توہین حقوق میں نہیں بلکہ جرائم میں شمار ہوتی ہے

   
جولائی ۲۰۲۵ء

ایک عرصہ سے یہ صورتحال چل رہی ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرامؓ، اہل بیت عظامؓ اور دیگر مقدس شخصیات کی توہین اور گستاخی پر احتجاج کیا جاتا ہے تو یہ کہہ کر بات کو گول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ عقیدہ کا مسئلہ ہے، آزادئ رائے کا مسئلہ ہے اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اس لیے اس پر زیادہ زور نہ دیا جائے۔ یہ سراسر مغالطہ ہے اور اسے دور کرنے کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے اس لیے کہ توہین اور ہتکِ عزت دنیا کے کسی قانون میں حقوق کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسے جرائم میں شمار کیا جاتا ہے۔

اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں توہین بلکہ اس کا باعث بننے سے بھی یہ فرما کر منع کیا ہے کہ ’’ولا تسبوا الذین یدعون من دن اللہ فیسبوا اللہ عدوً‌ا بغیر علم‘‘ (آل عمران ۱۰۸) لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو پکارتے ہیں ان کو برا بھلا نہ کہو، وہ دشمنی میں تمہارے خدا کو برا کہیں گے۔ یعنی باطل معبودوں کو برا کہنے سے ان کے ماننے والے دشمنی میں سچے خدا کو برا کہنے لگیں گے اس لیے تم اس کا ذریعہ نہ بنو۔

اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ ماں باپ کو گالی نہ دو، پوچھا گیا کہ ماں باپ کو کون گالی دیتا ہے؟ فرمایا کہ تم دوسرے کے ماں باپ کو گالی دو گے، وہ جواب میں تمہارے ماں باپ کو گالی دے گا تو تم اپنے ماں باپ کو گالی دینے کا سبب بنو گے، اس سے بچو۔

آج کی دنیا کے مسلّمہ قوانین میں بھی کسی شخص کی عزت کو مجروح کرنا بلکہ اس کی حیثیتِ عرفی کو نقصان پہنچانا دنیا کے ہر ملک کے قانون میں جرم ہے۔ ہتکِ عزت ہر قانون میں جرم ہے اور ازالۂ حیثیتِ عرفی بھی دنیا کے ہر قانون میں جرم تصور ہوتی ہے، حتیٰ کہ اس میں مقام و مرتبہ کا فرق بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ مثلاً‌ پاکستان میں ایک عام شہری کی توہین جرم ہے اور بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی توہین بھی جرم ہے، مگر دونوں میں فرق ہے۔ عام شہری کی توہین کی سزا الگ ہے اور بانئ پاکستان کی توہین کی سزا الگ ہے۔ اسی طرح حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور حضرات صحابہ کرام و اہل بیت عظامؓ کی گستاخی اور توہین بھی ان کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے اسی درجہ کا جرم بنتا ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رکھا جائے کہ مذہبی طور پر مقدس شخصیات کی توہین کے ساتھ ایک جرم اور بھی شامل ہو جاتا ہے کہ ان کی توہین خود جرم ہونے کے ساتھ ساتھ لاکھوں بلکہ ان کے کروڑوں عقیدت مندوں کی دل آزاری کا سبب بنتی ہے جو بجائے خود جرم ہے۔ اس لیے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظامؓ اور ازواجِ مطہراتؓ کی توہین دوہرا جرم بن جاتی ہے کہ مقدس شخصیات کی اہانت کے ساتھ ساتھ ان کے کروڑوں عقیدت مندوں کی دل آزاری کا باعث بن جاتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کسی طور پر بھی درست اور قرین انصاف نہیں ہے کہ توہین کو عقیدہ کہہ کر گوارا کیا جائے یا آزادئ رائے کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے، یا انسانی حقوق کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی جائے۔

توہین اور گستاخی بہرحال جرم ہے اور اسے جرم قرار دے کر ہی اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی اہانت کو آزادئ رائے اور پاکستان میں حضرات صحابہ کرام و اہل بیت عظامؓ کی توہین کو عقیدہ کی بات قرار دے کر برقرار رکھنے بلکہ فروغ دینے کی مہم جاری ہے، اور اس کی آڑ میں توہین اور گستاخی کے سنگین واقعات کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ہم تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور قانون کی تشکیل اور تنفیذ کرنے والے اداروں سے گزارش کریں گے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اس صورتحال کا ازسرنو جائزہ لیں اور توہین، گستاخی، عقیدہ اور آزادئ رائے کے معاملات کو گڈمڈ ہونے سے بچائیں۔ یہ قانونی طور پر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے بھی ضروری ہے اور ملک میں امن بحال رکھنے کا بھی بنیادی تقاضہ ہے اور اس سے صَرفِ نظر کسی صورت میں درست اور روا نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter