امریکی صدر بل کلنٹن نے اعلان کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے پر طالبان کو سزا دینا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ افغانستان پر عائد کی جانے والی پابندیوں کا مقصد طالبان تحریک کو عالمی برادری سے دہشت گردی سمیت اہم معاملات پر عدم تعاون کی راہ اپنانے کی سزا دینا ہے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان جنرل اسمبلی میں سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ افغانستان دنیا بھر کے مذہبی دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور ان کے خیال میں افغانستان میں خانہ جنگی، وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور مذہبی انتہا پسندی کی لہر نئی صدی میں افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن جائے گی۔ مسٹر کوفی عنان کا کہنا ہے کہ افغانستان مذہبی انتہا پسندوں کی پرورش گاہ بن چکا ہے جہاں پاکستان سمیت عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے کم عمر بچوں کو طالبان کے ساتھ جہاد میں جھونکا جاتا ہے۔
بل کلنٹن اور کوفی عنان کی طالبان کے بارے میں یہ شکایات نئی نہیں ہیں اور وہ ایک عرصہ سے ان الزامات کا تکرار کر رہے ہیں لیکن اصل میں انہیں تکلیف اس بات پر ہو رہی ہے کہ ان کے بیانات، وسیع تر پراپیگنڈے اور طالبان کی کردار کشی کی مہم پر پاکستان اور جنوبی ایشیا کے مسلمان ’’ایمان‘‘ نہیں لائے اور ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے طالبان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی حکومت اور اس کی آلہ کار اقوام متحدہ کے بزرجمہروں کا خیال تھا کہ وہ جو ارشاد فرمائیں گے وہ سچ سمجھا جائے گا، ان کی قراردادوں اور فیصلوں کو صحیفۂ آسمانی تصور کیا جائے گا اور جب وہ طالبان کی کردار کشی کی عالمی مہم اور میڈیا کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد افغانستان پر پابندیاں عائد کریں گے تو اس خطہ کے عوام سجدۂ شکر بجا لائیں گے کہ امریکہ بہادر نے دہشت گردوں سے ان کی حفاظت کا انتظام کر دیا ہے اور وہ طالبان سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور امریکہ کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کر کے ان کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان کے ساتھ اس خطہ کے عوام کی ہمدردیاں بڑھ گئی ہیں اور اہل دانش پہلے سے زیادہ اعتماد اور حوصلہ کے ساتھ طالبان کا دفاع کر رہے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کے بارے میں عالمی برادری کے نام نہاد ٹائٹل میں لپٹا ہوا امریکی ایجنڈا من و عن قبول کرنے سے معذرت کر دی ہے، ایران نے افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے پیش رفت کی ہے اور پاکستان کی دینی جماعتیں افغانستان اور طالبان کی حمایت میں پہلے سے زیادہ متحرک اور سرگرم ہوگئی ہیں۔
کلنٹن اور کوفی عنان کو اس بات کا بھی دکھ ہے کہ انہوں نے طالبان پر دیوبندی کا لیبل چسپاں کر کے پاکستان کے بہت سے دینی حلقوں کو ان سے دور رکھنے کی جو منصوبہ بندی کی تھی اور بین الاقوامی پریس کی رپورٹوں میں اسے دیوبندیوں کی حکومت قرار دے کر طالبان کو کارنر کرنے کی جو کوشش کی تھی وہ بھی کامیابی کا ہدف حاصل نہیں کر سکی۔ اور طالبان کو جہاں مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق کی قومی آواز کی پشت پناہی حاصل ہے وہاں وہ مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبد الستار خان نیازی، قاضی حسین احمد، لشکر طیبہ اور علامہ ساجد نقوی کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں اور طالبان کی تحریک کو کارنر کرنے کا امریکی منصوبہ فلاپ ہوتا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسٹر کلنٹن کا ’’حقائق نامہ‘‘ اور کوفی عنان کی یہ رپورٹ اسی غصہ کا اظہار ہے جو انہیں اپنی پالیسیوں میں ناکامی پر چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ طالبان آج بھی وہی ہیں جو روس کے خلاف جہاد کے موقع پر تھے، اس وقت بھی انہوں نے ڈاڑھیاں رکھی ہوئی تھیں، ان کی عورتیں پردے سے باہر نہیں آتی تھیں، وہ تب بھی نمازیں پڑھتے تھے، دنیا بھر سے مسلمان نوجوان جہاد کی تربیت کے لیے ان کے پاس آتے تھے، وہ اس وقت بھی اسلام کی بالادستی اور اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کرتے تھے، ان کے دل اس وقت بھی شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے دھڑکتے تھے اور روس کے خلاف وہ جنگ بھی انہوں نے جہاد کے نام پر لڑی تھی، اس لیے آج افغانستان کے کیمپوں میں اور طالبان کے حلقوں میں کوئی نئی بات نہیں ہو رہی۔
وقت زیادہ نہیں گزرا، ابھی چند سال پہلے کی بات ہے اور اگر اقوام متحدہ کو اور امریکہ بہادر کو شوق ہے تو آئیں ہم انہیں دعوت دیتے ہیں کہ غیر جانبدار مبصرین کا ایک کمیشن مقرر کر لیں اور افغانستان میں روس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ اور اب امریکہ کی بالادستی اور اس کے گماشتوں کی مداخلت کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کا باہمی موازنہ کر لیں اور کوئی ایک نئی بات دکھا دیں جو اس دور میں نہیں ہوتی تھی اور اب ہوتی ہے۔ ہمیں انہیں یقین دلاتے ہیں کہ اگر وہ اس جنگ اور آج کی جنگ کے حوالہ سے افغانستان کے حالات، مجاہدین کے طرز عمل اور کیمپوں کی صورتحال میں کوئی فرق دکھا دیں تو ہم ان کے موقف کی حمایت پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
امریکہ کو شکایت ہے کہ روس کے خلاف جنگ میں اس نے افغان مجاہدین کی حمایت کی تھی اور ساتھ دیا تھا اس لیے اب افغان مجاہدین کو آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے چلنا چاہیے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ نے ساتھ دیا تھا لیکن امریکہ نے اپنی حمایت کا پھل وصول کر لیا ہے اور سوویت یونین کی شکست و ریخت کی صورت میں نتائج حاصل کر لیے ہیں۔ جبکہ وہ خود سارے نتائج حاصل کر کے افغان عوام کو ان کے حصے کے نتائج سے بہرہ ور ہونے کا حق نہیں دے رہا اور انہیں اپنی جدوجہد کے جائز اور منطقی ثمرات سے محروم کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے جسے کم از کم الفاظ میں کمینگی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
ہم مسٹر کلنٹن اور کوفی عنان سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ افغان عوام اور طالبان میں کوئی فرق نہیں آیا، وہ جب روسی استعمار کے خلاف نبرد آزما تھے اس وقت بھی ان کا واحد ہدف اپنی خود مختاری اور دینی تشخص کا تحفظ تھا اور آج جب انہیں امریکی سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے تب بھی ان کی جنگ اپنے دینی تشخص اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہے۔ تبدیلی اگر آئی ہے تو اس کا مشاہدہ کرنے کے لیے کلنٹن اور کوفی عنان کو آئینے کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے کوئی بات ان سے اوجھل نہیں رہے گی۔ اس لیے آج اگر عالم اسلام کی رائے عامہ بالخصوص جنوبی ایشیا کے مسلمان اور پاکستان کے دینی و سیاسی حلقے افغانستان کے بارے میں امریکہ اور اقوام متحدہ کے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے موقف کو قبول نہیں کر رہے اور منافقت کو دیکھ کر انہوں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا ہے تو اس میں طالبان کا کیا قصور ہے؟ یہ تو مکافاتِ عمل ہے اور منافقت کا منطقی انجام ہے جس سے امریکہ اور اقوام متحدہ کو اب بہرحال گزرنا ہی ہے۔