دو دن کابل کی آزاد فضا میں

   
۲۰ اگست ۲۰۰۰ء

حرکۃ الجہاد الاسلامی العالمی گوجرانوالہ کے سربراہ قاری عبد القادر صاحب علماء کرام اور دیگر دینی کارکنوں کا ایک گروپ کابل لے جانے کے لیے تیار کر رہے تھے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم میں ششماہی امتحان کی تعطیلات کی وجہ سے میرے پاس تین چار دن کی گنجائش تھی اس لیے میں بھی گروپ میں شامل ہوگیا۔ قاری صاحب نے اس گروپ کو ادھر ادھر گھماتے ہوئے ۱۲ اگست ہفتہ کو رات ساڑھے نو بجے کے لگ بھگ کابل پہنچا دیا۔ مختلف جہادی تحریکات کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ علماء کرم اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے سمجھدار حضرات خود کابل جائیں، وہاں کے حالات کا جائزہ لیں، طالبان حکومت کی کارکردگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں، ان کے خلاف عالمی سطح پر کیے جانے والے پروپیگنڈہ کی حقیقت معلوم کریں، موجودہ بحرانی کیفیت میں امارت اسلامی افغانستان کی مشکلات اور ضروریات کا خود اندازہ کرتے ہوئے ان سے تعاون کی ممکنہ عملی صورتیں تلاش کریں، اور انہیں بروئے کار لانے کے لیے سنجیدہ پیش رفت کریں۔

میں اس سے قبل دو دفعہ کابل جا چکا ہوں، ایک بار پروفیسر صبغۃ اللہ مجددی کی عبوری صدارت کے دور میں جبکہ وہ اس عبوری صدارت کو طول دینے کی راہیں تلاش کر رہے تھے۔ پاکستان کے سرکردہ علماء کرام کا ایک بھرپور وفد کابل گیا جس میں بڑے بڑے بزرگوں کے ساتھ میں بھی ایک کارکن کے طور پر شامل تھا۔ مجددی صاحب کے ساتھ میری پرانی یاد اللہ ہے، ان کی خاندانی عظمت اور تاریخی کردار کے حوالہ سے ان سے ہمیشہ محبت اور عقیدت رہی ہے، اور وہ میری دعوت پر ایک بار گوجرانوالہ بھی تشریف لا چکے ہیں۔ انہوں نے صدارتی محل میں پاکستانی علماء کرام کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا اور ان سے مشورہ کے طور پر یہ دریافت کرنا چاہا کہ عبوری دور کے چھ ماہ مکمل ہونے پر ان کے لیے اقتدار کو چھوڑنا ضروری ہے یا وہ اس اقتدار کو اس کے بعد بھی اپنے پاس رکھ سکتے ہیں؟ ہمارے بعض بزرگوں نے ان کے حق میں تاویلات کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر میں نے ان سے اس محفل میں صاف عرض کیا کہ انہوں نے چھ ماہ کی عبوری مدت کے لیے ایک طے شدہ معاہدہ کے مطابق اقتدار سنبھالا ہے اس لیے قرآن کریم کے حکم کی رو سے عہد کی پاسداری بہرحال ضروری ہے۔ اس کے ساتھ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ ان کی بزرگی اور مجددی خاندان کی عظمت کے اعتراف کے طور پر مجاہدین کی طرف سے اقتدار کا چارج لینے کے لیے ان کی شخصیت کا انتخاب تاریخی حوالہ سے ان کا بہت بڑا کریڈٹ اور اعزاز ہے۔ لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ وہ اس تاریخی اعزاز کو اپنے لیے کافی سمجھتے ہوئے باوقار طور پر مدت گزرتے ہی اقتدار سے الگ ہو جائیں اور اپنے خاندان کے اس تاریخی اعزاز کو دھندلانے کا راستہ اختیار نہ کریں۔

دوسری بار جب میں کابل گیا تو طالبان کی حکومت قائم ہو چکی تھی مگر ابھی ابتدائی مراحل تھے اس لیے مشکلات اور وسائل کے بھنور میں تھی۔ اور انتظامی و حکومتی امور میں طالبان کی ناتجربہ کاری بجائے خود ایک بہت بڑا مسئلہ بنی ہوئی تھی۔

لیکن اب مجھے مذکورہ وفد کے ہمراہ تیسری بار کابل جانے اور دو روز قیام کرنے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اگرچہ مسائل و مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے مگر طالبان اہلکاروں نے جس ہمت اور محنت کے ساتھ اپنی ناتجربہ کاری پر قابو پایا ہے اور ایثار و استقامت کے ساتھ معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے اس کے اثرات کابل میں نمایاں طور پر دکھائی دینے لگے ہیں۔ کابل کی رونقیں بحال ہو رہی ہیں، بازاروں کی چہل پہل میں اضافہ ہوا ہے، چھ بجے سرشام کابل کے راستے بند ہو جانے کی بجائے اس کی مدت رات دس بجے تک بڑھا دی گئی ہے۔ طالبان کے آنے سے پہلے شام چھ بجے کابل کے راستے بند ہو جاتے تھے مگر انہوں نے اسے رات دس بجے کر دیا ہے۔ جرائم میں کمی ہوئی ہے اور بعض بارونق محلوں میں نصف شب کے بعد ہم نے خود ایسی دکانیں دیکھی ہیں جن کے دروازے باہر سے کھلے تھے۔ بازار میں پڑے ہوئے عام استعمال کے سامان پر صرف کپڑے کا پردہ ڈال کر اسے ڈھک دیا گیا تھا اور دوکاندار خود گھر میں مزے کی نیند سو رہا تھا۔ سرکاری دفاتر میں عوام کی آمد و رفت اور اہلکاروں کی کارکردگی بھی اطمینان بخش ہے اور کابل ایک بار پھر بارونق اور پر امن شہر کا روپ دھارتا جا رہا ہے۔

ہمارے وفد میں دیگر بہت سے حضرات کے علاوہ مولانا منظور احمد چنیوٹی کے بڑے فرزند مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے نائب مہتمم مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی، اور مدرس مولانا ظفر فیاض، نیز گوجرانوالہ ہی کے مولانا قاری یعقوب تبسم اور مولانا ظہیر الدین بابر بھی شریک تھے۔

اس دوران ہمیں جن حضرات سے ملاقات اور گفت و شنید کا موقع ملا ان میں امارت اسلامی افغانستان کے نائب صدر ملا محمد حسن، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مولانا نور محمد ثاقب، کابل یونیورسٹی کے چانسلر مولانا پیر محمد روحانی، فاتح ارگون مولانا ارسلان رحمانی، نامور افغان کمانڈر مولوی سیف الرحمان منصور، اکیڈمی آف سائنسز کے ڈپٹی ڈائریکٹر مولانا فرید الدین محمود، اور وزارت صحت میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ کے ڈائریکٹر مولانا شمس الدین بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان کے ساتھ ملاقاتوں کے حوالہ سے افغانستان کے تازہ ترین حالات کے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات اور اپنے تاثرات اسی کالم میں مختلف عنوانات کے ساتھ ان شاء اللہ تعالیٰ قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا۔

ہم نے پاکستان کا یوم آزادی شمالی اتحاد کے خلاف برسرجنگ طالبان مجاہدین کے ساتھ ان کے اگلے مورچوں میں منایا۔ چودہ اگست کو ہم چاری کار اور بگرام ایئرپورٹ کے قریب اگلے مورچوں میں گئے اور مجاہدین کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ وہاں برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے شہداء، تحریک پاکستان کے شہداء اور جہاد افغانستان کے شہداء کے ایصال و ثواب کے لیے قرآن خوانی کی گئی۔ اور طالبان کی اسلامی حکومت کی کامیابی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی وحدت و سالمیت کی حفاظت اور پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنانے کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔

اس موقع پر راقم الحروف نے ان مجاہدین سے باتیں کرتے ہوئے دو گزارشات کیں۔ ایک یہ کہ ہمیں پاکستان کا یوم آزادی طالبان مجاہدین کے ساتھ مناتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ ہم نے چودہ اگست ۱۹۴۷ء کو انگریز حکمرانوں سے آزادی حاصل کی تھی مگر انگریزی نظام ہم پر نصف صدی گزر جانے کے باوجود بدستور مسلط ہے اور ہماری آزادی ابھی نامکمل ہے۔ جبکہ افغانستان کے لوگوں نے روسی فوجوں اور کمیونسٹ نظام دونوں سے آزادی حاصل کر لی ہے اور مکمل آزادی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ اس مناسبت سے طالبان مجاہدین سے گزارش ہے کہ وہ ہمارے لیے بطور خاص دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرح ہمیں بھی مکمل آزادی اور اسلامی نظام کی منزل سے ہمکنار کریں۔

دوسری گزارش یہ کی کہ اس وقت دنیا بھر کی نظریں امارت اسلامی افغانستان پر لگی ہوئی ہیں۔ یہ خالص نظریاتی اور اسلامی حکومت اگر کامیاب ہوتی ہے تو دنیا بھر میں اسلامی تحریکات کو حوصلہ اور قوت حاصل ہوگی اور مسلم ممالک میں کفر کے نظام سے نجات اور اسلامی نظام کے نفاذ کا دروازہ کھل جائے گا۔ جبکہ طالبان کی اسلامی حکومت کے استحکام کا دارومدار شمال کی جنگ پر ہے اور اسی وجہ سے دنیا بھر کا کفر اس جنگ میں طالبان کی مخالفت پر متحد ہوگیا ہے۔ اس پس منظر میں معروضی صورتحال یہ بن گئی ہے کہ پوری دنیا میں اسلامی نظام کے نفاذ میں پیش رفت کا دارومدار طالبان کی اسلامی حکومت کی کامیابی اور استحکام پر ہے۔ اور طالبان کی حکومت کی کامیابی اور استحکام کا مدار شمال کی جنگ میں ان کی فتح پر ہے۔ اس لیے آپ مجاہدین بہت اہم اور فیصلہ کن جنگ میں مصروف ہیں اور ہم آپ حضرات کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے اس جنگ میں طالبان حکومت کی جلد اور مکمل فتح کے لیے دعاگو ہیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter