دو تین روز قبل روزنامہ جنگ لندن میں ایک پاکستانی اسکالر جناب حفیظ چشتی کا مراسلہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اسکالر شپ پر یہاں آنے والے پاکستانی طلبہ اور محققین کی حالت زار کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ انہیں اسکالرشپ کے وظیفہ کی رقم بروقت نہ ملنے کی وجہ سے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی کے دن گزارنا پڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ بہت سے اسکالرز مسجدوں میں رہنے اور صدقہ خیرات کی خوراک کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس سے ان کے بقول عزت نفس مجروح ہونے کے علاوہ ذہنی صلاحیتوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی تجربات کے بعد ہمیں کچھ حوصلہ اور اعتماد ملا کہ اپنے ملک کی عزت اور وقار کی خاطر ہم مشقت اور تکلیف بھی برداشت کر لیں گے مگر روز مرہ ضروریات اور اخراجات کے لیے تو بہرحال وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور بہت سے اسکالرز ایسے ہیں جنہیں گزشتہ پانچ ماہ سے وظائف نہیں ملے جبکہ اسکالرشپ پر یہاں آنے والوں کو محنت مزدوری کرنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے ان کی حالت بہت پریشان کن ہے اور متعلقہ حکام کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہیے۔
برطانیہ میں مختلف علوم و فنون میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں اسکالرز آتے ہیں جن میں پاکستانیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ ان پاکستانیوں کے لیے اسکالرشپ کی مختلف صورتیں ہیں۔ خود حکومت پاکستان اپنے خرچہ پر بعض اسکالرز کو بھیجتی ہے، مختلف ممالک اور یونیورسٹیوں کی طرف سے بھی اسکالرشپ کی پیشکشیں موجود ہوتی ہے، اور بعض رفاہی ادارے اور تنظیمیں بھی اسکالرشپ مہیا کرتی ہیں۔
دو سال قبل آکسفورڈ میں ہماری ملاقات ڈاکٹر فرحان احمد نظامی سے ہوئی جو برصغیر کے نامور محقق پروفیسر ڈاکٹر خلیق احمد نظامی مرحوم کے فرزند ہیں۔ ڈاکٹر خلیق احمد نظامی کا تعلق لکھنو سے تھا اور بھارت کے ممتاز محققین اور ماہرین تعلیم میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان کی تصانیف میں (۱) شاہ ولی اللہؒ کے سیاسی مکتوبات، (۲) سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات، اور (۳) تاریخ مشائخ چشت معروف کتابیں ہیں۔ ڈاکٹر خلیق احمد نظامی مرحوم سے بھی راقم الحروف کی کم از کم دو ملاقاتیں آکسفورڈ میں ڈاکٹر فرحان احمد نظامی کی رہائش گاہ پر ہو چکی ہیں۔ ڈاکٹر فرحان احمد نظامی آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ ہیں جو حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ کی نگرانی میں علمی و تحقیقی خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ اسی سنٹر میں ڈاکٹر فرحان سے ہماری ایک ملاقات کے دوران اسکالرشپ کا مسئلہ زیر بحث آگیا۔ ڈاکٹر فرحان نظامی نے بتایا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں اور بعض دیگر اداروں کی طرف سے اسکالرشپ کی بے شمار پیشکشیں مختلف ممالک میں بھجوائی جاتی ہیں۔ اور پاکستان میں بھی یہ پیشکشیں پہنچتی ہیں جو اکثر و بیشتر سرکاری دفاتر کی فائلوں میں دبی رہتی ہیں اور مستحق طلبہ اس سہولت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جن ممالک کے بارے میں اس سلسلہ میں عدم توجہ کی سب سے زیادہ شکایت پائی جاتی ہے ان میں پاکستان سرفہرست ہے۔
اسی طرح ابھی گزشتہ ماہ لاہور سے شائع ہونے والے ایک قومی روزنامہ نے اس سلسلہ میں ایک مستقل ایڈیشن شائع کیا ہے جس میں تعلیم و تحقیق کے متعدد شعبوں میں بیرون ملک سے آنے والی اسکالرشپ کی پیشکشوں کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے اور ان پر عملدرآمد میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف نے کچھ عرصہ قبل پاکستان کے وفاقی محکمہ تعلیم کے ایک ذمہ دار افسر سے بات کی تو انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ بیرونی ممالک سے اسکالرشپ کی بہت سی پیشکشیں آتی ہیں لیکن ہمارے لیے مشکل یہ ہوتی ہے کہ جس ادارے یا ملک کی طرف سے ہم جتنی پیشکشیں قبول کرتے ہیں اسی کے حساب سے ہمیں انہیں اپنے ملک میں اسکالرشپ فراہم کرنا پڑتی ہے جس کی ہمارے بجٹ میں گنجائش نہیں ہوتی۔ اس لیے ہم بہت سی پیشکشوں کو گول کر جاتے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک قرین قیاس معلوم ہوتی ہے لیکن مسئلہ کا حل یہ نہیں کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے ملک کے ذہین اور مستحق طلبہ کو اعلیٰ تحقیق و تعلیم کی سہولتوں سے محروم کر دیا جائے۔ ایسا کرنا ان طلبہ سے کہیں زیادہ خود ملک کے لیے باعث نقصان ہے۔ بلکہ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ اور اگر ہم مختلف شعبوں میں تعیش، پرسٹیج، پروٹوکول اور نو آبادیاتی افسر شاہی کا ماحول قائم رکھنے کے لیے کیے جانے والے غیر ضروری اور فضول اخراجات پر قابو پا لیں تو تعلیم کے شعبہ کو خاصی رقم فراہم کی جا سکتی ہے۔
ایک واقف حال نے اس ضمن میں ایک اور بات بھی بتائی کہ اسکالرشپ کی کوئی اچھی پیشکش بالخصوص امریکہ یا یورپ کے کسی ملک سے آئی ہو تو وہ جس افسر کے ہاتھ لگتی ہے اس کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ اس کا کوئی بیٹا، بھتیجا، بھانجا، یا سالا اس بہانے وہاں پہنچ جائے۔ اور اگر اس میں مطلوبہ صلاحیت اور شرائط مفقود ہوں تو اس خلا کو پر کرنے کے لیے ہمارے ہاں کا معروف فائل ورک شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس کشمکش میں جہاں اسکالرشپ کی پیشکش کسی نامعلوم مرحلہ پر دم توڑ دیتی ہے وہاں کسی مستحق طالب علم اور اسکالر کی ذہانت اور صلاحیت بھی انہی فائلوں کے انبار میں دفن ہو کر رہ جاتی ہے۔
اسکالرشپ کے حوالہ سے ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے۔ تین چار سال پہلے کی بات ہے کہ ساؤتھ آل لندن کا ابوبکرؓ اسلامک سنٹر براڈوے کی موجودہ بلڈنگ کی بجائے ویسٹرز روڈ کے ایک مکان میں ہوتا تھا اور راقم الحروف حسب معمول وہاں مقیم تھا۔ ایک پاکستانی نوجوان دو تین روز ہمارے ہاں مقیم رہا، اس کا کہنا تھا کہ وہ کمپیوٹر سائنسز میں ڈاکٹریٹ کے لیے یہاں آیا تھا لیکن یہاں اعلیٰ ترین تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں یہودیوں کا کنٹرول ہے جنہوں نے مسلمان طلبہ بالخصوص پاکستانیوں کے لیے ایک ’’ریڈ لائن‘‘ مقرر کر رکھی ہے جس سے آگے بڑھنے کا انہیں کسی قیمت پر موقع نہیں دیا جاتا۔ اس نے کہا کہ وہ خود بھی اسی ’’ریڈ لائن‘‘ کو عبور کرتے کرتے رہ گیا ہے اور تمام تر ضروری کوائف اور شرائط مکمل ہونے کے باوجود اسے آگے بڑھنے کا موقع دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ اس کی اسکالرشپ ختم ہوگئی ہے اور وہ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی دوسروں کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔ وہ غالباً پاکستانی سفارت خانہ میں بھی گیا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ پھر خدا جانے وہ کدھر چلا گیا۔
اسکالرشپ کے قصہ سے ہٹ کر تحقیق اور ریسرچ کے معاملات پر ایک اور پہلو کے حوالہ سے بھی نظر ڈال لیں۔ لندن میں انڈیا آفس لائبریری ہے جو پہلے برٹش لائبریری کا حصہ ہوتی تھی، اب الگ عمارت میں ہے۔ اس میں برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کے بارے میں فرنگی دور کے اقتدار کا سارا ریکارڈ موجود ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ بھی ہمارا بیش بہا علمی اور تاریخی ذخیرہ وہاں محفوظ پڑا ہے۔ راقم الحروف کو پہلی بار ۱۹۸۵ء میں اپنے دوست جناب ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم کے ہمراہ وہاں جانے کا موقع ملا تھا اور پھر اس کے بعد کئی بار جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ سلیم صدیقی صاحب وہاں کے انچارج ہیں اور بڑی خوش دلی کے ساتھ تحقیق کے لیے آنے والے حضرات کا خیرمقدم اور تعاون کرتے ہیں۔ مگر انہیں بھی یہی شکایت ہے کہ اپنے ماضی اور تاریخ کے بارے میں ریسرچ اور تحقیق کا سب سے کم رجحان پاکستان میں پایا جاتا ہے اور وہاں سے گنے چنے افراد ہی یہاں آتے ہیں جبکہ ہم ہر وقت انتظار میں ہوتے ہیں۔ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان سے زیادہ سے زیادہ اسکالرز تحقیق کے لیے یہاں آئیں اور ہمیں ان سے تعاون کرکے خوشی محسوس ہوتی ہے۔
یہ اعلیٰ تعلیم، تحقیق، ریسرچ اور ٹریننگ کے حوالہ سے ہمارے قومی مزاج کی چند جھلکیاں ہیں اور ان سے جو عمومی منظر سامنے آتا ہے وہ کوئی مثبت اور اچھا تاثر نہیں ہے۔ جبکہ ہمارا قومی دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے ایک اسلامی فلاحی ریاست اور معاشرہ کے قیام کے لیے دنیا بھر کی راہنمائی کا پرچم بلند کر رکھا ہے اور اب تو ہم بحمد اللہ تعالیٰ ایٹمی قوت بھی ہیں۔ مگر یہ ادراک اور شعور ابھی تک ہمارے قومی مزاج کا حصہ نہیں بن پایا کہ یہ دونوں کام یعنی اسلامی فلاحی معاشرہ کی تشکیل اور جدید ترین ٹیکنالوجی پر دسترس علم اور تحقیق کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ ان کی بنیاد ہی علم و مطالعہ اور تحقیق و تربیت پر ہے۔ اس کے لیے جہاں اسلامی علوم کی گہرائی تک پہنچنا اور ملت اسلامیہ کی چودہ سو سالہ تاریخ کے اتار چڑھاؤ سے واقفیت ضروری ہے، وہاں ٹیکنالوجی اور صلاحیت و استعداد کے جدید ترین معیار کو قابو میں لانا بھی ناگزیر ہے۔
حفیظ چشتی صاحب نے اپنے مراسلہ میں جس مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے وہ اپنی سنگینی کے باوجود ایک جزوی مسئلہ ہے۔ جبکہ اس قسم کے بے شمار سنگین مسائل ہمارے قومی تعلیمی نظام کے مختلف شعبوں میں قدم قدم پر بکھرے پڑے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی نظام تعلیم کو ازسرنو تشکیل دیا جائے، نئے قومی اور بین الاقوامی حقائق و واقعات کا ادراک کیا جائے، نو آبادیاتی فریم ورک سے نجات حاصل کی جائے، اور اکیسویں صدی کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بامقصد اور ملی عزائم سے بھرپور نئے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی جائے۔