دستور سے مسلسل انحراف کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا؟

   
۷ ستمبر ۲۰۱۶ء

۷ ستمبر کو ’’یوم تحفظ ختم نبوت‘‘ کے حوالہ سے ملک بھر میں سینکڑوں تقریبات منعقد ہوئیں جن میں تحریک ختم نبوت کے شہداء اور کارکنوں کو خرج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جدوجہد کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ مجھے اس روز دو تقریبات میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ لال مسجد، اسلام آباد میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ختم نبوت کانفرنس صبح نو بجے سے نماز عصر تک جاری رہی، مجھے اس کی ظہر کے بعد والی نشست میں حاضری اور گفتگو کا موقع ملا۔ اس نشست سے دیگر علماء کرام کے علاوہ مولانا محمد امجد خان، مولانا اشرف علی، مولانا عبد الحمید چشتی آف گولڑہ شریف، مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری آف ساہیوال، اور مولانا محمد طیب نے بھی خطاب کیا۔ اسی روز بعد نماز مغرب جامعہ اسلامیہ تعلیم القرآن منڈی بہاء الدین میں ’’دفاع اسلام و دفاع پاکستان‘‘ کے عنوان سے تقریب انعقاد پذیر تھی جس میں مولانا مفتی محمد زاہد آف فیصل آباد اور مولانا عبد المجید شہیدی کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ ان دو نشستوں میں جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کل ۶ ستمبر کو ہم نے پورے ملک میں ’’یوم دفاع پاکستان‘‘ منایا ہے اور آج ۷ ستمبر کو ’’یوم ختم نبوت‘‘ منایا جا رہا ہے۔ وہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت و دفاع کے حوالہ سے تھا اور یہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے جذبہ کے تحت ہے۔ دونوں کا مقصد ملک و قوم کا دفاع ہے کہ زندہ قومیں اپنی جغرافیائی اور نظریاتی دونوں سرحدوں کے دفاع کا اہتمام کرتی ہیں اور یہ حسن اتفاق ہے کہ ہمارے یہ دونوں دن آگے پیچھے اکٹھے آتے ہیں۔ ملک کی جغرافیائی سرحدوں اور وحدت و سا لمیت کا دفاع کرنے اور اس کے لیے مختلف ادوار میں قربانیاں دینے والے بھی ہمارے محسن ہیں، اور عقیدہ و نظریہ کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے والے بھی ہمارے محسن ہیں۔ اس لیے ہم دونوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور دونوں کے لیے بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہیں۔

آج ’’یوم ختم نبوت‘‘ ہے۔ آج کے دن ۱۹۷۴ء میں ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخی فیصلہ کیا تھا اور میں اسی کے بارے میں آج کے معروضی حالات میں مختلف حلقوں کی طرف سے پیش کیے جانے والے تین سوالات کا جائزہ لینا چاہوں گا جو نہ صرف ملک میں سوشل میڈیا اور قومی میڈیا کے ذریعے پھیلائے جا رہے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی بین الاقوامی لابیاں اور خاص طور پر سیکولر حلقے ان کا مسلسل پرچار کر رہے ہیں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا، کیا کسی فرد یا گروہ کو مسلمان یا کافر قرار دینے کا فیصلہ کرنا اسمبلی کا کام ہوتا ہے؟ اور کیا اسمبلی کو یہ اتھارٹی حاصل تھی؟ میں اس کا مختصر جواب یہ عرض کروں گا کہ ۱۹۷۴ء کی منتخب پارلیمنٹ کے سامنے یہ مسئلہ ’’استفتاء‘‘ کے طور پر پیش نہیں کیا گیا تھا کہ وہ یہ فیصلہ دے کہ قادیانی مسلمان ہیں یا کافر؟ بلکہ اسمبلی کے سامنے ’’دستوری بل‘‘ رکھا گیا تھا کہ قادیانیوں کو پوری ملت اسلامیہ غیر مسلم قرار دے چکی ہے اس لیے پارلیمنٹ بھی دستور و قانون کے دائرے میں اس فیصلہ کو تسلیم کرے اور اس کے مطابق قادیانیوں کو ملک میں مسلمانوں کے ساتھ شامل رکھنے کی بجائے غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ شمار کرے۔ یہ استفتاء نہیں تھا بلکہ قادیانیوں کے معاشرتی اسٹیٹس کو مسلمانوں سے الگ کرنے کا دستوری بل تھا اور پارلیمنٹ نے یہی فیصلہ کیا تھا۔ جبکہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ تو اس سے قبل ہو چکا تھا کہ

  1. پوری ملت اسلامیہ نے اجماعی طور پر یہ فیصلہ کیا تھا،
  2. ملک کے تمام مکاتب فکر متفقہ طور پر فیصلہ صادر کر چکے تھے،
  3. پوری قوم اس فیصلہ پر پہلے سے متفق تھی جس کی تائید عالمی سطح پر امت مسلمہ کر چکی تھی۔

اس لیے پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا فتویٰ جاری نہیں کیا تھا بلکہ پہلے سے موجود متفقہ فیصلے کو دستور کا حصہ بنایا تھا اور اس کے لیے قادیانیوں کے دونوں گروہوں کے سربراہوں کو پارلیمنٹ کے فلور پر اپنا موقف اور پوزیشن واضح کرنے کا مسلسل کئی روز تک موقع بھی دیا گیا تھا تاکہ کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ یہ شرعی فتویٰ نہیں تھا بلکہ شرعی فتویٰ کی حمایت میں دستوری اور جمہوری فیصلہ تھا۔

دوسرا سوال آج کل یہ دہرایا جا رہا ہے کہ کیا یہ اسلامی ریاست کے فرائض یا اختیارات میں شامل ہے کہ وہ کسی فرد یا گروہ کو غیر مسلم قرار دے؟ میں اس کے جواب میں گزشتہ ایک مضمون میں عرض کر چکا ہوں کہ اگر اسلامی ریاست سے وہ ریاست و حکومت مراد ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی تھی اور حضرت ابوبکر صدیقؓ ان کے جانشین بنے تھے تو پھر ریاست کو ایسا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس لیے کہ حضرت صدیق اکبرؓ نے خلافت سنبھالنے کے بعد پہلا کام یہی کیا تھا کہ مسیلمہ کذاب، طلیحہ اسدی، اور سجاح کو ان کے ہزاروں پیروکاروں سمیت اسلامی معاشرہ کا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا جو نبوت کے دعوے دار تھے اور انہوں نے نبوت اور وحی کے ٹائٹل کے ساتھ اپنا تشخص مسلمانوں سے الگ کر لیا تھا۔ اس لیے ایک ’’اسلامی ریاست‘‘ کا بنیادی فریضہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں میں مسلمان اور غیر مسلم کا فرق قائم کرے اور اس کے مطابق سب کے ساتھ معاملات روا رکھے۔

تیسرا سوال عام طور پر یہ سامنے آرہا ہے کہ کیا غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بعد قادیانیوں کے شہری اور سیاسی حقوق بھی ختم ہو چکے ہیں یا ان کے کسی قسم کے حقوق اس ملک میں ابھی باقی ہیں؟ مختلف سطحوں پر یہ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ قادیانیوں کو پاکستان میں شہری اور سیاسی حقوق کیوں نہیں دیے جا رہے اور ان کے خلاف مقدمات اور پابندیوں کا سلسلہ کیوں جاری ہے؟

اس کا جواب قدرے تفصیل کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں اس لیے کہ اس بات کو سب سے زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔ ہمیں پاکستان میں آباد غیر مسلم اقلیتوں میں سے کسی کے شہری اور سیاسی حقوق سے کبھی انکار نہیں رہا۔ ملک میں آباد ہندو، سکھ، مسیحی، اور دیگر غیر مسلم اقلیتیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، اسمبلیوں کے ممبر بھی بنتے ہیں، کاروبار و تجارت بھی کرتے ہیں، جلسے و جلوس بھی کرتے ہیں، اور مذہبی تہواروں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ قانون کے دائرے میں یہ سارے کام ہوتے ہیں کبھی کسی نے انکار نہیں کیا اور نہ ہم نے کبھی ان کے خلاف کبھی کوئی مہم چلائی ہے۔ ۱۹۷۴ء کے فیصلے کے بعد دیگر اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کو بھی ملک میں ان کی آبادی کے تناسب سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں سیٹیں دی گئی تھیں حتیٰ کہ قومی اسمبلی میں بشیر طاہر نامی قادیانی ایم این اے بھی منتخب ہوئے تھے مگر خود قادیانیوں نے ہی دستوری فیصلہ کو مستر کر کے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کر دیا تھا جو آج تک جاری ہے کہ وہ ووٹ درج نہیں کراتے اور انتخابات میں حصہ نہیں لیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ملک کے انتخابی عمل میں شریک نہیں ہوں گے۔

چنانچہ اگر قادیانیوں کو پاکستان میں سیاسی حقوق حاصل نہیں ہیں تو اس کی ذمہ داری حکومت و ریاست پر نہیں بلکہ خود ان پر ہے اور اس کی وجہ ان کا وہ بائیکاٹ ہے جو وہ مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ آج بائیکاٹ ختم کریں، ووٹ درج کرائیں، اور ان کی آبادی کے تناسب سے ان کا جو حق بنتا ہے وہ حاصل کریں۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ قادیانی گروہ دستوری فیصلے سے انحراف اور انتخابی عمل کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے کر دستور کے مطابق اپنے سیاسی حقوق کی بات کرے تو اس کے حق میں سب سے پہلے آواز اٹھانے والا شخص میں ہوں گا۔

سوال یہ ہے کہ شہری اور سیاسی حقوق طے کرنے کا معیار کیا ہوتا ہے؟ کیا جن باتوں کو کوئی گروہ اپنے حقوق کی فہرست میں شامل کرلے وہ جوں کے توں حقوق سمجھ لیے جائیں گے؟ یا حقوق کے تعین اور ان کی ادائیگی کا طریق کار طے کرنے کے لیے کوئی اتھارٹی بھی ہوتی ہے؟دنیا کے کسی بھی ملک میں اس نوعیت کے فیصلے دستور کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور کسی ملک کا دستور ہی اس کے شہریوں کے درمیان وہ ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ ہوتا ہے جس کے حوالہ سے باہمی حقوق کا تعین کیا جاتا ہے۔ مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ قادیانی گروہ دستور کو تسلیم کرنے کے لیے تو تیار نہیں ہے مگر حقوق حاصل نہ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹے جا رہا ہے بلکہ پوری دنیا میں دستور پاکستان کے خلاف مورچہ زن ہو کر ریاست و حکومت کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہے۔ گویا حقوق کے تعین اور ان کی ادائیگی کا طریق کار طے کرنے کے لیے وہ اپنے علاوہ کسی کو اتھارٹی نہیں مانتے۔ اس فضا میں حقوق کا تعین اور ان کی ادائیگی کیسے ممکن ہے؟

میں اس موقع پر ایک نازک اور حساس سی بات کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک طرف تو ملک میں دستوری بالادستی کو تسلیم نہ کرنے اور حکومت رٹ کو چیلنج کرنے والے گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہے جس پر پوری قوم متفق ہے اور ہم بھی اس کی حمایت کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان کے دستور کو تسلیم کرنے سے انکار اور پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلہ کے خلاف پوری دنیا میں قادیانی پراپیگنڈا جاری ہے جس پر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت سے یہ گزارش کروں گا کہ دستور و پارلیمنٹ سے اس انحراف کا نوٹس لینا ضروری ہے کیونکہ یہ بھی ’’دستور کی بالادستی‘‘ کے ناگزیر تقاضے کی حیثیت رکھتا ہے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۰ ستمبر ۲۰۱۶ء)
2016ء سے
Flag Counter