امام اہل سنتؒ کا اسلوب بیان

   
نومبر ۲۰۱۰ء

والد محترم امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نوراللہ مرقدہ کی حیات و خدمات کے حوالہ سے دارالعلوم مدنیہ بہاولپور کے آرگن ماہنامہ ’’المصطفیٰ‘‘ کی خصوصی اشاعت کا اعلان پڑھ کر اور عزیزم حمزہ سلمہ سے اس کی تیاری کے بارے میں معلومات حاصل کر کے بے حد خوشی ہوئی، دارالعلوم مدنیہ بہاولپور اور اس کے بانی حضرت مولانا غلام مصطفیٰ بہاولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کا حضرت والد محترم قدس سرہ العزیز کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اور تحریکی و جماعتی زندگی میں مولانا غلام مصطفیٰ رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میرا بھی انتہائی قریبی تعلق و رابطہ رہا ہے۔

میں جب نصرۃ العلوم میں تعلیم کے لیے داخل ہوا تو اس وقت حضرت مولانا غلام مصطفیٰ رحمہ اللہ گوجرانوالہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے، ان دنوں مسئلہ حیات النبیؐ پر بحث و مباحثہ اور مناظرہ و مجادلہ کا بازار گرم تھا اور اس مسئلہ پر مولانا قاضی شمس الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’مسالک العلماء‘‘ منظر عام پر آئی تھی، جس پر مولانا غلام مصطفیٰ رحمہ اللہ کا ایک مضمون ’’مسلک العلماء پر بے لاگ تبصرہ‘‘ کے عنوان سے پمفلٹ کی صورت میں شہر میں تقسیم ہوا تھا اور وہ اس مسئلہ کے ساتھ میرا پہلا تعارف تھا۔

والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ کا مزاج و معمول یہ تھا کہ اس طرح کے اختلافی مسائل کے بارے میں وہ مضمون اور کتاب کی صورت میں خوب بحث کرتے تھے اور عام طور پر ان کی تحریر علمی حلقوں میں حرفِ آخر سمجھی جاتی تھی، وہ سبق میں بھی اختلافی مسائل پر محققانہ تبصرہ کرتے تھے اور دونوں طرف کے دلائل کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کر کے مسئلہ کو اس طرح واضح کر دیتے تھے کہ طلبہ کے ذہن میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا تھا۔ لیکن عام اجتماعات، پبلک درس اور خطباتِ جمعہ میں وہ کسی اختلافی مسئلہ کو موضوعِ بحث بنا کر بات نہیں کرتے تھے، البتہ ضمناً کوئی مسئلہ آجاتا تو مسئلہ کی دوٹوک وضاحت کر کے اس کے حق میں دلائل بھی ذکر کر دیتے تھے۔ حضرت والد محترم رحمہ اللہ کی پچاس کے لگ بھگ تصنیفات میں ایک دو کو چھوڑ کر سب کی سب کسی نہ کسی اختلافی مسئلہ پر ہیں، دیوبندی بریلوی اختلافات ہوں، سنی شیعہ کشمکش ہو، حنفی اہلحدیث مسائل ہوں یا حیات و ممات کا مسئلہ ہو انہوں نے کم و بیش ہر مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور ان کا ہر مسئلہ میں ہدف یہ ہوتا تھا کہ علماء دیوبند کثر اللہ جماعتہم کا موقف وضاحت کے ساتھ سامنے آجائے اور دلائل کے ساتھ اس کی برتری ثابت ہو جائے۔ اسی طرح حدیث کی مختلف کتابوں کی تدریس میں بھی ان کا یہ ذوق نمایاں رہا ہے، وہ بسا اوقات احناف اور علماء دیوبند کے مسلک کے حق میں دلائل اور حوالوں کا اس قدر انبار لگا دیتے تھے کہ سننے والوں کو ان کی یادداشت اور مطالعہ پر رشک ہونے لگتا تھا، لیکن عوامی اجتماعات میں ان کا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہوتا تھا، وہ عام جلسہ، خطبہ جمعہ اور عمومی درس میں اصلاحی عنوانات پر گفتگو کرتے تھے اور بالکل سادہ لہجے میں عقیدہ توحید کی وضاحت، سنت کی اہمیت، عام مسلمانوں کی اخلاقی اصلاح اور حلال و حرام کے مسائل پر بات کیا کرتے تھے۔ البتہ اختلافی سمجھے جانے والے مسائل میں سے کوئی مسئلہ درمیان میں آجاتا تو اسے نظر انداز کر کے آگے نہیں گزر جاتے تھے، بلکہ اس پر اپنا مؤقف دوٹوک انداز میں بیان کر کے ضروری دلائل کا حوالہ بھی دیتے تھے۔

حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ کے طرز عمل کا یہ پہلو عام طور پر سب حضرات کے سامنے نہیں ہوتا اس لیے بسا اوقات الجھن پیدا ہونے لگتی ہے۔ چند سال قبل بیرون ملک ایک محفل میں گکھڑ کے ایک جدید تعلیم یافتہ شخص نے حضرت والد محترم رحمہ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ فرقہ وارانہ اختلافات میں نہیں پڑتے تھے اور مثبت انداز میں دین کی بات کیا کرتے تھے۔ محفل سے اٹھنے کے بعد میرے ایک ساتھی نے انتہائی تعجب کے ساتھ مجھ سے پوچھا کہ یہ صاحب کیا کہہ رہے تھے؟ اگر حضرت شیخ اختلافات میں نہیں پڑتے تھے تو اور کون پڑتا تھا؟ ان کی تو ہر کتاب کسی نہ کسی اختلافی مسئلہ پر ہے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ بھی ٹھیک فرما رہے ہیں اور ان صاحب نے بھی درست کہا ہے، اس لیے کہ آپ نے حضرت شیخ رحمہ اللہ کی کتابیں پڑھی ہیں اور ان سے حدیث کے اسباق پڑھے ہیں اور یہ صاحب حضرت شیخ رحمہ اللہ کے پیچھے صرف جمعہ پڑھا کرتے تھے یا کبھی کبھار عوامی درس سن لیا کرتے تھے۔

گزشتہ دنوں ہمارے ایک عزیز شاگرد مولانا حافظ محمد عامر (فاضل دارالعلوم کراچی) نے اس پہلو سے حضرت شیخ رحمہ اللہ کے عوامی دروس اور خطبات کا ایک تجزیاتی مطالعہ کیا ہے اور ایک رپورٹ مرتب کی ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

’’حضرت شیخ رحمہ اللہ گکھڑ کی مرکزی جامع مسجد میں روزانہ صبح نماز فجر کے بعد درس دیا کرتے تھے جس میں سینکڑوں مرد اور خواتین شریک ہوتی تھیں۔ ہفتہ میں تین دن قرآن کریم کا اور تین دن حدیث پاک کا درس ہوتا تھا، قرآن کریم اس درس میں کئی بار مکمل ہوا جو کیسٹوں میں محفوظ ہے اور اب سی ڈی پر بھی آچکا ہے۔ اس عوامی درسِ قرآن کریم کو مولانا نواز بلوچ (فاضل جامعہ نصرۃ العلوم) پنجابی سے اردو میں منتقل کر کے مرتب کر رہے ہیں جو ’’ذخیرۃ الجنان‘‘ کے نام سے شائع ہو رہا ہے۔ سورۃ التوبہ تک اس کی آٹھ جلدیں شائع ہو چکی ہیں جن میں دروس کی تعداد 327 اور صفحات کی مجموعی تعداد 2927 ہے۔ ان دروس کے ذیلی عنوانات 2026 ہیں جن میں ایسے عنوانات صرف 50 ہیں جنہیں عام طور پر اختلافی مسائل سمجھا جاتا ہے۔ (اب الحمد اللہ بیس (20) جلدیں شائع ہو چکی ہیں، ایک جلد باقی ہے۔ [خادم، حمزہ 2016ء])

اسی طرح حضرت شیخ رحمہ اللہ کے 40 سے زائد خطباتِ جمعہ کو جامعہ قاسمیہ گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا قاری گلزار احمد قاسمی (فاضل جامعہ نصرۃ العلوم) نے مرتب کر کے ’’خطباتِ امام اہل السنۃؒ‘‘ کے عنوان سے تین جلدوں میں شائع کیا ہے، جس کے مجموعی صفحات 839 ہیں۔ ان میں کسی ایک خطبہ کا عنوان ایسا نہیں ہے جسے عام طور پر اختلافی مسائل شمار کیا جاتا ہے، 468 ذیلی عنوانات میں سے صرف 10 عنوانات اختلافی مسائل پر ہیں۔‘‘

اس قدر تفصیل ذکر کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ حضرت امام اہل السنۃ رحمہ اللہ کا جو ذوق و اسلوب تصنیف اور تدریس میں تھا، خطباتِ جمعہ اور عوامی مجالس کے بیانات میں ان کا ذوق اس سے بالکل مختلف ہوتا تھا، (لیکن حضرت رحمہ اللہ کی حیات ہی میں ان کی اجازت سے انہی کی مسجد میں مختلف مسلکی عنوانات کے تحت علماء اور مناظرین کے بیانات ہوتے تھے۔ حضرت نے کبھی اس سے منع نہیں فرمایا، بلکہ ان حضرات کو شاباش دی اور حوصلہ افزائی فرمائی۔ اسی طرح ملک بھر میں مختلف مسلکی عنوانات کے تحت جلسے اور بیانات کرنے والوں کو حضرت رحمہ اللہ کی تائید اور سرپرستی حاصل ہوتی تھی۔ الغرض موقع اور محل کے مطابق بیان ہونا چاہیے۔ (خادم حمزہ ) اس لیے حضرت شیخ رحمہ اللہ کی حیات و خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا جذبہ رکھتے ہوئے اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

ضمناً بات دوسری طرف نکل گئی، جبکہ میں مولانا غلام مصطفیٰ رحمہ اللہ کا تذکرہ کر رہا تھا کہ انہوں نے حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’مسالک العلماء‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے جو پمفلٹ لکھا اور جماعت المسلمین حنفیہ گوجرانوالہ نے اسے شائع کر کے شہر میں تقسیم کیا، مسئلہ حیات النبیؐ کے ساتھ میرا پہلا تعارف اسی پمفلٹ کے ذریعہ ہوا۔ پھر استاد محترم مولانا عبد القیوم ہزاروی دامت برکاتہم اور مولانا لالہ عبد العزیز مدظلہ (فاضل دیوبند) کی راہنمائی میں اس مسئلہ پر گوجرانوالہ شہر میں عوامی دروس اور کتابچوں کا جو سلسلہ چلا اس سے بات مزید نکھرتی چلی گئی۔ حضرت مولانا غلام مصطفیٰ بہاولپوری رحمہ اللہ کو اس دوران میں نے متعدد بار جامع مسجد نور (مدرسہ نصرۃ العلوم) گوجرانوالہ میں اور مرکزی جامع مسجد گکھڑ میں حضرات شیخین رحمہما اللہ کی عدم موجودگی میں جمعۃ المبارک کا خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے بھی سنا۔

اس کے بعد ہماری باہمی رفاقت کا ایک طویل دورانیہ جمعیۃ علماء اسلام میں متحرک زندگی کا ہے جو مولانا غلام مصطفیٰ رحمہ اللہ کی وفات تک مسلسل جاری رہا۔ حضرت مولانا عبداللہ درخواستی، حضرت مولانا مفتی محمود، حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی اور حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمہم اللہ کے ساتھ ہمارا ایک تعلق تھا، اور جماعتی زندگی اور تحریکات میں ہماری مشاورت و رفاقت اتار چڑھاؤ کے کئی مراحل سے گزرنے کے بعد بھی آخر وقت تک قائم رہی۔

دارالعلوم مدنیہ میں میری حاضری کا سلسلہ بھی اسی وقت سے ہے جب حضرت مولانا غلام مصطفیٰ صاحب اس کے ناظم اعلیٰ تھے اور ہم نے جمعیۃ علماء اسلام کے بہت سے اجتماعات اس ادارہ میں کیے ہیں۔ حضرت مولانا غلام مصطفیٰ رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ان کے فرزندانِ گرامی اور ان کے خصوصی رفیق حضرت مولانا مفتی عطاء الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم کے ساتھ میرا مسلسل رابطہ ہے اور یہ حضرات بھی ہمیشہ شفقت و محبت سے نوازتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین

اس پس منظر میں ماہنامہ ’’المصطفیٰ‘‘ کی طرف سے حضرت والد محترمؒ کی حیات و خدمات پر خصوصی اشاعت کا اہتمام جہاں حضرت شیخ رحمہ اللہ کے ساتھ دارالعلوم مدنیہ بہاولپور کے خصوصی تعلق وعقیدت کا اظہار ہے وہاں علماء دیوبند کثر اللہ جماعتہم کے مؤقف و مسلک اور ان کی علمی و دینی جدوجہد کے ساتھ گہری وابستگی کا بھی مظہر ہے۔ اس لیے کہ ہمارا اصل رشتہ دین ہی کا ہے اور ہمارا اساسی تعلق فکر و نظریہ کے حوالہ سے ہے کہ ہم سب بحمد اللہ تعالیٰ ایک ہی چشمہ فیض دارالعلوم دیوبند سے استفادہ کرنے والے ہیں اور امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا سب سے بڑا امتیاز اپنے معاصرین میں یہی ہے جس نے انہیں پورے جنوبی ایشیا میں دیوبند مسلک کے علمی ترجمان کا مقام بخشا ہے کہ وہ اہل السنۃ والجماعۃ حنفی دیوبندی مسلک کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ رکھتے تھے اور اس کی وضاحت و ترجمانی اور دفاع کو اپنا اولین فریضہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ وہ کم و بیش ہر سال دورہ حدیث سے فارغ التحصیل ہونے والے فضلاء کو بطور خاص دو باتوں کی تلقین کیا کرتے تھے۔

1. ایک یہ کہ اپنے اکابر کا دامن کسی حالت میں نہ چھوڑنا اور ان کی تحقیقات پر اعتماد کرنا۔ وہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ اس دور میں اللہ تعالیٰ نے علماء دیوبند کو دین کی صحیح ترجمانی کے لیے چنا ہے اور وہی آج کے زمانے میں حق کی علامت ہیں۔ اس بات پر وہ خود بھی سختی کے ساتھ قائم تھے اور اپنے متعلقین کو بھی اس کی مسلسل نصیحت کیا کرتے تھے۔

2. دوسری بات جس کی وہ ہمیشہ تلقین کرتے تھے یہ کہ کوئی بھی مسئلہ بیان کرتے ہوئے موقف دو ٹوک رکھیں اور اس میں کوئی لچک نہ دکھائیں، لیکن بیان کا انداز تفہیم کا ہو، الفاظ نرم ہوں اور لہجے میں سختی نہ ہو۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں گکھڑ میں قرآن کریم حفظ کرتا تھا، ہمارے حفظ کے استاد حضرت مولانا قاری محمد انور صاحب مدظلہ جو گزشتہ کم و بیش تیس برس سے مدینہ منورہ میں تحفیظ قرآن کریم کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں، ان دنوں گکھڑ میں ہمیں پڑھاتے تھے۔ وہ کبھی کبھی اپنے استاد محترم حضرت مولانا قاری سید حسن شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو گکھڑ تشریف آوری کی زحمت دیا کرتے تھے، اس موقع پر عام جلسہ ہوتا تھا جس میں ہم سب حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کی پرسوز تلاوت اور ناصحانہ وعظ سے فیض یاب ہوا کرتے تھے۔ ان کی ایک تشریف آوری کے موقع پر جی ٹی روڈ پر مسجد شاہ جمال کے سامنے جلسہ تھا، استاد محترم قاری محمد انور مدظلہ نے مجھے بھی چند منٹ تقریر کرنے کے لیے تیار کیا اور ان کی ترغیب پر میں نے چند منٹ تقریر کی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی ایک تحریر میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی توہین کا حوالہ میں نے یاد کیا ہوا تھا، وہ حوالہ سنا کر میں نے مرزا قادیانی کو بے نقط سنانا شروع کردیں۔ حضرت والد محترم رحمہ اللہ سٹیج پر موجود تھے، انہوں نے اٹھ کر مائیک میرے سامنے سے ہٹا کر خود لے لیا اور باقاعدہ معذرت کے انداز میں مائیک پر فرمایا کہ ’’بچہ ہے، نادان ہے، اس لیے اس قدر سخت باتیں کر گیا ہے۔‘‘ پھر بعد میں مجھے الگ سے سمجھایا کہ تقریر میں اس طرح کی سخت باتیں نہیں کیا کرتے۔

اس کے ساتھ ایک اور واقعہ کا تذکرہ بھی مناسب سمجھتا ہوں، وہ یہ کہ میرے طالب علمی دور میں ایک دفعہ فاتحِ قادیان حضرت مولانا محمد حیات صاحب نوراللہ مرقدہ گوجرانوالہ تشریف لائے اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں دینی مدارس کے طلبہ کے لیے غالباً پندرہ روزہ تربیتی کورس کا اہتمام کیا گیا، جس میں ایک طالب علم کے طور پر میں بھی شریک ہوا۔ ایک دن حیاتِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر قادیانی موقف کی تردید میں حضرت استاد محترم رحمہ اللہ نے کچھ دلائل ہمیں پڑھائے اور مجھے فرمایا کہ جو کچھ پڑھا ہے اس پر کلاس میں کھڑے ہو کر تقریر کرو۔ میں نے چند منٹ تقریر کی اور انتہائی جارحانہ انداز میں مرزا قادیانی پر خطیبانہ گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ استاد محترم حضرت مولانا محمد حیات رحمہ اللہ تعالیٰ نے فوراً ٹوک دیا اور اپنے مخصوص لہجے میں فرمایا ’’ناں بیبا ایواں نئیں کہندے، اوہ وی اک قوم دا لیڈر آ‘‘ (نہ بیٹا! یوں نہیں کہتے، وہ بھی ایک قوم کا لیڈر ہے۔)

پھر ہمیں سمجھایا کہ اس طرح کہا کرو کہ مرزا صاحب نے یوں کہا ہے مگر ان کی بات درست نہیں ہے اور پھر دلائل کے ساتھ اس کا رد کرو۔

اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ حضرت والد محترم رحمہ اللہ کے حوالہ سے بھی میں عام طور پر بیان کیا کرتا ہوں جو خود میرے ساتھ پیش آیا۔

صدر ایوب خان کا دورِ حکومت تھا اور وہ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ اخبارات میں رؤیت ہلال کے سلسلہ میں ایک بحث چل پڑی اور معروف اہل حدیث عالم حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑی کا ایک مضمون اخبار میں شائع ہوا جس سے ہمارے حلقے کو اختلاف تھا۔ میں نے اس کے جواب میں اخبار کو بھجوانے کے لیے ایک مراسلہ لکھا اور حضرت والد محترم رحمہ اللہ کو بھیجنے سے پہلے دکھایا۔ اس میں یوں لکھا تھا ’’حافظ عبد القادر کہتا ہے‘‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے حضرت والد محترم رحمہ اللہ نے اپنا ہاتھ تھپڑ مارنے کے لیے اٹھایا (اگلی بات کہ تھپڑ مارا یا نہیں، مجھے یاد نہیں) اور فرمایا کہ ’’تیرا چھوٹا بھائی ہے؟ ہو سکتا ہے تمہارے باپ سے بھی بڑا ہو۔‘‘ پھر فرمایا کہ یوں لکھو کہ ’’مولانا حافظ عبد القادر روپڑی نے یہ لکھا ہے اور مجھے ان کی بات سے اختلاف ہے۔‘‘

حضرت والد محترم رحمہ اللہ جب وعظ و بیان میں نرم لہجہ رکھنے کی تلقین کرتے تھے تو عام طور پر ایک واقعہ بھی سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید رحمہ اللہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے کسی شہر کی جامع مسجد میں گئے تو خطیب صاحب نے انہیں سامنے بیٹھا دیکھ کر موقع غنیمت سمجھا اور انہیں سخت لہجے میں خطیبانہ جھاڑ پلا دی۔ نماز جمعہ کے بعد خلیفہ ہارون الرشید نے خطیب محترم سے مصافحہ کیا اور بڑے احترام سے پوچھا کہ حضرت! اگر اجازت ہو تو ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں؟ انہوں نے کہا فرمائیے۔ ہارون الرشید نے کہا کہ آپ کا رتبہ زیادہ ہے یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقام و مرتبہ زیادہ تھا؟ خطیب صاحب نے اس پر استغفار پڑھی اور کہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ کہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور کہاں میں ایک گنہگار مسلمان؟ میں تو ان کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوں۔

ہارون الرشید نے کہا اچھا یہ بتائیے کہ میں زیادہ برا ہوں یا فرعون زیادہ بُرا تھا؟ خطیب صاحب نے ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ پڑھا اور کہا کہ فرعون کے ساتھ آپ کا کیا مقابلہ؟ وہ خدائی کا دعویدار تھا اور پکا کافر تھا اور آپ جیسے بھی ہیں مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے امیر المؤمنین ہیں۔

اس پر خلیفہ ہارون الرشید نے کہا کہ حضرت! جب اللہ تعالیٰ نے آپ سے کہیں زیادہ بہتر شخصیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مجھ سے کہیں زیادہ برے شخص فرعون کے پاس بھیجا تھا تو فرمایا تھا کہ ’’قولا لہ قولا لينا لعلہ يتذكر او يخشی‘‘ تم دونوں بھائی (حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام) فرعون کے ساتھ نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت پکڑے یا خدا سے ڈر جائے۔

یہ واقعہ میں نے حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ سے کئی بار سنا ہے اور ان کا اپنا اسلوب بھی یہی تھا کہ بات نرمی سے کرتے تھے، دلیل کے ساتھ کرتے تھے اور سمجھانے کے انداز میں کرتے تھے۔ البتہ موقف دوٹوک ہوتا تھا، جس بات کو حق سمجھتے تھے اس کے اظہار میں کوئی لچک نہیں دکھاتے تھے اور مکمل تحقیق کے بغیر کوئی بات حتمی طور پر نہیں کیا کرتے تھے۔

حضرت والد محترم رحمہ اللہ کی دینی جدوجہد کے مختلف پہلو تھے، جن میں علماء دیوبند کے مسلک کی ترجمانی اور دفاع کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، اور مجھے خوشی ہے کہ اس محاذ پر ہمارے خاندان کے تین اصحابِ علم و مطالعہ مولانا حافظ عبد القدوس خان قارن، مولانا عبد الحق خان بشیر اور مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی بطور خاص حضرت شیخ رحمہ اللہ کی نمائندگی کرتے ہوئے مسلسل مصروفِ عمل ہیں اور بہت حد تک ان کے اسلوب و ذوق کا دائرہ بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ البتہ میرا ذوق اور دائرہ کار قدرے مختلف ہے، میری تگ و تاز اور جدوجہد کے دو بڑے دائرے ہیں:

ایک تحفظ عقیدہ ختم نبوت کا دائرہ اور دوسرا ملک میں نظامِ شریعت کی جدوجہد اور عالمی سطح پر شریعتِ اسلامیہ کے خلاف مغربی فکر و فلسفہ کی یلغار کا علمی و فکری طور پر مقابلہ۔

اور میں سمجھتا ہوں کہ حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ اور عمِ مکرم مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہ اللہ نے دینی جدوجہد کے مختلف شعبوں میں کام کیا ہے، لیکن جیل انہی دو مذکورہ بالا مقاصد کے لیے کاٹی ہے اور دونوں بزرگ ان دونوں مقاصد کے لیے زندگی بھر سرگرم عمل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اپنے دائرہ میں دینی خدمات سرانجام دیتے رہنے اور حضرات شیخین رحمہما اللہ تعالیٰ کی حسنات کو جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین

میں ایک بار پھر ماہنامہ ’’المصطفیٰ‘‘ بہاولپور کے ’’امام اہل سنتؒ نمبر‘‘ کی اشاعت کے اہتمام پر ماہنامہ کی ادارتی ٹیم اور دارالعلوم مدنیہ بہاولپور کے اربابِ حل و عقد کو مبارک باد دیتا ہوں، اپنے خاندان کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبولیت و ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں اور سب متعلقین کے لیے سعادت دارین کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔

(مجلہ صفدر، گجرات۔ امام اہل سنتؒ نمبر، طبع دوم ذوالحجۃ 1431ھ)
   
2016ء سے
Flag Counter