں اور بدھوؤں کے عبادت خانے ہیں۔ ایک چھت کے نیچے چھ عبادت خانے اپنی اصلی حالت میں موجود تھے۔

ہمیں دکھایا انہوں نے اور بتایا کہ ہم صرف سروس مہیا کرتے ہیں اور ہم سارے مذہبوں کو سچ سمجھتے ہیں۔ یہ بھی سچا ہے، یہ بھی سچا ہے، یہ بھی سچا ہے، یہ بھی سچا ہے، ہم نے سب کو سہولت خراب کر رکھی ہے کہ مسلمان آکر مسجد میں نماز پڑھیں اور قرآن مجید کی تلاوت کریں۔ ہندو آئیں اور مندر میں بت کی عبادت کریں، بت بھی ہم فراہم کریں گے۔

بڑے غور سے ہم نے دیکھا، واپس آتے ہوئے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ مولانا کیسا محسوس کیا آپ نے؟ میں نے کہا، یار محنت کی تو میں داد دیتا ہوں، لیکن مجھے ایک بات سمجھا دو کہ مسجد کے ایک خدا اور چرچ کے تین خداؤں کو آپ لوگوں نے کیسے اکٹھا کر لیا ہے؟ اِدھر مسجد سے اُدھر چرچ میں جاتے ہوئے ایک سے تین خدا کیسے ہو جاتے ہیں؟ اور پھر ہندوؤں کے تو ہزاروں خدا ہیں۔ یہ آپ نے کیسے کر لیا۔ کہنے لگے، چھوڑیں یہ فلسفے کی باتیں ہیں۔ میں نے کہا، یہ فلسفے کی نہیں عقیدے کی بات ہے۔

اور ابھی ابوظہبی میں نیا ’’بيت العائلۃ الابراہيمیۃ‘‘ بنا ہے، خاندانِ ابراہیم کا گھر۔ اب اس کی طرف دعوت دی جا رہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ صاحب نے سعودیہ سے کہا ہے کہ تم بھی آؤ، مسجد کی امامت تم سنبھالو۔ سعودیہ ابھی تک اس طرف نہیں آ رہا اور سعودیہ کی علماء کونسل نے کہا ہے کہ یہ کفر ہے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سب سے پہلا عقیدہ یہی دیا ہے، جب صفا پہاڑی پہ کھڑے ہو کر چادر ہلائی تھی، مکے والے جمع ہوئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلی آواز یہی لگائی تھی ’’یا ایہا الناس قولوا لا الٰہ الا اللہ تفلحون‘‘ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرو، کامیابی کا راستہ یہی ہے۔ سب سے پہلا سبق ہمیں توحید کا پڑھایا گیا ہے اور یہ سب سے پہلا عقیدہ ہے۔ میں نے عرض کیا کہ جو بات آپ کر رہے ہیں اس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیشکش ہوئی تھی۔

قریش کے سرداروں کا ایک گروپ آیا تھا جب جناب ابو طالب ابھی حیات تھے، ان سے کہا گیا تھا کہ اپنے بھتیجے سے ہماری بات کروا دو۔ انہوں نے بات کروائی تھی اور ان کی پیشکش بھی یہی تھی ہم اکٹھے رہتے ہیں اور سب ابراہیمی ہیں۔ آپ اللہ کی بات کریں لیکن ہمارے بتوں کو کچھ نہ کہیں۔ آپ اللہ کی عبادت کریں، ہم آپ کے ساتھ شریک ہوں گے، ہم اپنے بتوں کی عبادت کریں گے، آپ ہمارے ساتھ شریک ہوں۔ یہ قریش کے سرداروں کی طرف سے باقاعدہ پیشکش ہوئی تھی۔ آج کی زبان میں ’’اتحاد بین المذاہب‘‘ کہ سب مذہب ٹھیک ہیں ۔

اس پیشکش کا جواب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں دیا بلکہ اللہ نے دلوایا ہے۔ قرآن مجید میں پوری سورت ہے جو اس سودے بازی کا جواب ہے۔ ’’قل یا ایہا الکافرون‘‘ کافروں سے کہہ دیجیے کہ ’’ لا اعبد ما تعبدون‘‘ جن کی تم عبادت کرتے ہو، میں سوچ بھی نہیں سکتا اس میں شریک ہونے کی۔ ’’ولا انتم عابدون ما اعبد‘‘ اور ایک اللہ کی عبادت تم سے نہیں ہو گی، تم نے پتہ نہیں کتنے بت صبح سے شام تک پوجنے ہیں۔ پھر دہرایا ’’لا اعبد ما تعبدون‘‘ تمہارے بتوں کی عبادت کے لیے میں تمہارے پاس نہیں آؤں گا، اور تم بھی نہیں آؤ گے ایک اللہ کی عبادت کے لیے۔ ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ تمہارا دین تمہارے ساتھ، میرا دین میرے ساتھ۔

میں نے یہ عرض کیا ہے کہ یہ جو نیا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سب مذہب سچے ہیں، ایک اللہ کی بات بھی سچی ہے، تین خداؤں کی بات بھی سچی ہے، نو کروڑ خداؤں کی بات بھی سچی ہے۔ نہیں بھئی، دھوکہ نہیں دو۔ ایک ایک ہوتا ہے، تین تین ہوتے ہیں۔ توحید توحید ہے، شرک شرک ہے۔ یہ بہت بڑے فتنے کا آغاز ہے جو پوری دنیا میں پھیلے گا، اور پھیلانے کے لیے قیادت جناب ٹرمپ فرما رہے ہیں جو خود جا کر جگہ جگہ دعوت دے رہے ہیں کہ ابراہیمی معاہدے میں شریک ہوں۔ ہم نے کبھی یہ معاہدہ تسلیم نہیں کیا، آج بھی نہیں تسلیم کرتے اور کبھی نہیں تسلیم کریں گے۔ ابھی ہمیں اس کی دعوت نہیں ملی ، ان شاء اللہ اس کی جرأت بھی نہیں کریں گے، وہ پاکستان کو جانتے ہیں۔ لیکن میں یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ یہ دعوت کہ سارے اکٹھے ہو جاؤ اور جھگڑے چھوڑ دو، یہ کفر ہے۔ ورنہ اسلام کو الگ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ پھر ابوبکرؓ اور ابوجہل میں فرق کیا رہ جائے گا؟ اس لیے جو کچھ ہو رہا ہے غلط ہو رہا ہے، قرآن مجید کے خلاف ہو رہا ہے، اور ہم ان شاء اللہ العزیز کبھی اس فلسفے کو قبول نہیں کریں گے، اور نہ ہی پاکستان کو قبول کرنے دیں گے، ان شاء اللہ العزیز۔

2016ء سے
Flag Counter