(ابن خلدون انسٹیٹیوٹ کے سلسلۂ انٹرویو ’’یادِ حیات‘‘ سے ایک سوال)
ہلال خان ناصر: بڑے عالم، آپ کی تحریروں میں ان کو پڑھا ہے، قاضی شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ۔
ابوعمار زاہد الراشدی: حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی حضرت انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے خاص شاگردوں میں سے تھے، دیوبند کے زمانے کے۔ بہت بڑے مدرس تھے، اس میں کوئی شک نہیں، استاذ المدرسین تھے اپنے دور میں۔ گوجرانوالہ میں ہمارے نصرۃ العلوم کے پہلے شیخ الحدیث وہ تھے۔ پہلے انوار العلوم میں پڑھاتے تھے، انوار العلوم کے شیخ الحدیث تھے، پھر نصرۃ العلوم کا جب آغاز ہوا تو نصرۃ العلوم کے ایک دو سال شیخ الحدیث رہے ہیں۔ حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی رحمۃ اللہ علیہ نے جب نصرۃ العلوم میں دورہ کیا تو اس وقت الحدیث یہ (حضرت قاضی صاحب) تھے، بڑے عالم تھے۔ لیکن پھر وہ جب دیوبندی مسلک میں حیات ممات کا مسئلہ ہوا تو انہوں نے الگ ہو کر جامعہ صدیقیہ کے نام سے کچی پمپ والی، شیخوپورہ موڑ کے ساتھ مدرسہ بنا لیا۔
ان کا روزانہ درس ہوتا تھا مغرب کے بعد گلی لانگریاں والی کی جامع مسجد میں، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا، ہمارا ان کا تعلق نیاز مندی کا رہا ہے، اختلاف کے باوجود۔ یہ میں بات ریکارڈ پہ لانا چاہوں گا، قاضی خاندان اور ہمارا خاندان، تمام تر اختلاف کے باوجود، ایک دوسرے کے بارے میں کتابیں بھی لکھی ہیں، کتابوں کے جوابات بھی دیے ہیں، اور بحث مباحثہ بھی ہوتا تھا، لیکن خاندانی تعلق ہمارا اب تک قائم ہے۔ یعنی خاندانی معاملات میں، مشاورت میں، ایک دوسرے کا احترام، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا۔ حضرت قاضی شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بھی، اور ان کے بڑے بھائی تھے حضرت مولانا قاضی نور محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ، وہ بھی ہمارے بڑے اکابر میں سے تھے جو قلعہ دیدار سنگھ میں تھے۔ پھر ان کے بیٹے حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ رحمۃ اللہ علیہ۔
حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو تو ہم نے گھیر گھار کر 1977ء کے الیکشن میں قومی اتحاد کا امیدوار بھی بنایا تھا، ان کی الیکشن کمپین کا انچارج میں تھا اور ہم نے ساری کمپین بھی چلائی تھی۔ یہ بات میں ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ تمام تر اختلافات، مناظرے، ایک دوسرے کے بارے میں کتابیں، لیکن ہمارا خاندانی اور سیاسی تعلق شروع سے چلا آ رہا ہے، اب بھی ہے، اب بھی ہم ایک دوسرے کے ہاں جاتے ہیں اور مشترکہ معاملات میں شریک ہوتے ہیں۔
حضرت قاضی شمس الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ، میں ایک بات لطیفے کی بھی عرض کروں گا۔ حضرت قاضی صاحب بیمار تھے جب، وفات سے کچھ دن پہلے، والد صاحب نے مجھے کہا کہ یار قاضی صاحب کا پتہ لینے جانا ہے، تم بھی ساتھ چلو۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے، بزرگ ہیں۔ عمار اس وقت حفظ کر چکا تھا، میں نے کہا تم بھی ساتھ چلو۔ ہم تینوں گئے: والد صاحبؒ تھے، میں تھا، عمار ناصر تھا۔ حضرت قاضی صاحب نیم بے ہوشی اور کمزوری کی حالت میں تھے۔ میں نے ان کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کیا، حضرت! تین پشتیں حاضر ہیں۔ قاضی صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ قاضی صاحب نے اس کا بڑا اثر لیا۔ بہرحال، ہمارے بزرگ تھے، مزاج ان کا اپنا تھا۔ مولانا قاضی نور محمد صاحب کا مزاج اپنا تھا، قاضی شمس الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا تھا، لیکن ہمارے اکابر تھے، ہم نے ہمیشہ انہیں اپنے بزرگوں کی صف میں ہی دیکھا ہے، اور اپنے بزرگوں کے طور پر ہی ہماری نیاز مندی رہی ہے۔ انہوں نے بھی ہمیشہ شفقت فرمائی ہے۔ یہ اس شہر کی بڑی علمی شخصیات میں سے تھے اور بڑے مدرسین میں سے تھے۔