بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے، ایک حضرت اسحاق علیہ السلام اور دوسرے حضرت اسماعیل علیہ السلام۔ یوں حضرت ابراہیمؑ کی اولاد میں دو سلسلے چلے۔ حضرت اسحاقؑ کے بیٹے حضرت یعقوبؑ تھے جن کا لقب ’’اسرائیل‘‘ تھا جو کہ عبرانی زبان میں ’’عبد اللہ‘‘ کو کہتے ہیں یعنی اللہ کا بندہ ۔ حضرت اسحاقؑ سے بنی اسرائیل کا سلسلہ چلا، اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں تقریباً تین ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے۔ جبکہ حضرت ابراہیمؑ کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے صرف ایک ہی پیغمبر ہوئے جو کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے قریش کا خاندان تھا جس کی ایک شاخ بنو ہاشم خاندان کی تھی، اس بنو ہاشم خاندان میں حضورؐ مبعوث ہوئے۔
نبی کریمؐ کے والدین
حضرت عبد اللہؓ اور حضرت آمنہؓ جناب نبی کریمؐ کے والدین تھے، حضورؐ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے۔ آپؐ کے والد محترم، جناب عبد المطلب کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ ننھال سے آپؐ کا تعلق بنو نجار سے تھا جو کہ یثرب شہر کا ایک قبیلہ تھا۔ یثرب اب مدینہ منورہ کہلاتا ہے۔ والد محترم عبد اللہ حضورؐ کی ولادت سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے، آپؐ غالباً پانچ یا چھ سال کے تھے جب آپؐ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا۔ آپؐ نے بنو سعد کی ایک خاتون حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیا جن کے خاوند ابو کبشۃؓ کے نام سے معروف ہیں۔ انہی کی وجہ سے قریش کے بعض سردار طنز کے طور پر جناب نبی کریمؐ کو ابن ابی کبشۃ کہا کرتے تھے۔ جب قیصرِ روم کے دربار میں ابو سفیانؓ پیش ہوئے اور قیصر روم کے ساتھ رسول اللہؐ کے بارے میں بات ہوئی تو ابو سفیانؓ نے دیکھا کہ قیصرِ روم نے رسول اللہؐ اور ان کے خط کو بہت اہمیت دی، گفتگو سے فارغ ہو کر باہر آئے تو ابو سفیانؓ نے کہا ’’أمر أمر ابن کبشۃ‘‘ کہ ابو کبشۃ کے بیٹے کی بات تو بہت بڑی ہوگئی ہے۔
ابو کبشۃ اور سعدیہ حلیمہ رضی اللہ عنہما حضورؐ کے رضاعی ماں باپ تھے، دونوں مسلمان ہوئے۔ رسول اللہؐ نے آخر وقت تک ان کا خیال رکھا اور یہ دونوں صحابہؓ میں شمار ہوتے ہیں۔ جناب نبی کریمؐ کی کوئی حقیقی بہن یا بھائی نہیں تھا۔ غزوۂ حنین کی لڑائی کے بعد ایک خاتون حضرت شیماءؓ نے آپؐ کی رضاعی بہن ہونے کا دعویٰ کیا اور آپ کو بچپن کے واقعات یاد دلائے تو حضورؐ نے اس خاتون کے رضاعی بہن ہونے کی تصدیق کی اور اسے اکرام کے ساتھ تحفے تحائف دے کر رخصت کیا۔
نبی کریمؐ کی ازواج
جناب رسول اللہؐ کی ازواج میں نکاح کی ترتیب کے لحاظ سے حضرت خدیجہؓ، حضرت سودہؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت زینب ام المساکینؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت زینب بنت جحشؓ ، حضرت جویریہؓ، حضرت ام حبیبہؓ، حضرت میمونہؓ اور حضرت صفیہؓ کے نام آتے ہیں۔رسول اللہؐ کی کل ۱۱ بیویاں تھیں جبکہ بیک وقت ۹ تھیں۔ آنحضرتؐ کی حیات مبارکہ میں آپؐ کی دو بیویاں فوت ہوئیں، ایک حضرت خدیجہؓ اور دوسری حضرت زینب ام المساکینؓ۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا
آپؐ کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ قریش کی بڑی باعزت خاتون تھیں۔ وہ ایک تجارت پیشہ اور مالدار خاتون تھیں۔ جب حضورؐ کا حضرت خدیجہؓ کے ساتھ نکاح ہوا تو آپؐ پچیس برس کے جبکہ حضرت خدیجہؓ چالیس برس کی تھیں۔ یہ رسول اللہؐ کا پہلا نکاح تھا جبکہ حضرت خدیجہؓ اس سے پہلے بیوہ ہو چکی تھیں۔ حضورؐ کا حضرت خدیجہؓ کے ساتھ یہ نکاح پچیس برس تک قائم رہا۔ ان پچیس سال کے دوران حضرت خدیجہؓ تنہا حضورؐ کے نکاح میں رہیں۔ حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے وقت جناب نبی کریمؐ کی عمر پچاس برس تھی۔ اپنی عمر کے پچیس سے پچاس سال کے عرصے تک حضورؐ نے اور کوئی شادی نہیں کی، حضرت خدیجہؓ حضورؐ کی سب سے لمبی مدت کی بیوی تھیں۔ نبی کریمؐ آخرت وقت تک حضرت خدیجہؓ کو یاد کرتے تھے اور ان کا تذکرہ فرماتے تھے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مجھے کبھی کسی پر رشک نہیں آیا سوائے خدیجہؓ کے، جب بھی کوئی بات ہوتی تو آپؐ فرماتے کہ خدیجہؓ یوں کیا کرتی تھی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضورؐ نے کسی بات پر حضرت خدیجہؓ کا نام لیا تو میں بول پڑی کہ یارسول اللہؐ آپ کیا اس بڑھیا کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ان سے اچھی عورتیں دی ہیں۔ رسول اللہؐ نے اس پر حضرت خدیجہؓ کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا کہ خدیجہؓ نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے، اس نے مجھ پر اپنا مال بھی خرچ کیا اور مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا۔
حضرت خدیجہؓ اور حضورؐ کے چچا ابو طالب کی وفات قریب قریب ہوئی۔ گھر میں سب سے زیادہ حضورؐ کا ساتھ دینے والی حضرت خدیجہؓ تھیں جبکہ گھر سے باہر خاندان میں سب سے زیادہ محافظ اور مددگار جناب ابوطالب تھے۔ ابوطالب نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انہوں نے چچا ہونے کے ناطے سے چچا ہونے کا حق ادا کر دیا۔ ابو طالب رسول اللہؐ کے ساتھ شعب ابو طالب میں بھی محصور رہے۔ جناب ابو طالب کی زندگی میں کسی کو حضورؐ کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی، جسے بھی کوئی شکایت ہوتی تو وہ ابو طالب سے کرتا تھا کہ اپنے بھتیجے سے یہ بات کرو، اپنے بھتیجے کو یہ سمجھاؤ۔ ابو طالب کی شخصیت کا ایک رعب اور مقام تھا۔ جس سال یکے بعد دیگرے جناب ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا تو وہ سال حضورؐ کے لیے بہت پریشانی کا تھا کہ عالم اسباب میں جو دو بڑے سہارے تھے، دونوں ختم ہوگئے۔ اس لیے رسول اللہؐ نے اسے عام الحزن قرار دیا کہ یہ میرا غم کا سال ہے۔
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا
حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد قریش ہی کی ایک خاتون حضرت سودہ بنت زمعہؓ سے حضورؐ کا نکاح ہوا۔ یہ بھی ایک بیوہ خاتون تھیں اور حضورؐ کے مکی دور میں ہی اسلام قبول کر چکی تھیں۔ حضرت سودہؓ جسمانی ساخت کے لحاظ سے اونچی لمبی اور بھاری تھیں۔ ان کی تاریخ وفات کے متعلق اختلاف ہے، عام خیال یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کے آخری عرصے میں وفات پائی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
حضرت عائشہؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیٹی تھیں اور ازواج مطہرات میں نبی کریمؐ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ ۹ سال کی عمر میں رسول اللہؐ کے عقد میں آئیں اور آپؐ کے وصال کے وقت ان کی عمر ۱۸ سال تھی۔ حضرت عائشہؓ سے نبی کریمؐ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ حضرت عائشہؓ ایک ذہین، فصیح اللسان اور سخی خاتون تھیں، ان کا علمی مقام یہ تھا کہ خلافت راشدہ کے زمانے میں نہ صرف فتوے دیا کرتی تھیں بلکہ دوسرے اکابر صحابہؓ کے فتوؤں پر نقد کیا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ حضورؐ کے وصال کے بعد ایک دفعہ کسی نے انہیں ایک لاکھ درہم ہدیہ بھیجا جو انہوں نے شام ہونے سے پہلے پہلے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا۔ حضرت عائشہ کی شاگرد عمرہؓ اس کے متعلق بتاتی ہیں کہ ہم سب روزے سے تھے، حضرت عائشہؓ نے یہ رقم تقسیم کرنا شروع کر دی کہ یہ برتن بھر کر فلاں کو دے آؤ اور یہ رقم فلاں کے گھر دے آؤ، سارا دن ہم یہی کام کرتے رہے۔ روزہ کھولنے سے کچھ وقت پہلے حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ گھر میں کھانے کو کچھ ہے؟ میں نے حضرت عائشہ کو بتایا کہ گھر میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ حضرت عائشہؓ نے ناراضگی سے فرمایا کہ پہلے یاد کراتے تو میں افطاری کے لیے کچھ درہم رکھ لیتی، اب کچھ نہیں ہو سکتا اس لیے پانی سے روزہ کھولو۔ حضرت عائشہؓ نبی کریمؐ کی وفات کے بعد تقریباً ۴۵ سال تک زندہ رہیں۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا
حضرت حفصہؓ حضرت عمر فاروقؓ کی بیٹی تھیں۔ ان کے خاوند حضرت خنیسؓ غزوہ بدر میں زخمی ہوئے اور بعد میں انہی زخموں کی وجہ سے شہید ہوئے۔ حضرت حفصہؓ جب بیوہ ہوئیں تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے ان کے نکاح کے متعلق بات کی لیکن حضرت ابوبکرؓ نے انہیں کوئی جواب نہ دیا ۔ یہ بات حضرت عمرؓ کو بہت ناگوار گزری لیکن بعد میں جب حضرت عمرؓ کو یہ بات پتہ چلی تو اطمینان ہوگیا کہ حضورؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے حضرت حفصہؓ کے متعلق پہلے سے تذکرہ فرمایا ہوا تھا۔ چنانچہ ۲ھ میں حضورؐ کا حضرت حفصہؓ سے نکاح ہوا۔ انہوں نے حضرت امیر معاویہؓ کے دور خلافت میں وفات پائی۔
حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا
حضرت زینبؓ کے خاوند عبد اللہ بن جحشؓ جنگ اُحد میں شہید ہوئے تو حضورؐ نے ان کے ساتھ نکاح کر لیا لیکن حضورؐ کے ساتھ نکاح کے چند مہینے بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ حضرت زینبؓ غرباء کو کھانا کھلانے اور مساکین کی مدد میں مشہور تھیں اس لیے انہیں ام المساکین کہا جاتا تھا۔ حضرت خدیجہؓ کے بعد حضورؐ کی صرف یہی زوجہ تھیں جو حضورؐ کی حیات مبارکہ میں فوت ہوئیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا
حضرت ام سلمہؓ کا اصل نام ہند تھا، ذہین اور دانشمند خاتون تھیں۔ ان کے خاوند ابو سلمہؓ بھی غزوۂ احد میں شہید ہوئے، نبی کریمؐ نے ابو سلمہؓ کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد ان کی بہادری کی بہت تعریف کی۔ حضورؐ نے خود ام سلمہؓ کو نکاح کا پیغام بھجوایا ، چنانچہ غزوۂ احد کے بعد نبی کریمؐ سے ان کا نکاح ہوا۔ عام خیال یہ ہے کہ حضرت ام سلمہؓ کی وفات ازواجِ مطہرات میں سب سے آخر میں ہوئی۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا
حضرت زینبؓ حضورؐ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہؓ کی بیوی تھیں۔ انہوں نے حضرت زینبؓ کو طلاق دے دی تو اللہ رب العزت نے ان کا نکاح جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ کرنے کا قرآن کریم میں اعلان کر دیا۔ حضرت زینبؓ کے ساتھ حضورؐ کے اس نکاح کا قرآن کریم میں ذکر ہے جس پر حضرت زینبؓ بہت فخر کیا کرتی تھیں۔ حضرت زینبؓ حضورؐ کے خاندان بنو ہاشم سے تھیں۔ محدثین ایک دلچسپ بات نقل کرتے ہیں کہ حضورؐ نے ایک مرتبہ فرمایا، میری ازواج میں سے میرے بعد سب سے پہلے میرے پاس وہ آئے گی جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہوگا۔ اس پر بعض ازواج مطہرات نے یہ دیکھنے کے لیے اپنے ہاتھوں کی پیمائش کی کہ کس کا ہاتھ لمبا ہے۔ حالانکہ اس سے حضورؐ کی مراد زیادہ سخاوت کرنے والی یا زیادہ خرچ کرنے والی کی تھی اور یہ بات ام المؤمنین حضرت زینبؓ پر صادق آتی تھی۔حضرت زینبؓ بہت سخی اور بڑے دل والی خاتون تھیں جو ہاتھ میں آتا لوگوں پر خرچ کر دیتیں۔ چنانچہ حضورؐ کی پیشین گوئی کے مطابق آپؐ کی وفات کے بعد سب سے پہلے حضرت زینبؓ کی وفات ہوئی۔
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا
غزوۂ بنو مصطلق میں بہت سے قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے جو لوگوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ حضرت جویریہؓ لڑائی میں شکست کھانے والے قبیلے کے سردار کی بیٹی تھیں، وہ قید ہو کر حضرت ثابت بن قیسؓ کے حصے میں آئیں۔ حضورؐ نے حضرت ثابت بن قیس کو رقم ادا کر کے حضرت جویریہؓ کو آزاد کرایا اور ان سے نکاح کر لیا۔ جب لوگوں کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے بھی حضرت جویریہؓ کے قبیلے کے قیدیوں کو آزاد کرنا شروع کر دیا، یوں رسول اللہؐ کے اس نکاح کی وجہ سے سینکڑوں قیدیوں کو آزاد کر دیا گیا۔ حضرت جویریہؓ کا انتقال حضرت امیر معاویہؓ کی خلافت کے زمانے میں ہوا۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا
حضرت ام حبیبہؓ کے خاوند نے عیسائیت قبول کر لی تھی چنانچہ اسی وجہ سے ان کی اپنے خاوند سے علیحدگی ہوگئی۔ روایات میں آتا ہے کہ نجاشی حبشہ نے آپؐ کا اور ام حبیبہؓ کا نکاح پڑھایا۔ حضرت ام حبیبہؓ کی وفات بھی حضرت امیر معاویہؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا
حضرت میمونہؓ اپنے خاوند ابورہم کی وفات کے بعد رسول اللہؐ کے عقد میں آئیں۔ روایات میں آتا ہے کہ حضورؐ کے چچا حضرت عباسؓ کی خواہش پر یہ نکاح ہوا۔ حضرت عباسؓ نے ان کا نکاح پڑھایا جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا
حضرت صفیہؓ غزوۂ خیبر میں قید ہو کر آئیں، جناب رسول اللہؐ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ حضرت صفیہؓ کے والد اور بھائی غزوۂ خیبر میں مارے گئے تھے۔ حضورؐ کو حضرت صفیہؓ کے ساتھ بڑی الفت تھی اور حسب موقع ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔
نبی کریمؐ کا گھریلو ماحول
ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں جناب نبی کریمؐ کا روزانہ کا معمول یہ تھا کہ آپؐ عصر کی نماز کے بعد تمام ازواج مطہرات کے حجروں میں باری باری جایا کرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں آپؐ کا قیام مسجد نبوی کے پیچھے حجروں میں تھا۔ ایک حجرہ حضرت عائشہؓ کا تھا جس میں اب حضور نبی کریمؐ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی قبور ہیں جبکہ ایک قبر کی جگہ ابھی باقی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے مخصوص ہے۔ باقی ازواج مطہرات کے حجرے بھی ساتھ ساتھ تھے۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت عیسٰیؑ کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا تھا اس لیے ان کو دوسرے انسانوں کی طرح موت نہیں آئی اور اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کو نبی کریمؐ کے امتی کی حیثیت سے دوبارہ دنیا میں بھیجیں گے۔ انسانوں میں سب سے لمبی عمر کے انسان حضرت عیسٰیؑ ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر حضرت نوح علیہ السلام کو لمبی عمر کا انسان مانا جاتا ہے لیکن سب سے زیادہ لمبی عمر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہے کہ ان کی اس وقت تقریباً دو ہزار سال عمر ہوگئی ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ حضرت عیسٰیؑ دوبارہ نازل ہوں گے اور حضرت امام مہدیؒ کے ساتھ مل کر دنیا میں اسلام کا غلبہ قائم کریں گے، ان کی شادی ہوگی، بچے ہوں گے، مدینہ منورہ میں ان کا انتقال ہوگا اور وہ میرے ساتھ قبر میں دفن ہوں گے۔ چنانچہ اس قبر کی جگہ اب بھی خالی ہے اور وہاں لکھا ہوا ہے کہ یہ قبر کی جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے مخصوص ہے۔
جناب رسول اللہؐ روزانہ عصر کے بعد باری باری ہر زوجہ کے حجرے میں جاتے تھے، سب سے حال احوال پوچھتے تھے اور ضروریات کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے۔ رات کس زوجہؓ کے پاس گزاری جائے، اس کے لیے آپؐ نے باریاں مقرر کر رکھی تھی۔ حضورؐ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی دعا میں کہا تھا کہ یا اللہ! جو میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں برابری کرتا ہوں، یعنی ازواج کے لیے خرچہ اور عطیات وغیرہ، لیکن جو میرے اختیار میں نہیں ہے یعنی دل کا رجحان اور میلان، اے اللہ اس میں میرا مواخذہ نہ کرنا۔ دلی معاملہ آپؐ کا حضرت عائشہؓ کے ساتھ زیادہ تھا جو کہ ایک فطری بات تھی، دل کے معاملات کسی کے اختیار میں نہیں ہوتے۔ حضرت عائشہؓ نوجوان، ذہین اور سمجھدار خاتون تھیں اور ازواج مطہرات میں حضورؐ کی سب سے زیادہ پسندیدہ تھیں۔ اور یہ بات بھی غیر فطری نہیں ہے کہ جہاں ایک سے زیادہ بیویاں بیک وقت ہوں وہاں آپس میں اختلاف کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ ازواج مطہرات کی بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نوک جھونک رہتی تھی، محدثین اس بارے میں بہت سے واقعات ذکر فرماتے ہیں۔ علماء فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی اور یہ امت کی تعلیم کا ایک اہتمام تھا کہ مختلف مزاج کی عورتیں حضورؐ کے ساتھ مل جل کر رہیں، ان کی آپس میں معاصرت بھی ہو، نوک جھونک بھی ہو، لیکن اس سب کے باوجود ایک دائرے کی پابندی بھی ہو۔
ازواج مطہراتؓ میں سب سے زیادہ معاصرت حضرت عائشہؓ اور حضرت زینبؓ کے درمیان تھی۔ کبھی کبھی بات سخت بھی ہو جاتی تھی، دونوں حسب موقع ایک دوسرے پر فخر بھی جتلایا کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر حضرت زینبؓ فرمایا کرتی تھیں کہ میرا قرآن کریم میں ذکر ہے ’’فلما قضٰی زید منھا وطرًا زوجنٰکھا لکی لا یکون علی المؤمنین حرج فی ازواج ادعیاءھم (سورۃ الاحزاب ۳۷) کہ پھر جب زید اس (زینب) سے حاجت پوری کر چکا تو ہم نے آپ سے اس کا نکاح کر دیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی گناہ نہ ہو۔ حضرت زینبؓ دوسری ازواج مطہرات سے فرمایا کرتی تھیں کہ تم سب کا نکاح زمین پر ہوا جبکہ میرا نکاح آسمانوں پر ہوا۔ تم میں سے کسی کے نکاح کا ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے لیکن میرے نکاح کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سب ازواج اکٹھی ہوئیں کہ حضوؐر سے کچھ ضروری بات کرنی ہے اس کے لیے انہوں نے آپس میں فیصلہ کر کے حضرت زینبؓ متکلم بنایا۔ حضرت زینبؓ نے لمبی گفتگو کی کہ یا رسول اللہؐ ازواج مطہرات کو حضرت عائشہؓ کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں وغیرہ۔ جب حضرت زینبؓ بات مکمل کر چکیں تو حضرت عائشہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہؐ مجھے بھی اجازت ہے کہ میں کچھ بات کروں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں تمہارا بھی حق ہے۔ حضرت عائشہؓ بہت فصیح اللسان تھیں ان کی فصاحت اپنے زمانے میں ضرب المثل تھی۔ جب حضرت عائشہؓ نے گفتگو شروع کی تو سب ازواج خاموش ہوگئیں۔ حضورؐ نے آخر میں ایک ہی جملہ فرمایا کہ آخر ابوبکرؓ کی بیٹی ہے، یعنی باقی ازواج سے کہا کہ اب بولو عائشہؓ کے سامنے۔ چنانچہ اس قسم کی باتیں ازواج مطہرات میں آپس میں معاصرت کی ہو جایا کرتی تھیں۔
یہ فطری بات ہے کہ ایک خاوند کی زیادہ بیویاں ہوں تو ان کا آپس میں کسی نہ کسی بات پر اختلاف ہوجاتا ہے۔ لیکن جب منافقوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تو ازواجِ مطہرات سے حضرت عائشہؓ کے کردار کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس واقعہ کے گزرجانے کے بعد حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ مجھے سب سے زیادہ خطرہ زینبؓ سے تھا لیکن حضرت عائشہؓ کے بارے میں سب سے زیادہ صفائی حضرت زینبؓ نے ہی دی۔ حضرت زینبؓ نے فرمایا ’’ما علمت فیھا الا خیرًا‘‘ یا رسول اللہؐ میں نے تو عائشہ میں خیر کے سوا کوئی بات نہیں دیکھی۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ازواج کے درمیان باہمی زندگی کا ایک نمونہ بتایا کہ یہ موقع ہوتا ہے فائدہ اٹھانے کا، لیکن حضرت زینبؓ نے باوجود معاصرت کے وہ بات کہی جسے وہ دیانت داری کے ساتھ سچ سمجھتی تھیں۔
خرچے کا معاملہ یہ تھا کہ جو کچھ حضورؐ کے پاس ہوتا آپؐ برابر تقسیم فرما دیتے تھے۔ آپؐ کا کوئی مستقل کاروبار تو تھا نہیں، غنیمت میں سے حصہ مل جاتا، بیت المال سے کوئی چیز مل جاتی، یا کوئی ہدیہ پیش کر دیتا تو حضورؐ ازواج میں تقسیم فرما دیتے۔ گھر کی صورتحال کے بارے میں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کبھی ہم یعنی حضورؐ کے خاندان پر ایسا وقت نہیں گزرا کہ ہم نے عام قسم کی کھجوریں تین دن مسلسل پیٹ بھر کر کھائی ہوں، کئی کئی دن چولہے میں آگ نہیں جلتی تھی۔ کبھی کچھ کھجوریں مل جاتیں، کبھی ستو وغیرہ مل جاتا اور کبھی کچھ بھی نہ ملتا۔ فرماتی ہیں کہ جب حضورؐ حیات تھے تو ہم میں سے ہر ایک کے پاس صرف ایک ایک جوڑا کپڑوں کا ہوتا تھا۔ یہ رسول اللہؐ کی ہدایت تھی کہ زندگی میں غیر ضروری سہولتیں اختیار نہ کی جائیں۔ رسول اللہؐ نے اختیاری طور پر اور حکمت کے طور پر یہ زندگی اختیار کی تھی اور حضورؐ کی زندگی کے بعد بھی ازواج مطہرات نے آخر وقت تک یہی طرز زندگی اپنائے رکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپؐ کے وصال کے بعد ازواج کے پاس مال زیادہ آتا تھا لیکن وہ سب ضرورت مندوں پر خرچ بھی ہو جاتا تھا۔
یہ جناب نبی کریمؐ کے گھر کا ماحول تھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ نے زندگی بھر ہم ازواج کو گھر کے معاملات میں نہیں ٹوکا، حضورؐ سختی نہیں فرماتے تھے۔ حضورؐ نے خود فرمایا کہ ’’انا خیرکم لأھلی‘‘ کہ میں تم میں سے اپنے خاندان کے ساتھ سب سے بہتر ہوں۔ البتہ دینی معاملے میں کمی بیشی ہوتی تو آپؐ اس کا نوٹس لیتے تھے لیکن گھر کے اندر یا دنیوی معاملات میں کسی قسم کا کوئی نقصان ہوتا تو رسول اللہؐ ہمارے ساتھ اس کے متعلق نرمی سے پیش آتے۔ رسول اللہ گھر کے کاموں میں ہمارا ہاتھ بٹاتے تھے۔ چنانچہ رسول اللہؐ نے حسب ضرورت گھر میں جھاڑو بھی دیا، جوتے بھی گانٹھے اور چارپائیاں بھی کسیں۔ اس طرح گھر کے دیگر کاموں میں حضورؐ ازواجِ مطہرات کی مدد فرمایا تھے۔
نبی کریمؐ کی اولاد
حضرت ابراہیمؓ کے علاوہ حضورؐ کی ساری اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھی۔ صرف حضرت ماریہؓ کے بطن سے حضرت ابراہیمؓ کی ولادت ہوئی جو مصر کے بادشاہ مقوقس نے آپؐ کو ہدیہ میں بھیجی تھیں۔
حضرت قاسم رضی اللہ عنہ
حضرت خدیجہؓ سے آپؐ کی اولاد میں، بیٹوں میں یقینی طور پر حضرت قاسمؓ کا نام آتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ حضرت قاسمؓ اتنی عمر کو پہنچ گئے تھے کہ گھوڑے کی سواری کر لیتے تھے لیکن نبوت سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ باقی بیٹوں کے نام بعض روایات میں آتے ہیں، عبد اللہ، طاہر اور طیب۔ اس میں مؤرخین اختلاف کرتے ہیں کہ یہ الگ الگ بیٹے ہیں یا ایک ہی بیٹے کا نام عبد اللہ ہے اور لقب طاہر ہے۔ یہ بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے، قاسم چونکہ بڑے ہوئے تھے اس لیے ان کا ذکر روایات میں آتا ہے۔ رسول اللہؐ کی کنیت ابوالقاسم انہی کی وجہ سے تھی۔ چھوٹے بچوں کے نام تو روایات میں آتے ہیں لیکن ان کے بارے میں تفصیلات نہیں آتیں، بعض محدثین کہتے ہیں کہ دو بیٹے تھے، بعض کہتے ہیں کہ تین بیٹے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ عبد اللہ، طاہر، طیب ایک ہی بیٹے کے نام تھے۔
البتہ حضورؐ کی چار بیٹیاں تھیں، چاروں جوان ہوئیں اور چاروں کی شادیاں ہوئیں۔ تین بیٹیوں کی اولاد ہوئی جبکہ ایک کی اولاد نہیں ہوئی۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا
آپؐ کی بڑی بیٹی حضرت زینبؓ کا نکاح اپنے خالہ زاد ابوالعاص بن ربیعؓ سے ہوا تھا جو حضرت خدیجہؓ کے بھانجے تھے۔ یہ غزوۂ بدر میں کفار کی طرف سے تھے۔ غزوۂ بدر کے بعد ابوالعاص حضورؐ کی قید میں آگئے تھے جبکہ دونوں کا نکاح باقی تھا کہ ابھی نکاح کے نئے قوانین نازل نہیں ہوئے تھے۔ حضرت زینبؓ نے اپنا ہار فدیہ میں دے کر انہیں رہا کروایا۔ ابوالعاصؓ بعد میں ایک موقع پر مسلمان ہوگئے تھے اور پھر مسلمانوں کی طرف سے معرکوں میں شریک ہوتے رہے، بہت بہادر آدمی تھے۔ ان کا ذکر نبی کریمؐ اس طرح فرمایا کرتے تھے کہ ابوالعاصؓ نے مجھے میری بیٹی کے بارے میں کبھی تنگ نہیں کیا۔ کسی باپ کا اپنی بیٹی کے حوالے سے داماد کا خیر سے ذکر کرنا بڑی بات ہوتی ہے۔ حضرت زینبؓ کی اولاد میں ایک بیٹا تھا اور ایک بیٹی۔ بڑی بیٹی امامہؓ تھیں جبکہ بیٹے علی تھے۔ امامہؓ حضورؐ کی بہت لاڈلی نواسی تھیں، روایات میں آتا ہے کہ امامہؓ نماز کے دوران حضورؐ کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، حضورؐ قعدے میں بیٹھتے تھے تو امامہؓ کبھی کندھے پر چڑھ جاتیں اور کبھی آکر گود میں بیٹھ جاتی تھیں۔ حضورؐ نماز کے دوران سجدے میں جاتے تھے تو یہ گردن پر چڑھ کر بیٹھ جاتی تھیں۔ ایک روایت میں تو یوں آتا ہے کہ حضورؐ نے ایک دفعہ امامہؓ کو اپنی گود میں اٹھا کر نماز مکمل کی۔
جناب رسول اللہؐ بچوں سے بہت شفقت فرمایا کرتے تھے، بچوں کو گود میں اٹھانا، ان کو پیار کرنا، انہیں بوسہ دینا، ان کے سر پر ہاتھ پھیرنا، ان کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کرنا۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں بچوں کے ساتھ حضورؐ سے زیادہ شفقت کرنے والا نہیں دیکھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضورؐ بچوں کو بہلانے کے لیے زبان ہلا کر دکھایا کرتے تھے، آپؐ بچوں کے ساتھ بچہ بن جایا کرتے تھے۔ امامہؓ جوان ہوئیں تو حضرت فاطمہؓ کے انتقال کے بعد حضرت علیؓ کے نکاح میں آئیں۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کی وصیت کے مطابق حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے امامہؓ سے نکاح کیا۔ حضرت زینبؓ کے ایک بیٹے تھے جن کا نام علیؓ تھا۔
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
حضورؐ کی دوسری بیٹی حضرت رقیہؓ تھیں۔ حضرت رقیہؓ کا نکاح حضورؐ نے پہلے ابولہب کے بیٹے عتبہ سے کیا تھا، نکاح ہوگیا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ جبکہ حضورؐ کی تیسری بیٹی ام کلثوم ابولہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ کے نکاح میں تھیں۔اس دوران دعوتِ اسلام کا سلسلہ شروع ہوگیا، ابولہب نے اس عداوت میں اعلان کر دیا کہ میں اپنے بیٹوں کی شادیاں حضورؐ کی بیٹیوں سے نہیں کروں گا۔ پھر حضرت رقیہ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے ہوا ، حضرت عثمانؓ جب ہجرت کر کے حبشہ گئے تو حضرت رقیہؓ ان کے ساتھ تھیں، حبشہ میں ان کا بیٹا عبد اللہؓ پیدا ہوا۔ حضرت عثمانؓ انہی کے حوالے سے ابوعبد اللہؓ کہلاتے تھے۔ یہ حضورؐ کا دوسرا نواسہ جبکہ حضرت رقیہؓ کے بطن سے پہلا بیٹا تھا، چھ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ ایسے کہ مدینہ منورہ واپس آئے، ایک مرتبہ کھیل رہے تھے کہ کسی دوسرے بچے نے چھڑی ماری جو آنکھ میں لگ گئی، اسی زخم سے پھر وفات ہوگئی۔ حضرت عثمانؓ مدینہ میں ہوتے ہوئے بھی بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت رقیہؓ گھر میں بیمار تھیں، حضرت عثمانؓ کے علاوہ اور کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ حضورؐ نے خود حضرت عثمانؓ سے گھر پر رکنے کا کہا تھا کہ رقیہؓ اٹھ نہیں سکتی، پانی نہیں پی سکتی، معذور ہے، اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ حضرت رقیہ کی تیمار داری میں مدینہ منورہ میں رکے رہے اور پھر اسی حالت میں غزوۂ بدر کے بعد حضرت رقیہؓ کا انتقال ہوگیا۔
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا
حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد حضورؐ نے اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم حضرت عثمانؓ کے نکاح میں دی، اسی لیے حضرت عثمانؓ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے یعنی دو نوروں والا۔ ایک بیٹی کے بعد دوسری بیٹی کو نکاح میں دینا، یہ داماد پر بے پناہ اعتماد کی علامت ہے۔ جب حضرت ام کلثومؓ بھی فوت ہوگئیں تو اس وقت حضورؐ کی بیٹیوں میں صرف حضرت فاطمہؓ زندہ تھیں اور حضرت علیؓ کے نکاح میں تھیں۔ حضورؐ نے حضرت عثمانؓ سے ایک جملہ فرمایا کہ اے عثمان! اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں تیرے نکاح میں دیتا جاتا۔ حضرت ام کلثومؓ کی اولاد نہ تھی۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
حضورؐ کے تیسرے داماد حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے۔ دامادوں میں حضرت علیؓ حضورؐ کے سب سے زیادہ چہیتے داماد تھے جبکہ بیٹیوں میں حضرت فاطمہؓ حضورؐ کی سب سے زیادہ چہیتی بیٹی تھیں۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ سب سے چھوٹا بچہ زیادہ لاڈلا ہوتا ہے، رسول اللہؐ کو حضرت فاطمہؓ سے بہت محبت تھی۔ آپؐ کسی سفر پر جانے سے پہلے سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ملنے جاتے، آپؐ سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے پاس جاتے۔ جب حضرت فاطمہؓ جوان ہوئیں تو مختلف جگہوں سے شادی کے پیغامات آتے جن پر حضورؐ خاموش ہو جاتے تھے۔ لیکن جب حضرت علیؓ نے حضورؐ سے پوچھا کہ اگر فاطمہؓ کا نکاح میرے ساتھ ہو جائے تو اس پر حضورؐ مسکرائے۔ محدثین فرماتے ہیں کہ شاید حضورؐ اسی انتظار میں تھے۔ حضرت علیؓ درویش آدمی تھے، حضورؐ نے پوچھا کچھ پاس ہے بھی یا نہیں؟ حضرت علیؓ نے بتایا، یا رسول اللہؐ کچھ بھی نہیں ہے۔ پوچھا مہر دینے کے لیے کچھ ہے؟ بتایا، یا رسول اللہؐ وہ بھی نہیں ہے۔ حضورؐ نے پوچھا وہ زرہ کہاں ہے جو تمہیں غنیمت میں ملی تھی؟ بتایا، وہ میرے پاس ہے۔ آپؐ نے فرمایا جاؤ لے کر آؤ۔ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے وہ زرہ لے کر بیچ دی جسے حضرت عثمانؓ نے خریدا۔ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اس میں سے مہر بھی ادا کرنا اور کچھ سامان وغیرہ بھی خریدنا۔ اور جب نکاح ہوگیا تو رہائش کا مسئلہ پیدا ہوگیا کہ حضرت علیؓ تو حضورؐ کے پاس ہی رہتے تھے۔ ایک انصاری صحابیؓ تھے حضرت حارثؓ، وہ کہنے لگے کہ حضورؐ میرے پاس ایک مکان فارغ ہے، میری اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی کہ آپؐ کی بیٹی اور داماد وہاں رہیں۔ چنانچہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ وہاں منتقل ہوگئے۔ حضورؐ کی زندگی میں حضرت فاطمہؓ کے علاوہ آپؐ کی ساری اولاد فوت ہوگئی تھی۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ آنحضرتؐ بیماری کی حالت میں تھے تو حضرت فاطمہؓ آیا کرتی تھیں اور حضورؐ کا حال احوال پوچھا کرتی تھیں۔ آپؐ کی وفات سے کچھ دن پہلے حضرت فاطمہؓ آئیں اور آکر حال احوال پوچھا، حضورؐ نے بھی ان کی خیریت دریافت کی۔ حضورؐ نے حضرت فاطمہؓ کے کان میں کچھ بات کہی جس سے حضرت فاطمہؓ زاروقطار رونے لگ گئیں۔ اس پر آپؐ نے دوبارہ حضرت فاطمہؓ کے کان میں کچھ کہا تو وہ ہنسنے لگ گئیں۔ حضرت فاطمہؓ حضورؐ کے پاس سے اٹھ کر حضرت عائشہؓ کے پاس گئیں تو انہوں نے پوچھ لیا کہ کیا بات تھی کہ پہلے حضورؐ نے کچھ کہا تو آپ رونے لگ گئیں اور دوبارہ کچھ کہا تو آپ ہنسنے لگ گئیں۔ حضرت فاطمہؓ نے کہا کہ کان میں بات کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ یہ راز کی بات تھی۔ حضرت فاطمہؓ نے وہ بات رسول اللہؐ کی حیات میں کسی کو نہیں بتائی۔ حضورؐ کے انتقال کے بعد جب حالات معمول پر آئے تو حضرت عائشہؓ نے حضرت فاطمہؓ سے پھر وہی بات پوچھی۔ اس پر وہ کہنے لگیں کہ بات یہ ہے کہ رسول اللہؐ نے میرے کان میں کہا تھا کہ فاطمہ! میں دنیا سے جا رہا ہوں۔ باپ کی وفات کی خبر کا ایک بیٹی کو کتنا صدمہ ہو سکتا ہے۔ حضرت فاطمہؓ کہتی ہیں کہ جب میں نے رونا شروع کیا تو حضورؐ نے میرے کان میں پھر کہا کہ میرے بعد سب سے پہلے تم میرے پاس آؤ گی۔
صوفیاء فرماتے ہیں کہ دیکھو، یہ محبت کا رشتہ کیسا رشتہ ہوتا ہے کہ رسول اللہؐ نے جب حضرت فاطمہؓ کو اپنی وفات کی خبر دی تو آپ روپڑیں لیکن جب ان کی وفات کی خبر دی تو اس پر خوش ہوگئیں۔ اب کسی کو وفات کی خبر دی جائے تو اس کا کیا رد عمل ہونا چاہیے۔ یہ محبت کے رشتے ہوتے ہیں کہ جن میں زندگی و موت کا معاملہ بے معنی ہو جاتا ہے۔ نبی کریمؐ نے حضرت فاطمہؓ کو ان کی موت کی خبر دی تو وہ خوش ہوگئیں اور ہنسنے لگیں کہ والد سے جدائی کے دن زیادہ نہیں ہیں۔ چنانچہ نبی کریمؐ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہؓ تقریباً چھ مہینے حیات رہیں۔ رسول اللہؐ کی سب سے چھوٹی، سب سے چہیتی اور سب سے لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہؓ تھیں۔ حضورؐ نے فرمایا ’’فاطمہ بضعۃ منی‘‘ فاطمہ میرے دل کا ٹکڑا ہے۔
یہ فطری بات ہے کہ انسان کو کچھ باتیں طبعی طور پر ناگوار گزرتی ہیں۔ ابوجہل کی بیٹی مسلمان ہوگئی تھی اور صحابیہ بن کر مدینہ منورہ آگئی تھی۔ حضرت علیؓ کے دل میں اس کے ساتھ نکاح کا خیال آیا اور یہ کوئی ایسی بڑی بات بھی نہیں تھی کہ عرب میں تعددِ ازدواج کا عام رواج تھا۔ رسول اللہؐ کو خبر ہوئی تو حضورؐ نے اس کو پسند نہ فرمایا جس پر حضرت علیؓ نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔ حالانکہ وہ صحابیہ تھی لیکن یہ حضورؐ کا حضرت فاطمہؓ کے ساتھ طبعی رشتہ تھا کہ حضورؐ نے اس کو گوارا نہ کیا۔ حضرت فاطمہؓ بہت با حیا تھیں۔ ایک مرتبہ اسماء بنت عمیسؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ جب ہم ہجرت کر کے حبشہ گئے تو وہاں میں نے جنازے کا ایک طریقہ دیکھا تھا کیا میں وہ بتاؤں آپ کو؟ فرمایا، ہاں بتاؤ۔ اسماء نے طریقہ بتایا کہ وہاں کے لوگ میت کی چارپائی کے دونوں طرف درخت کی ٹہنیاں پھنسا کر اس کا محراب بناتے تھے اور پھر اس کے اوپر پردہ ڈال دیتے تھے۔ اس پر حضرت فاطمہؓ نے کہا کہ میرے جنازے پر ایسا ہی کرنا۔
حضرت فاطمہؓ کے تین بیٹے تھے۔ حضر ت حسنؓ ، حضرت حسینؓ اور حضرت محسنؓ۔ رسول اللہؐ کی گود میں جن بچوں نے پرورش پائی ان میں حضرت امامہؓ ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ تھے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہؐ دوپہر کو آرام فرما رہے تھے کہ حضرت حسنؓ آپ کے پیٹ پر چڑھ کر بیٹھے اور کپڑے گیلے کر دیے، حضورؐ نے اٹھ کر کپڑے پاک کرنے کا انتظام کیا۔ رسول اللہؐ ان سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ بنو تمیم کے سردار اقرع بن حابسؓ پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے غالباً حضرت حسنؓ یا حضرت حسینؓ کو بوسہ دیا۔ اقرع نے حیرانگی سے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ آپ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں؟ میرے دس بچے ہیں، میں نے تو کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ایک روایت کے مطابق فرمایا کہ خدا نے اگر تیرے سینے میں پتھر کا دل رکھ دیا ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ ایک دفعہ رسول اللہؐ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ حضرت حسنؓ جو سامنے سے گزر رہے تھے، ٹھوکر کھا کر گر پڑے۔ حضورؐ نے دیکھا تو آپؐ سے رہا نہ گیا، آپؐ منبر سے اتر کر گئے، حضرت حسنؓ کو اٹھا کر اپنے ساتھ منبر پر لائے اور پھر اسی طرح خطبہ ارشاد فرمانا شروع کر دیا۔ پھر یہ پیشین گوئی فرمائی ’’ان ابنی ھذا سیدًا وسیصلح اللّٰہ بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین‘‘ کہ یہ میرا بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کروائے گا۔
حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ
آپؐ کے آخری بیٹے حضرت ابراہیمؓ حضرت ماریہ قبطیہؓؓ کے بطن سے تھے۔ بعض روایات میں ایک سال اور بعض روایات میں دو سال کا ذکر آتا ہے کہ اِس عمر میں ان کا انتقال ہوگیا تھا، حضورؐ ان کی وفات پر بہت غمگین ہوئے، آپؐ نے فرمایا ’’انّا بفراقک یا ابراھیم لمحزونون‘‘ اے ابراہیمؓ! ہم تمہاری جدائی پر بہت غمزدہ ہیں۔ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، ایک صحابیؓ نے کہا کہ یا رسول اللہؐ آپ ہمیں رونے سے منع فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ زبان کے رونے سے منع کرتا ہوں آنکھ کا رونا تو فطری ہے۔ زبان کا رونا منع ہے یعنی شکوہ کرنا اور بین کرنا وغیرہ لیکن جب آدمی غمگین ہو تو آنکھوں سے آنسو بہتے ہی ہیں۔
نبی کریمؐ کے متعلقین
حضورؐ کے اہلِ خاندان کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی تھے جو گھر کے افراد سمجھے جاتے تھے۔ دو تین شخصیات ایسی تھیں کہ جنہیں باہر سے آنے والا گھر کے افراد ہی سمجھتا تھا۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ
حضرت بلالؓ فرماتے ہیں کہ ہجرت سے لے کر حضورؐ کے وصال تک، رسول اللہؐ کے گھر کے کام کاج میری ذمہ داری ہوا کرتے تھے۔ کوئی رقم آتی تو گھر کے خرچ اور گھر کی ضروریات کے لیے میرے حوالے ہو جاتی تھی، گھر کے متعلق کوئی بھی کام ہوتا حضورؐ مجھ سے کہتے تھے کہ بلال! فلاں فلاں کام کرنا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
دوسرے عبد اللہ بن مسعودؓ تھے جن کے پاس حضورؐ کی مسواک اور بچھونا وغیرہ ہوتا تھا۔ حضورؐ کے لیے قضائے حاجت یا وضو کے پانی وغیرہ کا بندوبست کرنا، یہ ان کا کام تھا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا تو لقب ہی پڑ گیا تھا ’’صاحب الوسادۃ‘‘ کہ یہ حضورؐ کے بچھونے والے ہیں۔ مدینہ منورہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ حضورؐ کے ذاتی خادم کی ذمہ داری نبھاتے تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
تیسرے آدمی حضرت انس بن مالکؓ تھے جو حضورؐ کے ذاتی خادم تھے، ان کا قصہ بھی بہت عجیب ہے۔ ان کی والدہ محترمہ ہجرت سے پہلے مسلمان ہوگئی تھیں، ان کے خاوند کا نام مالک آتا ہے جو ان کے قبول اسلام سے ناراض ہو کر گھر بار چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ حضرت انسؓ کی والدہ نے پھر ابو طلحہؓ سے نکاح کیا۔ حضورؐ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت انسؓ کی عمر دس سال تھی۔ والدہ نے کہا کہ یا رسول اللہؐ ہمارے پاس اور تو کچھ نہیں ہے لیکن یہ بچہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہے، پھر انس بن مالکؓ آپؐ کی خدمت میں رہے۔ گھر میں کئی باتوں کی ضرورت ہوتی ہے، کسی کو بلانا، کسی کو پیغام پہنچانا، گھر کی دیگر ضروریات وغیرہ۔ حضرت انسؓ نے دس سال تک حضورؐ کی خدمت کی، اس پر حضورؐ نے حضرت انسؓ کو ایک دعا دی جو کہ ایک مشہور دعا ہے۔ حضورؐ نے دعا فرمائی ’’اللّٰھم بارک لہ فی عمرہ و مالہ واکثر ولدہ‘‘ کہ اے اللہ ! اسے مال بھی بہت زیادہ دے اور اولاد بھی بہت زیادہ دے۔ چنانچہ سب سے آخر میں جن چند صحابہؓ نے وفات پائی، حضرت انسؓ ان میں سے ایک تھے۔ مختلف روایات کے مطابق ۱۰۲ھ یا ۱۰۳ھ یا ۱۰۴ھ میں انہوں نے وفات فرمائی۔ تقریباً ۱۱۲ سال کی عمر پائی، حضرت انسؓ کی براہ راست اولاد ۲۰۰ سے زیادہ تھی جبکہ بے حساب دولت کے مالک تھے۔
میں نے رسول اللہؐ کے کنبے اور خاندان کا مختصر تعارف آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ نبی کریمؐ پر کروڑوں درود نازل فرمائیں، آپؐ کی ازواج پر، آپؐ کی اولاد پر، آپؐ کے تمام متعلقین پر اور قیامت تک آنے والے آپؐ کے تمام اتباع پر اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جناب نبی کریمؐ کی سیرت پر چلنے کی، آپؐ کے اسوہ کو اپنانے کی اور حضورؐ کی سنت کا ذوق بیدار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔