عید کے دن کوئی اچھی خبر مل جائے تو عید کی خوشیاں دوبالا ہو جاتی ہیں۔ اس عید الفطر پر ایک ایسی خبر پڑھنے کو ملی ہے جس نے واقعی خوشیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایک قومی اخبار کے صفحۂ اول پر سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فہد کا پیغامِ عید دیکھا تو پہلے مرحلہ میں یقین ہی نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، اس لیے دوبارہ خبر پڑھی بلکہ دوسرے اخبارات دیکھے تو ان میں بھی یہ پیغامِ عید انہی الفاظ میں پڑھ کر یقین آیا۔ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ ہمارے ’’بادشاہوں‘‘ کے دل میں بھی احساس کی کوئی چنگاری موجود ہے۔
سعودی فرمانروا نے اپنے اس پیغام عید میں اسلامی ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ عالمگیر قوت بننے کے لیے اقتصادی محاذ پر مل کر کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی سلامتی بین الاقوامی مفادات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑی جانی چاہیے۔ مسلمانوں کو ایسا بااثر اقتصادی بلاک قائم کرنا چاہیے جو نئے عالمی نظام میں مؤثر کردار ادا کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت ان اہم عوامل میں شامل ہے جو انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اگر مسلمان اپنی توجہ اس شعبے پر مرکوز کر دیں تو وہ نہ صرف طاقتور بن سکتے ہیں بلکہ دنیا میں عزت و وقار کے ساتھ رہنے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں۔
شاہ فہد کا یہ پیغام عید پڑھ کر زبان پر جو پہلا جملہ آیا وہ یہ تھا ’’تیری آواز مکے اور مدینے‘‘۔ مگر یہ آواز تو آئی ہی مکہ اور مدینہ سے ہے اس لیے کہ اسی اخبار میں خبر تھی کہ شاہ فہد نے عید کی نماز حرم مکہ میں ادا کی، ظاہر ہے کہ پیغام بھی وہیں سے جاری ہوا ہے۔
مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے دولت، مواقع، وسائل اور ذرائع سے جس طرح نوازا ہے وہ دنیا کی باقی سب قوموں کے لیے لائق رشک ہے۔ مگر ہم نے ان وسائل اور دولت کی جو ناقدری کی ہے وہ بھی تاریخ کا ایک عبرتناک باب ہے۔ بالخصوص گزشتہ صدی کے دوران تیل کی جو بے پناہ دولت اللہ تعالیٰ نے زمین کا سینہ شق کر کے ہمیں عطا کی فرمائی ہے اس کی ناقدری کی تو ہم نے انتہا کر دی ہے۔
تفسیر قرطبیؒ اور تفسیر ابن کثیرؒ میں سورۃ المائدہ کی آیت ۱۱۲ تا ۱۱۵ کی تشریح میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی عمار بن یاسرؓ کا ایک ارشاد گرامی منقول ہے۔ انہوں نے ایک روز اپنے ساتھیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں بنی اسرائیل پر آسمان سے تیار کھانوں کا خوان اترنے اور پھر اس نعمت کی ناشکری پر بہت سے لوگوں کے خنزیر کی شکل میں مسخ ہو جانے کا واقعہ سنایا۔ اور پھر ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ
’’اے اہل عرب! تم اونٹوں اور بکریوں کے چرواہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا اور آنحضرتؐ جیسے عظیم پیغمبر عطا فرما کر ان کے ذریعہ تمہیں عرب و عجم کی بادشاہت دی۔ اور انہی کی زبان سے تمہیں یہ ہدایت کی کہ سونے اور چاندی کو ذخیرہ نہ کرنا مگر تم لوگوں نے دن بدن سونے چاندی کو ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے یاد رکھو کہ تم پر خدا کا عذاب آکر رہے گا۔‘‘
حضرت عمار بن یاسرؓ کا یہ ارشاد گرامی اس دور کے پس منظر میں تھا جب انہوں نے دیکھا کہ دولت قومی ضروریات پر صرف ہونے کی بجائے ذخیرہ ہونے لگی ہے اور مستحق لوگوں کے کام آنے کی بجائے تجوریوں میں محفوظ ہونے لگی ہے۔ انہیں احساس ہوا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی اور عذاب کا باعث بن سکتی ہے، چنانچہ انہوں نے اس سے اپنے ساتھیوں کو خبردار کر دیا۔
آج تو بات اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ جس وقت تیل کی دولت عربوں کے ہاتھ لگی اور اللہ تعالیٰ نے چھپر پھاڑ کر مسلمانوں پر من برسایا تو معاصر اقوام سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی منازل طے کر رہی تھیں، دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے عسکری قوت کے زیادہ سے زیادہ حصول کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں، اور دنیا کے مالیاتی نظام کو کنٹرول کرنے کے لیے تجارت اور بینکاری میں استحکام حاصل کرنے میں مصروف تھیں۔ مگر مسلمان ان تینوں میدانوں میں معاصر اقوام سے پیچھے رہ گئے اور تیل کی یہ دولت ان میں سے کسی شعبہ میں مسلمانوں یا کم از کم عربوں کے کام نہ آسکی۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف حصوں کے مظلوم اور بے سہارا مسلمانوں کی امداد اور انہیں کسی طرح اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا شعبہ باقی رہ گیا تھا، وہاں بھی بعض مواقع پر ہنگامی اور سرسری امداد کے سوا کوئی منظم کام کسی درجہ میں نہیں ہو سکا۔ جبکہ اس کے برعکس یہ دولت شاہانہ اخراجات، عیاشی اور فضول مصارف پر اس بے دردی سے برباد ہوئی ہے کہ تاریخ صدیوں تک اس پر ماتم کرتی رہے گی۔
سچی بات یہ ہے کہ جب کسی مغربی ملک میں عرب شہزادوں اور شیوخ کی عیاشیوں اور شاہانہ داد و دہش کے واقعات سنتے ہیں یا جدہ اور اس جیسے دیگر شہروں میں سینکڑوں بلند و بالا بے مقصد اور فضول عمارتوں پر نظر پڑتی ہے تو وہیں کے کسی چوک میں کھڑے ہو کر حرام اور ممنوع ہونے کے باوجود سرعام ماتم اور سینہ کوبی کرنے کو جی چاہتا ہے۔ عربوں نے داخلی تحفظ اور دفاع کے نام پر اپنی دولت اور گردن دونوں اسی ’’کرم فرما‘‘ کے پنجے میں دے رکھی ہیں جس نے ہمارے سینے میں اسرائیل کا خنجر گاڑا ہوا ہے۔ اور اسے ہمارے دل میں مسلسل پیوست رکھنے کے لیے سارے جتن کر رہا ہے۔ اس ’’مہربان‘‘ کا ایک ہاتھ ہماری گردن دبوچے ہوئے ہے اور دوسرا ہاتھ ہماری جیبیں خالی کرنے میں مصروف ہے۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ہم نے تیل سے حاصل ہونے والی بچی کھچی دولت کو ذخیرہ کرنے کے لیے بھی اسی ’’کرم فرما‘‘ کا سہارا لے رکھا ہے۔
تیل سے حاصل ہونے والی بہت سی دولت مغربی ممالک کے بینکوں میں ہے جس پر ان ممالک کی ترقی اور استحکام کا مدار ہے۔ اسی دولت کے سہارے بہت سے مغربی ممالک عالمی تجارت پر اجارہ داری کے نظام میں شریک ہیں، اسی کے سود کی رقم باقی مسلمان ملکوں کی گردن دبوچنے کے کام آرہی ہے۔ اور اسی دولت کی اصل مالکوں کو واپسی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ عالمی صنعت و تجارت میں مسلمانوں کے حصے کو ان کی آبادی اور میسر وسائل کے تناسب سے دیکھا جائے تو نتیجہ بیان کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔
ایٹمی شعبہ میں جزوی پیشرفت کو چھوڑ کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں مسلمان اپنی معاصر اقوام سے بہت پیچھے اور بہت ہی پیچھے ہیں۔ ورلڈ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی عالمی دوڑ اور مسابقت میں مسلمانوں کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔ حتیٰ کہ ہم ابھی تک عالمی سطح پر ڈھنگ کی کوئی خبر رساں ایجنسی قائم نہیں کر سکے۔ اور تو اور ہم ابھی تک ریڈ کراس طرز کا کوئی ایسا بین الاقوامی رفاہی ادارہ نہیں بنا سکے جو مطلوبہ معیار پر پورا اترتا ہو اور رفاہی شعبوں میں اعتماد کے ساتھ خدمات سر انجام دینے کی پوزیشن میں ہو۔
ان حالات میں اگر شاہ فہد مسلمانوں کی سلامتی کو بین الاقوامی مفادات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنے کی بات کر رہے ہیں، اسلامی ممالک پر الگ اقتصادی بلاک قائم کرنے کے لیے زور دے رہے ہیں، اور مسلمانوں کے طاقتور ہونے، عالمگیر قوت بننے، اور عزت و وقار کے ساتھ رہنے کی ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں تو مجھ جیسے ہر شخص کو اس پر خوشی ہوگی۔ خدا کرے کہ یہ خوشی صرف ’’پیغام عید‘‘ تک محدود نہ رہے بلکہ اس کی کوئی عملی شکل بھی کسی سطح پر دیکھنے میں آ جائے، آمین یا رب العالمین۔