محترمہ سرفراز اقبال صاحبہ کو اس بات پر بہت کوفت ہوئی ہے کہ وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر نے اپنے حالیہ متنازعہ انٹرویو کے بارے میں مولویوں کی بیان بازی سے متاثر ہو کر صفائی دینے کی طرز اختیار کی ہے۔ محترمہ کا خیال ہے کہ مولوی کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے اور حکمرانوں کو جو بات ان کی سمجھ میں آئے کر گزرنی چاہیے۔ ان کا یہ بھی ارشاد ہے، بلکہ ارشادات کا عنوان ہے کہ ’’اسلام کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے‘‘ اس لیے کسی کو اسلام کے غم میں دبلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
جہاں تک معین الدین حیدر صاحب کے انٹرویو کا تعلق ہے، ان کی وضاحت بجائے خود محل نظر ہے۔ کیونکہ یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ ہمارے حکمران اپنے ملک میں ہوتے ہیں تو ان کی زبان اور ہوتی ہے لیکن جب کسی مغربی ملک میں ہوتے ہیں یا مغربی ذرائع ابلاغ کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں تو ان کی زبان اور لہجے دونوں میں فرق ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اور بسا اوقات یہ فرق اس قدر نمایاں ہو جاتا ہے کہ درمیان کا فاصلہ کم کرنے کے لیے انہیں اپنے ملک کے پریس کے سامنے کچھ وضاحتیں بھی جاری کرنا پڑ جاتی ہیں۔ یہ معمول کی کارروائی ہے اور روٹین ورک ہے جس میں وزیر داخلہ معین الدین نے کوئی نیا پن نہیں دکھایا بلکہ پہلے سے چلی آنے والی ایک روایت کو دہرایا ہے۔ البتہ اس پر محترمہ سرفراز اقبال صاحبہ کے چیں بہ چیں ہونے میں ضرور انوکھا پن ہے اور اسی حوالہ سے کچھ عرض کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔
ہمارے لبرل اور سیکولر دانشوروں کی ایک پرانی تکنیک ہے کہ جب بھی ملک میں اسلام اور اسلامی روایات و اقدار کے تحفظ کے سلسلہ میں کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو ایک بات ہلکے پھلکے انداز میں کہہ دی جاتی ہے کہ اسلام کو کسی سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ اسلام کی حفاظت تو اللہ تعالیٰ خود کر رہے ہیں اس لیے اسلام کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اور یہ کہہ کر اسلامی اقدار و روایات کو درپیش واقعی خطرات کی نشاندہی کرنے والوں کی بات تمسخر میں اڑا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ یہی بات کوئی مولوی یا صوفی کہہ دے تو اس کا مذاق اڑانے اور اس پر پھبتیاں کسنے میں بھی یہی دانشور پیش پیش ہوتے ہیں کہ دیکھو یہ دقیانوسیت کا مظاہرہ کر رہا ہے، اسباب و عوامل کے وجود اور کارفرمائی کا منکر ہے، اور محض توکل اور دعاؤں کے ساتھ دشمن کے مقابلہ کی بات کر رہا ہے۔ لیکن اب یہ بات چونکہ ایک لبرل دانشور کے قلم سے صادر ہوئی ہے اس لیے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور یہی ترقی پسندی کی سب سے بڑی علامت قرار پائی ہے۔
مگر تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میرے لیے اس فلسفہ کو قبول کرنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ ’’اسلام کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں‘‘ کے ارشاد گرامی کو کسوٹی اور میزان قرار دے کر اسلامی تاریخ کے چند اہم واقعات کو ہی ایک نظر پھر سے دیکھ لیا جائے تو عجیب سا منظر دکھائی دینے لگتا ہے۔ اور پھر یوں نظر آتا ہے کہ:
- اسلام کو اس وقت بھی کوئی خطرہ نہیں تھا جب خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین سو تیرہ افراد کے ساتھ بدر کے میدان میں کفار مکہ کے لشکر جرار کے سامنے صف آرا تھے۔ اور رات کی تاریکی میں اللہ تعالیٰ کے حضور آہ و زاری کر رہے تھے کہ ’’مولا کریم! اگر میری یہ زندگی بھر کی کمائی آج لٹ گئی تو پھر قیامت تک اس زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘
- اور اس وقت بھی شاید اسلام کسی خطرہ میں نہیں تھا جب عرب قبائل متحد ہو کر مدینہ منورہ چڑھ دوڑے تھے۔ جناب نبی اکرمؐ اپنے ڈیڑھ ہزار ساتھیوں سمیت پیٹ پر پتھر باندھے مدینہ منورہ کے گرد خندق کھودنے میں مصروف تھے۔ اور قرآن کریم نے اس منظر کو ان الفاظ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا تھا کہ ’’اے ایمان والو! اس وقت کو یاد کرو جب خوف کے مارے تمہاری آنکھیں ٹیڑھی ہوگئی تھیں، تمہارے دل حلق میں پھنس گئے تھے، اور تم اللہ تعالیٰ کی مدد کے بارے میں بھی طرح طرح کے گمانوں کا شکار ہونے لگے تھے۔‘‘
- پھر تاریخ سے ہمیں یہ بھی کہلوانا پڑے گا کہ جب بیت المقدس پر عیسائیوں نے قبضہ کر لیا تھا تب بھی اسلام کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔
- جب اندلس کو صلیبی جنگوں کے ذریعہ مسلمانوں سے چھین لیا گیا تھا تب بھی خطرہ کی کوئی بات نہیں تھی۔
- جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں دہلی کے مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا تب بھی اسلام کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔
- جب اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے وہاں صہیونی پرچم لہرا دیا تھا تب بھی اسلام ہر قسم کے خطرہ سے محفوظ تھا۔
- اور آج جبکہ امریکہ اور اس کی قیادت میں پورا مغرب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تہذیبی جنگ کا بگل بجا کر اسلامی اقدار و روایات کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے درپے ہے تب بھی ہمارے ان دانشوروں کے نزدیک ’’اسلام کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔‘‘
البتہ محترمہ سرفراز اقبال صاحبہ نے میرا ایک عقدہ حل کر دیا ہے۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ جب مغل بادشاہوں اور برصغیر کے دیگر مسلمان حکمرانوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے بڑھتے ہوئے قدم صاف نظر آرہے تھے، وہ انگریزوں کی قوت اور چالوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، بلکہ دہلی کے سب سے بڑے مولوی شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ان حکمرانوں، شہزادوں، نواسوں، اور رئیسوں کو بار بار جھنجھوڑنے اور آنے والے خطرات سے مسلسل خبردار کرنے کو اپنا مشن بنا رکھا تھا، مگر اس کے باوجود مغل حکمران اپنی سلطنت کے تحفظ اور انگریزوں کی چالوں کے مقابلہ کے لیے مناسب تدابیر کی طرف کیوں نہیں آرہے تھے؟ اور ایسے اقدامات بھی ان کی دسترس سے باہر کیوں ہوگئے تھے جو وہ ان حالات میں آسانی کے ساتھ کر سکتے تھے؟
لیکن اب یہ بات سمجھ آئی ہے کہ اس وقت بھی کوئی محترمہ سرفراز اقبال رہی ہوں گی جنہوں نے چپکے سے مغل حکمرانوں میں اور نوابوں کے کان میں کہہ دیا ہوگا کہ ان مولویوں کی بات پر کان دھرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ان کی طرف مت توجہ دو بلکہ اپنی ڈگر پر چلتے رہو۔ جو تمہاری سمجھ میں آئے یا بین الاقوامی حالات تمہیں جس راہ پر ڈالیں اسی پر گامزن رہو۔ یہ مولوی تو صرف اپنا حلوہ کھرا کرنے کی فکر میں رہتے ہیں، ان کی بات مت سنو۔ اور دشمن کی چالوں کو ناکام کرنے اور اس کی توپوں میں کیڑے ڈالنے کے لیے صرف یہ وظیفہ دن رات کرتے رہو کہ ’’اسلام کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں‘‘۔