معاصر قومی اخبار روزنامہ نوائے وقت نے گزشتہ روز ادارتی شذرہ میں یہ خوشگوار انکشاف کیا ہے کہ فرزند اقبالؒ ڈاکٹر جاوید اقبال نے گزشتہ دنوں افغانستان کا دورہ کیا ہے اور واپسی پر اکوڑہ خٹک میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کے اسلامی انقلاب کی تعریف کی ہے اور اسے ایک کامیاب انقلاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح طالبان نے افغانستان میں امن قائم کیا آج کے دور میں اور کوئی نہیں کر سکتا۔ مذکورہ ادارتی شذرہ کے مطابق ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس ارادے کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان میں طالبان اور ان کے طرزِ حکومت کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے آواز اٹھائیں گے۔
جہاں تک طالبان کے طرز حکومت کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے سادگی، قناعت اور فرض شناسی کے حوالہ سے ان عادل حکمرانوں کی یاد تازہ کر دی ہے جن کا تذکرہ ہم اب تک صرف کتابوں میں ہی پڑھتے آرہے ہیں۔ خود راقم الحروف کو بھی طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد دو بار افغانستان جانے کا موقع ملا ہے اور امارت اسلامی افغانستان کے سربراہ ملا عمر سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ مجھے ان کی جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی بے تکلفی، قناعت اور اسلامی احکام و قوانین کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ ہے جس کے لیے وہ دنیا کی ہر قوت اور ہر دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے معیار زندگی کو اتنا آگے بڑھایا ہی نہیں کہ انہیں عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے جھولی پھیلانے پر مجبور ہونا پڑے۔ جہاں ایک وفاقی وزیر کی تنخواہ ہزار بارہ سو روپے پاکستانی کے لگ بھگ ہو اور جہاں وفاقی وزیر کے ناشتہ میں دودھ کے بغیر چائے کے ساتھ رات کی بچی ہوئی روٹی کے ٹکڑے ہوں وہاں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کیا کریں گے؟ اور یہی راز ہے طالبان کی کامیابی کا کہ انہوں نے اپنی چادر ماپ رکھی ہے اور اپنے پاؤں کو اس کی حدود کے اندر رہنے کا عادی بنا لیا ہے۔
اسی طرح افغانستان جیسے فساد زدہ ملک میں جہاں ایک ایک شہر میں درجنوں مسلح گروپ باہم متصادم رہتے ہیں اس درجہ کا امن قائم کرنا کہ طالبان کی ہر حرکت کو ناقدانہ انداز میں جانچنے والا ورلڈ میڈیا بھی اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے بلاشبہ اس دور میں اسلام کا معجزہ ہے اور اس حقیقت کا عملی اظہار ہے کہ انسانی معاشرہ میں امن کی ضمانت اسلامی احکام و قوانین کے عملی نفاذ کے ذریعہ ہی دی جا سکتی ہے۔
طالبان نے امن کے قیام کے لیے کوئی لمبی چوڑی محنت نہیں کی اور نہ ہی مختلف ملکوں میں کمیشن بھیج کر ان کے نظاموں کو اسٹڈی کیا ہے بلکہ صرف دو کام کیے ہیں۔
- ایک یہ کہ تمام شہریوں سے اسلحہ واپس لے کر انہیں نہتا کر دیا،
- دوسرا یہ کہ معاشرتی جرائم پر قرآن و سنت کی بیان کردہ شرعی سزاؤں کو عملاً نافذ کر دیا ہے۔
اس بارے میں انہوں نے کسی رو رعایت سے کام نہیں لیا، کسی وی آئی پی کا لحاظ نہیں کیا اور قانون کے سامنے کسی فرد یا گروہ کے امتیاز کو سر نہیں اٹھانے دیا۔ اس لیے وہ یہ بات کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ ان کا زیر حکومت علاقہ اس وقت دنیا کا سب سے پر امن علاقہ ہے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال ہمارے ملک کے معروف دانشور ہیں، صاحب علم ہیں، صاحب مطالعہ ہیں اور علامہ محمد اقبالؒ کے فرزند کی حیثیت سے امتیازی تعارف رکھتے ہیں۔ لیکن اسلامی نظام اور اسلام کی تشریح کے حوالہ سے اب تک ان کی سوچ جمہور علماء سے ہمیشہ مختلف رہی ہے۔ انہیں جب بھی موقع ملا ہے انہوں نے ترکی کے سیکولر انقلاب کی حمایت کی ہے اور اسی طرز کے ’’اجتہاد‘‘ کو پاکستان میں فروغ دینے کی بات کی ہے جسے پاکستان کے دینی حلقوں میں کبھی اچھا نہیں سمجھا گیا اور خود ہم نے بھی متعدد مواقع پر اپنے مضامین میں ان کے افکار پر کھلے بندوں تنقید کی۔ لیکن ڈاکٹر جاوید اقبال کے دورۂ افغانستان کی اس اچانک خبر نے جہاں خوشی کے ایک نئے احساس سے دوچار کیا ہے وہاں اس حقیقت کے ایک بار پھر ادراک کا موقع بھی فراہم کیا ہےکہ محض سنی سنائی باتوں اور میڈیا کی پھیلائی ہوئی خبروں کی بنیاد پر کسی معاشرہ اور قوم کے بارے میں تاثرات قائم کرلینا درست طرز عمل نہیں ہوتا بلکہ صحیح تاثر وہاں کے حالات کا خود مشاہدہ کرلینے کے بعد ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ ہم ایک طرف تو ڈاکٹر جاوید اقبال کے تفصیلی تاثرات کے منتظر ہیں کہ انہوں نے جو کچھ افغانستان میں دیکھا اس کے بارے میں ان کی مثبت یا منفی رائے کیا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ وہاں سب کچھ تو مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوگا، کچھ کمزوریاں اور خامیاں بھی ہوں گی اور ان کی نشاندہی بھی اہل دانش کا کام ہے بشرطیکہ وہ خلوص دل سے اصلاح احوال کے جذبہ کے ساتھ ہوں۔ اور اس کے ساتھ ہی ہم دیگر اہل دانش سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ طالبان اور افغانستان کے بارے میں ورلڈ میڈیا کے تبصروں اور خبروں پر انحصار کرنے کی بجائے خود وہاں جائیں، حالات کا مشاہدہ کریں، انقلاب کا تجزیہ کریں اور اس کی خوبیوں کا فراخ دلی سے اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ کمزوریوں اور خامیوں کی نیک نیتی کے ساتھ نشاندہی کریں۔ آخر ہم بھی نصف صدی سے ملک میں اسلامی نظام کا خواب دیکھ رہے ہیں اور اس کے لیے کسی ماڈل کی تلاش میں ہیں۔ اس ماڈل سسٹم کی تلاش میں مغرب اور مشرق کے کئی ملکوں میں ہمارے دانشوروں کے وفود جا چکے ہیں اور کئی نظاموں کا ہم نے مطالعہ کیا ہے۔ یہ قریب اور پڑوس کا نظام بھی ایک نظر دیکھ لیں، ہو سکتا ہے کہ ہمارا کام یہیں بن جائے۔